کسی نے سچ کہا ہے کہ کہ دل انسانی جسم میں بادشاہ
کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ دماغ اس کا وزیر اور تابع فرمان ہے ۔ دل میں
خواہشیں اور تمنائیں پیدا ہوتی ہیں ۔دماغ ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے
منصوبہ بندی کرکے عملی جامہ پہناتا ہے ۔ عید الفطر گزرنے کے بعد ہمارے دل
میں بھی تفریحی مقامات کی سیر کرنے کی خواہش پیدا ہوئی ۔اگر چہ کورونا کی
وجہ سے سیاحتی مقامات پر جانے کی ممانعت بھی تھی مگر دماغ نے دل کی حکم کی
تعمیل کے لئے الف ب پلان بنا ہی لیا اور ہم اپنا ضروری سامان لے کر ایبٹ
آباد کی طرف روانہ ہوئے ۔ اﷲ بھلا کرے، ان لوگوں کا ،جنہوں نے پشاور سے
ایبٹ آباد تک موٹر وے بنائی ہے اور ا س سفر کو صرف آسان ہی نہیں بنایا بلکہ
ہزاہ موٹر وے پر جاتے ہوئے ارضِ پاک کے سینے پر پھیلے ہوئے انسانی آبادی کا
نظارہ دیکھنے کا موقعہ بھی فراہم کیا ۔اسی موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے جب ہم
ارد گردکے حسیں نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے تو ہلکی ہلکی پھوار ، رم
جھم ر م جھم نے ایبٹ آباد کی پوری فضا کو معطر کئے ہوئے تھا ۔ یوں ایبٹ
آبادتک پہنچنے میں ہمیں تھکاوٹ محسوس ہونے کی بجائے فرحت محسوس ہوئی۔ایبٹ
آباد بذاتِ خود ایک حسیں و جمیل جگہ ہے بلکہ اسے اگر جنت کا دروازہ کہا
جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ کیونکہ اس کے قرب و جوار میں بے شمار تفریحی
مقامات ہیں ۔ سو ہم نے ایبٹ آباد میں پڑاؤ ڈالا تاکہ اگلے دن سے ایبٹ آباد
کے چاروں اطراف تفریحی مقامات کی سیر کر سکیں ۔
پہلے روز ہم نے مری روڈ پر واقع ہر نوئی نام کی سیاحتی مقام دیکھنے کا
ارادہ کیا ۔ ہر نوئی ایبٹ آباد سے مری رڈ پر صرف پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر
واقع ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے ۔ صاف شفاف پانی سے مرصع جھیل اور بہتا
ہوا پانی دل و دماغ کی آبیاری کرتا ہوا سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا چلا
جاتا ہے ۔ بہتے ہوئے برفانی پانی میں ہم نے اپنے پاؤں رکھے تو پانی کی
ٹھنڈک نے دماغ تک رسائی حاصل کرنے میں دیر نہیں لگا ئی ۔ واپسی میں ہم نے
ایبٹ آباد کی مشہور ’’ الیاسی مسجد ‘‘ کی ٹھانی تاکہ وہاں کے مشہور پکوڑوں
سے ہرنوئی کی پیدہ کردہ بھوک میں کمی لائیں ۔ ویسے اس مسجد کی وجہ شہرت صرف
لذیذ پکوڑے ہی نہیں بلکہ اس میں بہنے والا ایک میٹھے پانی کا چشمہ بھی ہے ۔
دوسرے دن ہم نے ایبٹ آباد سے تقریبا 37کلومیٹر پر واقع نہایت ہی دل موہ
لینے والا سیاحتی مقام ٹھنڈ یانی کی راہ لی ۔ ایبٹ آباد سے نکلتے ہی چڑھائی
شروع ہو جاتی ہے اور ٹھنڈ یانی تک زیگ زاگ کی صورت میں سڑک بَل کھاتے ہوئے
اپنے اطراف میں موجود دیوہیکل درختوں اور خوبصورت نظاروں نے سحر زدہ ماحول
کا سماں پیدا کیا ہوا تھا ۔ ٹھنڈ یانی پہنچے تو یوں محسوس ہوا جیسے بادل
ہمیں خوش آمدید کہنے نیچے اتر آئے ہیں ۔ چاروں طرف خوبصورت نظاروں کا جال
پھیلا ہوا تھا ۔ وہاں چند مقامی افراد گھوڑوں کی لگام ہاتھ میں لئے ہوئے
گھوڑ سواری کی دعوت دے رہے تھے مگر ہم بوجہ پیری گھوڑسواری کرنے سے باز ہی
رہے ۔ ہمیں وہاں کافی سردی محوس ہوئی اور ایک پٹھانی واسکٹ اسے برداشت کرنے
کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا لہذا ایک گھنٹہ وہاں گزارنے کے واپسی کی راہ لی ۔
اسی دن شام کو ایبٹ آباد کے ماتھے کا جھومر ’’ شملہ پہاڑی ‘‘ دیکھنے نکلے ۔
شملہ پہاڑی سے ایبٹ آباد کا دلکش نظارہ دل موہ لیتا ہے ۔ لیکن اس پہاڑی پر
واقع پارک چونکہ کورونا پابندی کی وجہ سے بند تھا ۔لہذا ہم نے وہاں قریب
ترین بلوچ آفیسرز میس میں جانے کی راہ لی ۔ واضح رہے کہ یہ میس نہایت
خوبصورت ڈیزئن کا بنا ہوا ایبٹ آباد شہر اور قرب و جوا رکے علاقوں کو
دیکھنے کی بہترین جگہ ہے ۔اگر چہ یہاں صرف فوجی افسران کو ہی جانے کی اجازت
ہے مگر ہم تو ٹہرے فوجی افسر کاباپ ، لہذا وہاں جاکر ہم نہ صرف یہ کہ ایبٹ
آباد شہر کے دلکش نظارے کو ذہن میں محفوظ کرنے میں کامیاب رہے بلکہ میس کی
طرف سے لذت کام و دہن سے بھی محظوظ ہوئے ۔ اگلے روز ہمارا پروگرام نتھیا
گلی جانے کا تھا ۔ نتھیا گلی نام سے قارئین واقف ہو نگے ایبٹ اباد سے مری
جاتے ہوئے یہ ایک نہایت خوبصورت اور سیاحتی مقام ہے ۔ یہاں مری کی طرح
زیادہ رش بھی نہیں ہو تا ۔، جاتے ہوئے جگہ جگہ پر پولیس سیاحوں کو کورونا
کی وجہ سے جانے سے روک رہی تھی مگر ہمیں خلائی مخلوق کی مدد حاصل تھی لہذا
کوئی دّقت پیش نہ آئی ۔ نتھیا گلی کا پر فضا مقام دل کو موہ لیتا ہے ۔ ہم
پہنچے تو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور سر سبز و شاداب ارضِ پاک کی بھینی
بھینی خوشبو دل و دماغ کو معطر کر ہی تھی ۔ گرمیوں میں یہ مقام قیام کے لئے
کسی جنت سے کم نہیں ۔چند گھنٹے وہاں گھومنے پھرنے کے بعد ہم اپنے بیس کیمپ
ایبٹ آباد روانہ ہو گئے ۔ رات جی بھر کے سوئے اور اگلی صبح ایکسپریس وے پر
مانسہرہ، شنکیاری کی طرف عازمِ سفر ہوئے ۔ راستے میں ایکسپریس وے کے پہلو
میں سبزہ زاروں ، چھائی ہوئی خوبصورتی اور ٹنلز نے ہمیں مسحور کر دیا ۔
کالم ہذا کی تنگ دامنی میرے اس تفریحی دورے کی تفصیلات بیاں کرنے کی متحمل
نہیں ہو سکتی مگر مختصرا یہی کہونگا کہ وطنَ عزیز میں موجود ان تفریحی
مقامات کو دیکھ کر پاکستان سے محبت دوگنی ہو جاتی ہے لہذا جس کا بس چلے ،
اسے ان علاقوں کی خوبصورتی دیکھنے ضرور جانا چاہئیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|