28 مئی۔یوم تکبیر۔

وطن عزیز پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف کے دور میں دھماکوں تک ہر حکمران اور سائنسدانوں کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے،اس دوران ایسے حکمران بھی آئے جو باہم بدترین مخالف تھے لیکن پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کہیں کوئی بھی اختلاف نظر نہیں آتا بلکہ تمام حکمران ایک ہی صفحہ پر دکھائی دیے۔بھارت کے دھماکے تو عالمی برادری نے بڑی آسانی سے قبول کر لئے،پاکستان کے ہضم نہیں ہورہے تھے،پاکستان کی طرف سے دھماکوں کو آپشن قرار دینے پر امریکہ اور دیگر ممالک کا پاکستان پر دباؤ بڑھ گیا جس سے وزیراعظم نواز شریف بھی متاثر ہوگئے۔مگر ملک کے اندر سے ان پردھماکے کرنے کیلئے دباو? تھا وہ تذبذب میں تھے،اس دوارن انہوں نے وسیع تر مشاورت کا سلسلہ شروع کیا،میڈیا کے لوگوں کو بلایا تومجید نظامی نے یہ کہہ کر نواز شریف کا مخمصہ اور تذبذب دور کردیا کہ میاں صاحب دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردے

ان ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکہ اور یورپ کی جانب سے پاکستان کو بیشمار پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، حالانکہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا مقصد، علاقے میں امن کا قیام اور بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی ممکنہ جارحیت کے سدباب کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔آنے والی دنوں نے ثابت کیا کہ پاکستان کی حکمت عملی درست تھی اور ایٹمی طاقت بننے کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات کتنے ہی کشیدہ کیوں نہ ہو گئے ہوں دونوں ممالک میں جنگ نہ ہو سکی۔2002ء میں بھارت نے اپنی پانچ لاکھ فوج پاکستان کے بارڈر پر لا کر کھڑی کر دی، جو گیارہ ماہ پاکستان کے بارڈر پر کھڑی رہی۔ سینکڑوں فوجیوں کی موت اور اربوں روپے کے خرچ کے باوجود بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔اسکے بعد2008ء اور 2019کو بھی دیکھا گیا کہ تمام تر خواہش کے باوجود بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کی ہمت نہ کر سکا کیونکہ الیکشن مہم کی گرما گرم تقاریر اپنی جگہ، لیکن بھارت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان کے خلاف کوئی بڑا جارحانہ قدم اٹھانے کی ہمت دراصل کتنی بڑی حماقت ہو گی۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اس وقت خطے میں امن کے قیام میں سب سے بڑی روکاوٹ ہیں۔۔بھارت نے بلاسٹک میزائل پروگرام، آبدوزوں کے ذریعے ایٹمی میزائل داغنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی طرف قدم اٹھا کر، نہ صرف اس خطے بلکہ تمام دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ ایٹمی پاکستان کے خلاف بھارت نے ’’کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ بنائی لیکن پاکستان نے ایٹمی صلاحیت کے حامل النصر میزائیل اور ’’ٹیکٹیکل نیوکلئیر ویپن‘‘ (TNW) بنا کر بھارتی ’’کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ کو ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا کر دیا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ دنیا نے 27 اور 28 فروری 2019کو دیکھا۔

