ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے انسان دوست، جن میں لاتعداد
امریکی اور خود یہودی بھی شامل ہیں، غزہ پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کررہے
تھے، بھارت کے ہندو انتہا پسند اسرائیل سے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے تھے۔
مسلم دشمنی نے ان مودی سرکار کے حامی اور ہندوتوا کے پیروکاروں کو یوں
اندھا کردیا کہ انھیں اسرائیلی فوج کی بمباری میں جان سے جانے والے ننھے
ننھے بچوں کی لاشیں بھی نظر نہ آئیں۔ جتنے دن اسرائیل کی دہشت گردی جاری
رہی سوشل میڈیا پر بھارتی #ISupportIsrael, #IndiaWithIsrael, #IndiaStandsWithIsrael
and #IsrealUnderFire جیسے ہیش ٹیگز کے ساتھ صہیونی ریاست سے محبت جتاتے
رہے۔ اتنا ہی نہیں اسرائیل کی زبان بولتے ہوئے وہ حماس کو دہشت گرد تنظیم
کہتے رہے اور باقاعدہ ہیش ٹیگ #PalestineTerrorists کے ذریعے تمام
فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا، جو بھارت میں ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ
بن گیا۔ سوشل میڈیا خاص طور پر ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر بھارتیوں کی جانب سے
اسرائیل کی حمایت عام لوگوں تک محدود نہیں تھی، حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا
پارٹی کے مرکزی راہ نما، وکلاء اور صحافی بھی اسرائیل نوازی اور فلسطینیوں
سے دشمنی کے اس عمل میں پیش پیش رہے۔ پارلیمنٹ کے بی جے پی سے تعلق رکھنے
والے رکن تیجاسوی سوریہ (Tejasvi Surya)نے ٹوئٹر پر لکھا،’’اسرائیل، ہم
تمھارے ساتھ ہیں، مضبوط رہو اسرائیل۔‘‘ اسی طرح بے جے پی کے راہ نما گوریو
گویل نے اسرائیلی فوجیوں کی تصویر کے ساتھ ٹوئٹ کیا،’’عزیز اسرائیلیو، تم
اکیلے نہیں، ہم بھارتی تمھارے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘ ایک مقبول بھارتی سوشل
میڈیا ایکٹیوسٹ ہردک بھاوسر نے غزہ میں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والی
عمارت سے اٹھتے شعلے دکھاتی وڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا،’’دیوالی مبارک ہو
لبرلز۔‘‘
تاریخی طور پر بھارت فلسطین کی تحریک آزادی کا طرف دار رہا ہے، مگر یہ سب
محض دکھاوا تھا، جس کا مقصد خود کو انسانیت سمیت اعلیٰ اقدار کی حامی ریاست
باور کرانا، اسرائیل مخالف کمیونسٹ بلاک کی نظر میں خود کو سرخرو کرنا اور
خود کو مسلم ممالک کا دوست باور کرانا تھا، جب تک کانگریس کی حکومت اقتدار
میں رہی یہ ڈھونگ خوش اسلوبی سے رچایا جاتا رہا، لیکن ہندوتوا کے نام
لیواؤں کے حکومت میں آتے ہی رفتہ رفتہ منافقت کی یہ نقاب اترتی گئی۔ بھارت
نے اسرائیل کو 1950 میں تسلیم کرلیا تھا، لیکن دونوں ملکوں کے سفارتی
تعلقات 1992میں استوار ہوئے۔ اس وقت سے مسلم دشمنی اور پاکستان سے مخاصمت
کے یکساں جذبات رکھنے والے بھارت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات اس حد تک بڑھ
چکے ہیں کہ بھارت اسرائیل کے عسکری سازوسامان کا سب سے بڑا خریدار ہے اور
اسرائیل روس کے بعد سب سے زیادہ دفاعی سامان بھارت کو فروخت کرتا ہے۔
اسرائیل کی عسکری برآمدات کا 46 فی صد بھارت کو جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی اب
ڈھکی چھپی نہیں کہ کشمیر میں مزاحمت کو کچلنے کے لیے اور پاکستان کے خلاف
کارروائیوں میں اسرائیل بھارت کی دل جان سے مدد کرتا رہا ہے۔
اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعلقات گذشتہ کچھ عشروں کے دوران تیزی سے
فروخت پائے ہیں۔ خاص طور پر ہندو انتہاپسند سیاست داں نریندر مودی اور
اسرائیل کے شدت پسند وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو(Benjamin Netanyahu) کے
