اسرائیل کی تباہی کی پیشگوئیاں
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف مذہبی، سیاسی اور فکری حلقوں میں اس کے انجام کے بارے میں بحث شروع ہو گئی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اسرائیل کا وجود دائمی ہے یا اس کے زوال اور تباہی کے متعلق کچھ پیشگوئیاں موجود ہیں؟ کیا مذہبی کتب، اسلامی احادیث، اور عالمی واقعات کی روشنی میں اسرائیل کے انجام کا کوئی خاکہ موجود ہے؟ اس تحقیقی مضمون میں ان تمام پہلوؤں کا غیر جانبدارانہ اور جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ اسلامی پیشگوئیاں اور احادیث قرآنِ کریم میں بنی اسرائیل کا انجام سورۃ بنی اسرائیل (الاسراء) آیت 4-7: "ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں خبردار کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گے اور بہت بڑی سرکشی کرو گے۔" علمائے تفسیر کے مطابق پہلی مرتبہ فساد: حضرت داؤدؑ اور سلیمانؑ کے بعد، ان کی نافرمانیوں کی صورت میں۔ دوسری مرتبہ فساد: قیامت کے قریب، جب وہ فلسطین میں دوبارہ اکٹھے ہوں گے۔ قرآن ان دونوں فسادات کے بعد سزا اور تباہی کا ذکر کرتا ہے۔ حدیثِ نبویﷺ: "یہودیوں کے خلاف آخری جنگ" مشہور حدیث "قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مسلمان یہودیوں سے نہ لڑیں۔ مسلمان یہودی کو قتل کرے گا، یہاں تک کہ یہودی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپے گا، اور وہ درخت یا پتھر کہے گا: اے مسلمان! اے عبداللہ! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہے، آ کر اسے قتل کر." — (صحیح مسلم: 2922) یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہود کا زوال ایک فیصلہ کن جنگ کے ذریعے ہوگا، اور مسلمان اس جنگ میں کامیاب ہوں گے۔ کئی مفسرین اس کو فلسطین میں آخری معرکے (ملحمہ) سے جوڑتے ہیں۔ یہودی روایات میں اسرائیل کا زوال یہودیوں کی اپنی کتابوں میں بھی اسرائیل کے زوال کے اشارے ملتے ہیں تلمود اور زہوَر (Kabbalistic کتابیں) میں بیان ہے کہ "اگر بنی اسرائیل خدا کے احکام سے روگردانی کریں گے، تو سرزمین انہیں قید و تباہی کا مزہ چکھائے گی۔" کچھ یہودی علما، خاص طور پر نتورے کارتا (Neturei Karta) جیسے گروہ، اسرائیل کے قیام کو "الہی لعنت" قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق: "بغیر مسیح (Messiah) کی آمد کے اسرائیل کا قیام خدا کی نافرمانی ہے۔" عیسائی پیشگوئیاں اور ایوانجیلیکل نظریہ کچھ عیسائی فرقے، خاص طور پر Evangelicals ، مانتے ہیں کہ اسرائیل کا قیام آخری زمانے کی ایک "علامت" ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو قائم ہونا ہے تاکہ آخرکار دجال کا خروج ہو، اور پھر حضرت عیسیٰؑ واپس آ کر دجال کو شکست دیں۔ اس نظریے کے مطابق اسرائیل کی تباہی حضرت عیسیٰؑ کی آمد ثانی کے بعد ہو گی۔ صیہونی منصوبہ اور خود اسرائیلی تشویش صیہونی خود جانتے ہیں کہ اسرائیل کا قیام مصنوعی، غیر فطری اور مسلسل خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ اسرائیلی ماہرین خود کہتے ہیں کہ "اگر اسرائیل اگلی 50 سالوں تک عالمی طاقتوں کی مدد کے بغیر زندہ رہتا ہے، تو یہ ایک معجزہ ہو گا۔" اسرائیلی دانشور یُوال نواح حراری (Yuval Noah Harari) کا قول "اسرائیل کی بقا صرف طاقت پر ہے، جیسے ہی یہ طاقت کمزور ہو گی، وجود بھی خطرے میں ہو گا۔" عالمی جغرافیائی حقائق اور اسرائیل کی ناپائیداری اسرائیل جغرافیائی لحاظ سے نہایت محدود، محصور اور دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس کی داخلی آبادی میں مذہبی، لبرل، روسی، افریقی، اور عرب یہودیوں کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔ فلسطینی مزاحمت، ایران، حزب اللہ، اور دیگر مزاحمتی تحریکیں اسرائیل کے وجود کو ہر وقت چیلنج کرتی ہیں۔ حالیہ عالمی رجحانات اور اسرائیل کا زوال عالمی سطح پر اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے (BDS Movement یورپ میں احتجاج، اقوام متحدہ کی رپورٹس)۔ نوجوان یہودی بھی اسرائیل کی پالیسیوں سے متنفر ہو رہے ہیں۔ امریکی حمایت کمزور ہو رہی ہے، اور مستقبل میں اسرائیل کو تنہا کیے جانے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ نتیجہ: کیا اسرائیل کا زوال یقینی ہے؟ اسلامی نکتہ نظر سے: اسرائیل کا انجام تباہی ہے، جیسا کہ قرآن اور احادیث میں ذکر ہے۔ یہودی مذہبی نکتہ نظر سے: بغیر مسیح کے قیام کو لعنت سمجھا جاتا ہے، اور زوال کا اندیشہ موجود ہے۔ عالمی سیاسی منظرنامے سے اسرائیل ایک ناپائیدار ریاست ہے جو عسکری قوت اور بیرونی امداد پر قائم ہے — جیسے ہی یہ سہارے چھنے، زوال قریب ہو گا۔ مسلمانوں کو جذبات سے ہٹ کر علم، اتحاد، سفارت، میڈیا اور عسکری سطح پر بیداری لانا ہو گی۔ اسرائیل کا زوال دعاؤں اور انتظار سے نہیں، بلکہ دانائی اور حکمت پر مبنی جدوجہد سے ممکن ہے۔ کیونکہ اللہ کی سنت یہ ہے: "إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ" (الرعد: 11)
|
|