مودی سرکار کی ساتویں سالگرہ اس قدر سونی ہوگی کسی نے
سوچا بھی نہیں تھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کا قہر جیسے
جیسے بڑھ رہا ہے بی جے پی مقبولیت کا گراف گرتا جارہا ہے ۔ تادمِ تحریر
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2 کروڈ 75 لاکھ 55ہزار لوگ اس وبا سے متاثر
ہوچکے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد3لاکھ 19 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ گنگا
میں تیرتی لاشیں چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہیں کہ یہ اعداد غلط ہیں ۔ امریکہ
کے اندر کورونا کی ماہر ہندوستانی نژاد پروفیسر بھرامر مکرجی نے 11 مئی کو
برکھا دت سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وطن عزیز میں کورونا متاثرین کی
تعداد 10 تا 20گنا کم بتائی جاتی ہیں اور ان کے سائنسی ماڈل کے مطابق اُس
وقت تک تقریباً 12 لاکھ پچاس ہزار لوگ اس بیماری سے ہلاک ہوچکے تھے ۔ یہ
انٹرویو ایک ایسے وقت میں لیا گیا تھا کہ جب یومیہ چار ہزار سے زیادہ اموات
کا اندراج کیا جارہا تھا ۔ اس لیے بعد کی تعداد کو جوڑ لیا جائے تو یہ عدد
کہاں تک پہنچے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
موجو چینل پر اس انٹرویو کے بعد 25 مئی 2021 کو معروف عالمی اخبار نیویارک
ٹائمز میں ہندوستان کے حوالے سے لازارو گامیو اور جیمس گلانزمے نے بہت سارے
ماہرین کی مدد سے ایک چونکانے والی تفصیلی رپورٹ مرتب کرکے شائع کی ۔
سائنٹفک ماڈلس کی بنیاد پر تیار کردہ اس رپورتاژ میں پیش ہونے والے حقائق
رونگٹے کھڑے کرنے والے ہیں ۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کورونا کے تعلق سے
ہندوستان تین الگ الگ منظر نامہ پیش کیا گیا ہے۔ پہلا تو نہایت محتاط
اندازہ ، دوسرا قوی امکان کے مطابق اور تیسرا خراب ترین متوقع صورتحال ہے۔
محتاط اندازے کے مطابق 24؍ مئی تک ملک میں 40 کروڈ 42لاکھ لوگ کورونا سے
متاثر ہوچکے ہیں اور اموات کی تعداد 6 لاکھ ہے ۔ اس اندازے کی بنیاد یہ ہے
کہ 15 میں سے ایک کورونا کے مریض کا اندراج ہوپاتا ہے اورہر 10ہزار متاثرین
میں سے 15لوگوں کی موت ہوجاتی ہے۔
اس بابت قوی امکان اس بات کا ہے کہ جملہ 53 کروڈ 90 لاکھ لوگ متاثر ہوچکے
ہیں اور بیماری کے سبب 16 لاکھ افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں یعنی ہر 20 میں
سے ایک کا اندراج اور 30؍ افراد فی ہزار کی موت۔ بدترین صورتحال میں 70
کروڈ7 لاکھ لوگوں کا اس وبا سے متاثر ہوجانا اور 42 لاکھ افراد کی اموات
ہے۔ اس کی بنیاد ہر 26 میں سے ایک مریض کا اندراج اورہر 10 ہزار متاثرین
میں 60 لوگوں کی ہلاکت کا امکان ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے دنیا بھر کے بڑے بڑے
اخبارات وزیر اعظم نریندر مودی کو اس سنگین صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرا کر
تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔۔ اس دوران وزیر اعظم کی شخصیت پر ایسے کارٹون
بنائے گئے کہ بھگتوں کا منہ چھپانا مشکل ہوگیا اس سے عالمی سطح پر ملک کی
ان کی شبیہ بگڑی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے دور درشن کی عالمی سروس
کا آغاز کیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جس دور درشن کو ہندوستان کے اندر دیش بھکت تک دیکھنا گوارہ
نہیں کرتے وہ دنیا کے دیگر ممالک میں کیسے دیکھا جائے گا اور عالمی رائے
عامہ کو کیونکر متاثر کرسکے گا ۔ کاش کے چاپلوس گودی میڈیا میں سے کم ازکم
ایک آدھ تو ایسا ہوتا کہ جس پر عالمی میڈیا اعتبار کر پاتا لیکن افسوس کہ
ایسا نہیں ہوسکا۔ اول تو سرکاری چینل پر لوگوں کا اعتماد کرنا بہت مشکل ہے
دوسرے اس میں ندرت اور تنوع کا فقدان ہوتا ہے ۔ اتر پردیش اور بہار جیسے بی
جے پی کے اکثریتی صوبوں میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کےسبب آخری رسومات
کا خرچ بڑھ جانے سے لوگ لاشیں گنگا میں بہانے یا ندی کنارے دفن کرنے پر
مجبور ہوگئے ۔ ایسا کرنے والوں اپنے اعزہ کی سمادھی پر یادگار کے طور پر
لال پیلی رام چنری یا لکڑی کا نشان لگا گئے ۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار نے
شرمندگی سے بچنے کے لیے الہ آباد ضلع کے پھاپھامئو اور شررنگویرپور گھاٹ
پر افسران کی نگرانی میں وہ چنری ہٹوادی تاکہ میڈیا لاشوں کو گنتی نہ کر
سکے۔ اس کا الٹا اثر ہوا اور یہ حرکت ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن گئی۔
شمشان کے بعد سمادھی بھی چھپانے کا گھناونا کھیل سرکار مزید فضیحت کا سبب
بنا ۔
اس آنکھ مچولی کے دوران مختلف امریکی یونیورسٹی کے پروفیسرس نے کورونا سے
سے متعلق سب سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے رہنماوں کی ایک فہرست
مرتب کی تو اس میں وزیر اعظم نریندر مودی کو سرِ فہرست رکھا گیا۔ اس طرح
کورونا کا ساتھ ، موت کا وکاس اور چھپانے کے وشواس کی دوڑ میں مودی جی
وشوگرو کا تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ امریکہ کی معروف انڈیانا
یونیورسٹی کے پروفیسر سمیت گنگولی نے مودی جی کو اس کاسچا حقدار ٹھہراتے
ہوئے وزیر اعظم کےسپاس نامہ میں لکھا کہ مئی میں ۴ لاکھ مریض ہر روز آرہے
ہیں ۔ ان کے لیے اسپتال میں نہ بستر ، نہ دوا اور نہ آکسیجن ہے۔ اس تباہی
کے لیے بیشتر ہندوستانی وزیر اعظم مودی کو ذمہ دار مانتے ہیں ۔ امسال جنوری
میں مودی نے انسانیت کو بچانے کا اور مارچ میں کورونا کے خاتمے کا اعلان
کیا جبکہ وباء ایک نئی شکل میں حملہ آور ہورہی تھی ۔ حکومت نے اسے روکنے
کے بجائے کمبھ میلے اور انتخابات کا اہتمام کیا جو سُپر اسپریڈر ثابت ہوئے۔
ہندوستان کو دنیا کا سب سے بڑا ویکسین بنانے والا ملک بتاکرمودی نے ایک
کروڈ ویکسین بر آمد کردیئے جبکہ ملک میں ابتدائے مئی تک 2 فیصد سے بھی کم
لوگوں کو ٹیکہ دیا جاسکا تھا۔ مودی کے بعد بالترتیب برازیل کے جائر
بولسوناروکو چاندی کا تمغہ ، بیلاروس کے الیکزنڈر لوکا شینکو کو کانسے کا
تمغہ ملا۔ڈونلڈ ٹرمپ کو عہدہ گنوانے کے باوجود حوصلہ افزائی کے چوتھے انعام
سے نوازہ گیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ٹرمپ اس فہرست میں موجود نہ ہوتے تو
مودی جی کو ان کی غیر موجودگی کا بہت دکھ ہوتا ۔ وزیر اعظم مودی کو صرف
بیرون ملک اس سنگین صورتحال کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ بی جے پی
کے سابق وزیر ارون شوری نے دی وائر کے انٹرویو میں کہا کہ مودی اس کی ذمہ
داری سے بچ نہیں سکتے ۔ وہ ارندھتی رائے کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ
یہ ’انسانیت کے خلاف جرم‘۔ موجودہ سرکار اور اس کا زر خرید میڈیا اس ناکامی
کو سسٹم کی خرابی قرار دیتا ہے لیکن شوری سوال کرتے ہیں ’’ اس ‘سسٹم’ کی
ذمہ داری کس کی ہے؟ بیچارے پنڈت نہرو کی؟ انگریزوں کی؟یا اس سے بھی بہتر
مغلوں کی؟ کیا پریشانی یہ ہے کہ ‘سسٹم’نے ہمیں سی بی آئی، ای ڈی اور انکم
ٹیکس جیسے محکمے دیئےہیں؟یا یہ کہ آج ان کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔
شوری کے مطابق یہ نظام کی ناکامی نہیں بلکہ اس صورتحال کے لیے سسٹم کا منظم
طریقے سے برباد کیا جانا ذمہ دار ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا موجودہ نظام
نے بڑی بڑی ریلیاں کرنے کا حکم دیا تھا، کیا محدود وسائل کو ٹیکہ کاری اور
آکسیجن پلانٹ کے بجائے ذاتی طیارہ خریدنے ، نیا گھر اور نئے راج پتھ پر خرچ
کرنے کے لیے سسٹم نے مجبور کیا تھا؟ شوری نے مودی جیسے لوگوں کے انجام کی
بابت کہا کہ بالآخر ایسےرہنما پوری طرح سےختم ہو جاتے ہیں۔ جس طرح ایک
جھوٹ دوسرے جھوٹ کے لیے مجبور کرتا ہے، ویسے ہی ایک ا ٓ مریت اگلے کے لیے
راستہ بناتی ہے۔ ارون شوری کی طرح یہ ہر انصاف پسند شہری کے دل کی آواز ہے
اور سنگھ پریوار اس پیشنگوئی کوکس طرح پورا کررہا ہے اس کی مثال دیکھیں
۔پچھلے دنوں وزیر اعظم کے حلقۂ انتخاب بنارس میںمعروف کلاسکل موسیقار پدم
بھوشن پنڈت راجن مشرا کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد بنارس ہندو یونیورسٹی میں
کھولے جانے والے عارضی کووڈ اسپتال کو پنڈت جی کے مداحوں کو خوش کرنے لیے
ان سے منسوب کیا گیا مگر اس کا الٹا اثر پڑا ۔
لوگوں نے سوشیل میڈیا میں لکھا کہ جب وہ کورونا سے تڑپ رہے تھے تو انہیں
وینٹی لیٹر تک نہیں مل سکا اب اسپتال کو ان کے نام سے کرنے کا تماشہ کیوں
کیا جارہا ہے؟ رجنیش مشرا نے سوال کیا کہ عالمی شہرت یافتہ بنارس گھرانے کے
فنکار کے ساتھ یہ ہوسکتا ہے تو عام آدمی کی حالت کیا ہوگی؟ اس لیے مشکل کی
اس گھڑی میں مندر ، مورتیاں اور نئی عمارتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی جگہ
بہتر اسپتال بنائے جائیں تاکہ لوگوں کی جان بچ سکے۔ پنڈت رجنیش نے بھاسکر
اخبار کے نامہ نگار سے کہا کہ ’’ نہ میرے والد اسپتال کو دیکھنے آرہے ہیں
اور نہ رام جی ایودھیا میں مندر دیکھنے کے لیے آرہے ہیں۔ آج کی حالت میں
ملک کو اچھی سہولیات سے لیس اسپتال کی ضرورت ہے۔ اس لیے مندر، مورتیاں اور
دہلی میں ہزاروں کروڈ روپئے کے خرچ سے تیار ہورہے وزیر اعظم کی رہائش گاہ
کی جگہ سرکاری صحت عامہ کے نظام کو سدھاریں۔
انہوں نے سرکار سے گزارش کی کہ عام آدمی اور اس کی صحت پر توجہ دیں۔ جب
کوئی اپنا بچھڑتا ہے تو بہت درد ہوتا ہے۔ یہ ایک درد مند دل کی آواز ہے
لیکن سنگدل سرکار کے کانوں پر اس سے جوں نہیں رینگتی۔ آنجہانی پنڈت راجن
شرما کے بیٹے اور بھتیجے نے دو سوال پوچھ کر مودی سرکار کی قلعی کھول دی ۔
انہوں نے پوچھا کہ ایک طرف تو ان کے والد کی عقیدت میں اسپتال کھولا گیا تو
لیکن ساتھ میں وزیر اعظم کی تصویر کیوں لگائی گئی ؟ اس سے کیا پیغام جاتا
ہے؟ دوسرے پنڈت راجن مشرا کی آخری رسومات میں سرکار یا انتظامیہ کی جانب
سے کوئی بھی کیوں نہیں آیا ؟ ان سوالات نے مودی سرکار کی منافقت کو پوری
طرح بے نقاب کردیا ہے۔ سات برس کے بعد اس سرکار کا یہ حال ہوگیا ہے تو دس
سال کے پورا ہوتے ہوتے اس کی کیا حالت ہوجائے گی کوئی نہیں جانتا کہ اس لیے
کہ دوسری سے بھی زیادہ بھیانک تیسری لہر کی پیشنگوئی کی جارہی ہے اور وزیر
اعظم من کی بات سے اپنا دل بہلا رہے ہیں۔ اس مشکل سے نمٹنے کی خاطر ان کے
پاس ہنوز کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|