ایٹمی پروگرام کا پس منظر۔
پاکستان کے پر امن ایٹمی پروگرام کا باقاعدہ آغاز تو قیام پاکستان کے فورا بعد ہوگیا تھا ’’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن‘‘ 1956 میں قائم ہوا تھا لیکن اس کا مقصد کسی طور بھی ایٹم بم بنانا نہیں تھا۔ 60 کی دہائی میں پاکستان کو مصدقہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ بھارت ’’بھا بھا ایٹمی تنصیبات‘‘ میں ایٹم بم کی تیاری کی کوشش کر رہا ہے۔ اس وقت کے وزیر خارجہ مسٹر بھٹو نے ۱۱ دسمبر 1965 کو لندن میں صدر ایوب خان اور ڈاکٹر منیر احمد کی ایک ملاقات کا اہتمام کیا اور دونوں نے مل کر ایوب خان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان حالات میں، ایٹمی اسلجے کی دوڑ میں شامل ہونا پاکستان کی مجبوری بن چکا ہے۔ ا سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس امر کا یقین ہوگیا کہ پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں پر یقین کرنے کی بجائے اپنے زور بازو سے کچھ کرنا ہو گا۔ اس میں اہم ترین رول بلا شبہ بھٹو کا بھی تھا جو اب وزیر اعظم کی حیثیت سے فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ 20 جنوری 1972 کو، ملتان میں پاکستان کے سرکردہ سائنسدانوں اور انجئینرز کی ایک میٹنگ وزیر اعظم بھٹو کی زیر صدارت ہوئی، جسے ’’ملتان میٹنگ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میٹنگ میں پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے کسی بھی قیمت پر ایٹم بم بنانے کا اصولی فیصلہ کیا۔ اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے اس وقت کے سربراہ منیر احمد کی سربراہی میں سائنس دانوں نے اس سلسلے میں کام کا آغاز کیا۔ ان میں ریاض الدین، فیاض الدین اور فہیم حسین سمیت بہت سے سائنس دان شامل تھے۔ اسی دوران 1974 میں بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر دیا جبکہ پاکستان کو اس سلسلہ میں ابھی تک خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔ اسی سال یعنی 1974 میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور ’’کہوٹہ ریسرچ لیباٹریز‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آگے کی داستان سب کو معلوم ہے۔ بھارت نے جب 1998 میں ’’آپریشن شکتی‘‘ کے نام سے پوکھران کے مقام پر مزید پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو شاید اسے غلط فہمی تھی کہ پاکستان بھارت کی اس بلا جواز اشتعال انگیزی کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ عالمی برادری خاص طور پر امریکہ اور مغربی دنیا نے بھارت کی اس عالمی جارحیت کا کوئی زیادہ برا نہ منایا اور بھارت کے ساتھ انکے تعلقات معمول کے مطابق ہی چلتے رہے۔ پاکستان کی حکومت اور اداروں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو آخر کار وہ پاکستان کی بقا اور حفاظت کے لیے اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں اور پاکستان نے بھارتی ’’دھمکی‘‘ کا جواب 28 مئی 1998ء کو اپنے پہلے ایٹمی دھماکے ’’چاغی اول‘‘ کی شکل میں دیا۔ 30 مئی تک پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے اور اسطرح پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔28مئی 1998 وہ تاریخی دن ہے جب پاکستان نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چاغی کے مقام پر چھ ایٹمی دھماکے کیے۔ حقیقت یہ ہے بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے نہیں تھے جس طرح کہ پہلے عرض کیا کہ اس سے قبل 18 مئی 1974 کو بھارت ’’سمائیلنگ بدھا‘‘ کے نام سے ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ایٹمی دھماکے کے لیے استعمال ہونے والا پلوٹونیم، کینیڈا کی جانب سے فراہم کردہ ایٹمی ریکٹر (CIRUS) میں تیار ہوا تھا اور اس دھماکے میں استعمال شدہ بھاری پانی امریکہ نے فراہم کیا تھا۔ اس کے باوجود عالمی برادری نے بھارت کے ایٹمی عزائم کی روک تھام کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے۔ بصورت دیگر پاکستان روز اول سے چاہتا تھا کہ اس خطے میں ایٹمی دوڑ کا آغاز نہ ہو۔ اس سلسلے میں پاکستان بھارت کو کئی ایسی تجاویز دے چکا تھا۔پاکستان نے 1974 میں یہ تجویز پیش کی کہ جنوبی ایشیا کو ’’ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ‘‘ قرار دیا جائے لیکن بھارت نے پاکستان کی تجویز رد کر دی۔ 1978 میں پاکستان نے یہ تجاویز دیں کہ پاکستان اور بھارت مشترکہ طور پر ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا اعلان کریں اور جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دیا جائے۔ 1979 میں پاکستان نے تجویز کیا کہ پاکستا ن اور بھارت ایک ساتھ NPT پر دستخط کر دیں اور ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی اجازت بھی دے دیں۔ 1987 میں پاکستاننے تجویز کیا کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا مشترکہ اعلان کریں۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی ان کوششوں کو رد کیا کیونکہ اس کے پس پردہ عزائم کچھ اور تھے۔ 1974 کے ایٹمی دھماکوں اور اسکے بعد کے بھارتی ایٹمی عزائم کے جواب میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ پاکستان بھی اپنے دفاع کے لیے ایٹم بم بنائے۔ یہ اقدام اسکی بقا کے لیے ناگزیر ہو گیا تھا۔
حرف اختتام۔

ہم 28 مئی کو ’’یوم تکبیر‘‘ کے طور پر مناتے ہیں تاکہ پاکستان کے دشمنوں کے تکبر کو خاک میں ملانے کی توفیق عطا کرنے پراﷲ تعالیٰ کا شکر اد ا کریں اور یہ اعلان کریں کہ اﷲ کے نام پر بننے والے پاکستان کے خلاف دشمنوں کے عزائم کبھی کامیاب نہیں ہونگے کیونکہ اصل فیصلے اوپر کی ذات کر رہی ہے جو سب سے بڑی ہے۔ پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کیلے بنا ہے۔اور دنیا کے نقشہ پر ایک ایٹمی ملک کی حیثیت سے قائم و دائم رہے گا انشاء اﷲ
 

Muhammad Saleem
About the Author: Muhammad Saleem Read More Articles by Muhammad Saleem: 8 Articles with 5626 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.