دورحکومت میں دونوں ملکوں میں باہمی تعاون میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا
ہے۔ جولائی 2017 میں نریندرمودی نے، جو نیتن یاہو کو اپنے دوستوں میں شمار
کرتے ہیں، اسرائیل کا دورہ کیا، یوں وہ صہیونی ریاست کا دورہ کرنے والے
پہلے بھارتی وزیراعظم قرار پائے۔ بھارت کے سیکولر اور لبرل دانش ور بھارت
اور اسرائیل کی اس بڑھتی دوستی اور فروغ پاتے باہمی تعاون کو صہیونیت اور
ہندوتوا کا اتحاد قرار دیتے ہیں۔ ان دونوں انتہاپسند اور نسل پرست قوتوں کے
مشترکہ نظریات اور ایجنڈا انھیں ایک دوسرے کا فطری حلیف بناتے ہیں۔
مسلمانوں سے نفرت ان دونوں کا وہ مشترکہ جذبہ ہے جو انھیں ایک دوسرے کے
قریب لے آیا ہے۔ پھر اُدھر فلسطینیوں کو مسل دینے کی آرزو اور اِدھر
کشمیریوں کو مٹادینے کا سپنا ان دونوں ملکوں کو اتحاد کی ایک اور بنیاد
فراہم کرتا ہے۔ مسلم دشمنی میں ہندوتوا کے ماننے والے بھارتیوں کی اسرائیل
سے محبت اور دلی قربت کا ایک منظر دنیا نے بھارت کے سابق وزیرخارجہ جسونت
سنگھ کے دورۂ اسرائیل کے دوران دیکھا۔ اٹل بہاری باجپائی کی وزارت عظمیٰ کے
دور میں وزیرخارجہ کے منصب پر فائز جسونت سنگھ اسرائیل کا دورہ کرنے والے
پہلے بھارتی وزیرخارجہ تھے۔ انھوں نے یہ دور 2000 میں کیا۔ انہوں نے یروشلم
میں دیوارگریہ کا بوسہ لے کر کہا تھاکہ’’اقلیتوں کی منہ بھرائی کی پالیسی
کی وجہ سے ہندوستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی رشتے قایم کرنے میں تاخیر
ہوئی۔‘‘ انھوں نے ’’اقلیتوں کی منہ بھرائی‘‘ کے الفاظ کے ذریعے انھوں نے
بھارتی مسلمانوں کی طرف اشارہ کیا، جن کی ’’خوشنودی‘‘ اسرائیل سے دوستی کی
راہ میں بھارت کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ یہ تو اس وقت کی بات ہے جب بھارت
کُھل کر اسرائیل سے ہاتھ ملا چکا تھا، لیکن دونوں کے گٹھ جوڑ کی کہانی اس
سے خاصی پرانی ہے۔ دہلی میں مقیم بھارتی صحافی معصوم مرادآبادی کے مطابق
ستر کے عشرے میں اسرائیل کے وزیردفاع موشے دایان نے بھارت کا خفیہ دورہ کیا
تھا اور اس وقت کے وزیراعظم مرارجی ڈیسائی سے ملاقات کی تھی۔ اس دورے کا
اہتمام برسراقتدار جنتا پارٹی کے مرکزی وزیرڈاکٹرسبرامنیم سوامی نے کیا تھا،
جو اس وقت بھی بھارت میں اسرائیل کے دیرینہ اور معتمد ترین دوست سمجھے جاتے
ہیں۔
آج بھارت اسرائیل نوازی میں اس حد تک آگے جاچکا ہے کہ مودی سرکار کو کسی کا
اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانا بھی قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں پر
اسرائیلی مظالم کی حالیہ لہر کے دوران مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر
میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے پر ہلا بول کر 21 مظاہرین کو گرفتار کرلیا
گیا۔
اس پس منظر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھارتی نمائندے
ٹی ایس تری مورتی کا خطاب بہ ظاہر فلسطینیوں کی حمایت میں نظر آتا ہے مگر
یہ تقریر بھی بھارت کی ریاکاری پر مبنی پالیسی کا حصہ ہے۔ اس تقریر میں
اسرائیل پر راکٹ حملوں کو تو تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن غزہ میں
اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں کی مذمت سے گریز
کیا گیا۔ اس طرح بھارت نے بڑی ہوشیاری سے ایک طرف عربوں اور مسلمانوں کے
آنسو پونچھنے کی کوشش کی دوسری طرف اسرائیل سے اپنا یارانہ بھی نبھایا۔
بھارت کا یہ چلن ان مسلم ممالک کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو اسے
اپنا دوست سمجھے اور اسے خوش رکھنے کے لیے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی
ہمنوائی کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ |