آنے والے کا پورا جسم پسینے میں شرابورتھا چہرے
پرتھکن کے آثارا ور لباس مٹی آلودہ تھا لگتاتھا وہ کافی دور سے آیا ہے عظیم
فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اﷲ علیہ دن بھرکی مصروفیات کے بعد ابھی
آرام کی غرض سے اپنے خیمے میں گئے ہی تھے کہ ان کو ا طلاع ملی کہ ایک جاسوس
شرف ِ بازیابی چاہتاہے ۔سلطان ؒ کا کافی عرصہ سے وطیرہ تھا کہ وہ قاصدوں،
سفیروں اور اپنے جاسوسوں کو پہلی فرصت میں ملنا پسند کرتے تھے۔ نووارد خیمے
میں داخل ہوا تو سلطان نے پہرے دارکو اشارہ کیا کہ اب کوئی اور مخل نہ ہو
جاسوس نے کچھ خاص خبریں گوش گذارکیں پھرجانے کیلئے اٹھا پھربیٹھ گیا اس کے
چہرے پر تذبذب کے آثارتھے ۔۔۔’’کچھ کہنا چاہتے ہو۔۔ سلطانؒ نے نرمی سے
دریافت کیا
’’ ایک بات مجھے کھٹکتی ہے جاسوس کے چہرے پر الجھن تھی اب سمجھ نہیں آرہی
میں اس سے آپ کو آگاہ کروں یا نہ کروں
’’ جو بات تمہاری الجھن کا سبب ہے یقینا کوئی اہم ہوگی سلطان نے کہا
’’ ہمارے علاقہ میں ایک شعلہ بیاں عالمِ دین ہیں جاسوس نے بتایا وہ لوگوں
میں بہت مقبول ہو گئے ہیں۔
’’ پھر سلطان نے کہا اس میں پریشانی والی کیا بات ہے؟ جاسوس بولا جو میں
محسوس کر رہا ہوں الفاظ میں بیان کرنے سے قاصرہوں میرا دل کہتاہے ضرور کوئی
نہ کوئی گڑبڑہے یہ گڑبڑ کیاہے میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔
’’ تم بلاجھجک بیان کرو سلطان ؒنے کہا۔۔تم نے جو بھی دیکھا جوبھی سنا مجھے
بتاؤ
وہ عالم ِ دین اکثرکہتارہتاہے جاسوس بولا " نفس کا جہاد افضل ہے، بچوں کو
تعلیم دینا ایک بہترین جہاد ہے، گھر کی ذمہ داریوں کیلئے جد وجہد کرنا بھی
ایک جہاد ہے۔
سلطانؒ نے کہا تو اس میں کوئی شک نہیں ہے؟؟ لیکن اس میں تو کوئی گڑبڑ والی
بات نہیں ہے۔
جاسوس نے کہا لیکن اس عالم کا یہ بھی کہنا ہے کہ "جنگوں سے کیا حاصل
ہوتاہے؟؟ صرف قتل وغارت گری صرف لاشیں، جنگوں نے تمہیں یا تو قاتل بنایا یا
مقتول ۔۔جب بوڑھے اپنے نوجوان بیٹوں کی لاشیں تدفین کیلئے قبرستان لاتے ہیں
تو مجھے بڑا ترس آتاہے۔ یہ سن کر سلطان بے چین ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے انہوں
نے کہا پھر؟
’’بہت سے لوگ اس کے ہم نوا ہوتے جارہے ہیں جاسوس نے کہا
سلطان مضطرب ہوگئے ان کا چہرہ شدت ِ جذبات سے سرخ ہوگیا وہ جان چکے تھے بات
اتنی بھی سادہ نہیں ہے ان کے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں انہوں نے
فیصلہ کن لہجے میں کہا میں آج اور ابھی اس عالم سے ملنا چاہتاہوں لیکن
خبردار کسی کو کانوں کان اس بات کی خبرنہیں ہونی چاہیے اسی وقت سلطانؒ نے
بھیس بدلا اور جاسوس کے ہمراہ جانے کیلئے گھوڑے پر سوارہوگئے پوری رات کی
مسافت کے بعدوہ مطلوبہ مقام تک جا پہنچے دونوں نے قریبی مسجدمیں نماز ِ فجر
اداکی جاسوس نے مقامی کمانڈرسے ملاقات کرکے سلطان کا پیغام دیا پھر دونوں
اس عالم سے ملنے اس کے حجرے سے متصل مسجد کے اس حصے میں جا پہنچے وہ درس دے
رہا تھا وہاں کافی رش تھا جس میں اکثریت نوجوانوں کی تھی جس سے محسوس ہوتا
تھا وہ عالم لوگوں میں خاصا مقبول ہے آج بھی اس کا موضوع جنگ کی تباہ
کاریاں تھا درس کیا تھا لوگوں کو جہاد سے بدظن کرنے کی ایک چال تھی اسی
دوران سلطانؒ سے نہ رہاگیا انہوں نے بڑی عاجزی ے پوچھا "جناب ایسی کوئی
ترکیب بتائیے کہ بیت المقدس کو آزاد اور مسلمانوں کے خلاف مظالم بغیر جنگ
کے ختم ہوجائیں ؟ ؟" ۔ عالم نے ترنت جواب دیا دعا کریں دعا تو ہونی کو ٹال
دیتی ہے۔
’’فقط دعا۔۔ سلطانؒ نے تعجب سے کہا دوا کے بغیرعلاج کیسے ممکن ہے؟
’’جناب میں تووہ نسخہ بتارہاہوں عالم نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا جس
سے دواکی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اس کی بات سن کر کئی نوجوانوں نے اثبات میں
سر ہلا دئیے۔
’’آپ ہی سوچئے جنگوں سے کتنے بچے یتیم کتنی عورتیں بیوہ ہوجاتی ہیں عالم
بولا اسلام بھی تو امن کا درس دیتاہے ۔
سلطانؒ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، وہ سمجھ چکے تھے کہ ایسے عالم پوری
صلیبی فوج سے بھی زیادہ خطرناک ہیں جو مسلم نوجوانوں کے دلوں سے جذبہ ٔ
جہاد ختم کرنے کی تاویلیں بیان کرتے ہیں
’’سچ سچ بتاؤ تم کون ہو؟ سلطان ؒنے اسے سنبھلنے کا موقعہ دئیے بغیر اس پر
خنجر تان لیا درس سننے والے یہ حالات دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے ا سکی حمایت
میں دونوجوان اٹھ کھڑے ہوئے جن پر جاسوس نے تلوارتان لی اسی اثناء میں
مقامی کمانڈر اپنے ساتھیوں کو لے کر آن پہنچا انہوں نے سب کو وہاں سے نکال
دیا
’’ سچ سچ بتاؤ تم کون ہو؟ سلطان ؒنے پھرسوال کیا
نام نہاد عالم کو محسوس تو ہوگیا تھا کہ اس کا کھیل ختم ہوگیا ہے پھربھی اس
نے بڑ ی ڈھٹائی سے جواب دیا میں یہاں گذشتہ تین سال سے اسلام کی خدمت
کررہاہوں مقامی لوگوں سے میری بابت معلوم کرلیں۔ اس کی باتیں سن کر سلطان
ؒنے غیرمحسوس اندازمیں بڑ ی نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا انتہائی پھرتی سے
سلطان نے اْس نام نہاد عالم کی انگلی کو کاٹ کر ایسے تراش دیا جیسے قلم ،
وہ بری طرح چیخنے لگا اس کی انگلی سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا جس کی پرواہ نہ
کرتے ہوئے سلطان نے غراتے ہوئے کہا کہ تم اپنی اصلیت بتاتے ہو یا گردن بھی
کاٹ دوں؟ نام نہاد عالم نے انکشاف کرتے ہوئے کہا وہ ایک یہودی ہے اس جیسے
درجنوں نام نہاد عالم جنہیں عربی اور مسلمانوں کے دینی مسائل پرانتہائی
عبور حاصل ہے مصرکے طول و عرض میں عالم ِدین بن کر مسلمانوں میں تفرقہ بازی
کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ جہادکے خلاف بھولے بھالے مسلمانوں کو ورغلا رہے
ہیں سلطان ؒکے حکم پر ایسے بہت سے یہودی عالموں کو گرفتار کرکے قتل کروادیا
گیا۔ہم آج غورکریں تو محسوس ہوگا کہ یہ فتنہ اس وقت بھی پوری آب وتاب سے
رواں دواں ہے۔ سلطان نے بڑی مشکل سے اس فتنے پرقابو پایا کچھ لوگ آج اسلام
کو امن کا مذہب قراردے کر آخر کیوں لوگوں کو جہاد کے خلاف کرنا چاہتے ہیں
یہ عناصر اسلام کو بدھ ازم بنا دینا چاہتے ہیں جب مسلمانوں پر زندگی تنگ
کردی جائے،جب فلسطین میں بم گرائے جارہے ہوں جب عراق، شام،افغانستان میں
مسلمانوں کا قتل ِ عام جاری ہو،جب وادی ٔکشمیریامیانمار مسلم کشی کی جائے،
فرانس میں مقدس ہستیوں کے گستاخانہ خاکے بناکر ان کی توہین کی جارہی ہویا
ہالینڈ میں مساجدپر حملے کئے جائیں،غزہ میں معصوم بچیوں کو قتل کیا جارہاہو
،جب کئی ملکوں میں مسلم کش فسادات کو ہوادی جائے سب سے بڑھ کرجب مسلمانوں
کے خلاف قدم قدم پر سازشیں ہوں،سیاسی ،معاشی اور اقتصادی استحصال ہومسلم
کشی ہو پھر اس ظلم پر اسلام امن کا درس نہیں د یتا بلکہ جہاد کا حکم دیتاہے
یہ کھلی حقیقت ہے کہ ظالم کا سامنا کئے بغیر ظلم کا مداوا ہوجائے یہ ممکن
ہی نہیں۔
|