ان دنوں سوشل میڈیا پر عمران خان کے 3 سالہ کارکردگی کو
کچھ اسطرح سے بتایا جارھا ھے کہ جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو معیشت
کے برے حالات تھے۔ بیس ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور 1200 ارب کا
سرکلر ڈیٹ تھا، روپیہ بے قدر تھا، برآمدات کم ترین سطح پر تھیں، تاریخ کے
سب سے بڑے قرضے سمیت تباہ شدہ معیشت ورثے میں ملنے کے باوجود مطالبہ اور
توقع یہ تھی کہ عمران خان راتوں رات دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے، اپوزیشن
نے تو پہلے ہی دن سے حکومت کی ناکامی کا راگ الاپنا شروع کردیا تھا یہاں تک
کہ ایسی خبریں تواتر سے پھیلائی گئيں کہ ’’حکومت ناکام ہوگئی ہے، یہ حکومت
جانے والی ہے”۔ چند صحافی تو حکومت کے گھر جانے کی تاریخیں تک دیتے رہے، ان
ہاؤس تبدیلی اور مائنس ون کی گونج بھی سنائی دیتی رہی مگر 22 سالہ جدوجہد
کے بعد اقتدار میں آنے والا عمران خان کہاں رکنے والا تھا، تمام تر رکاوٹوں
کے باوجود اپنے اصولوں پر ڈٹا رہا اور سفر جاری رکھا۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں جو کچھ ہوچکا ہے وہ ماضی میں کبھی نہیں ہوا،
شاید یہ ہماری روایتی سیاست کا اثر ہے کہ مخالفین عمران خان کو ان کے مثبت
کاموں کا کریڈٹ دینے کو بھی تیار نہیں۔ فہرست تو خاصی طویل ہے لیکن کچھ
حوصلہ افزاء کاميابيوں پر اک نظر ڈالتے ہيں۔
سب سے پہلے خارجہ پالیسی کو دیکھیں تو اس میدان میں وطن عزیز کو مسلسل
کامیابیاں نصیب ہورہی ہیں۔ عمران خان نے اقتدار ميں آنے سے پہلے بھی کہا
تھا کہ ہميں پرائی جنگ نہيں لڑنی چاہيے اور اقتدار ميں آنے کے بعد بھی
عالمی فورمز پر يہ دو ٹوک انداز ميں واضح کيا کہ پاکستان پرائی جنگوں کا
خميازہ بھگت رہا ہے۔
آج پاکستان نہ کسی کی جنگ لڑرہا ہے اور نہ ہی کسی ملک میں ہمت ہے جو
پاکستان کو دوغلا کہہ سکے۔ عمران خان امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر دو
طرفہ تعلقات قائم کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ سپر
پاور امریکا افغانستان میں مدد کیلئے پاکستان سے درخواست کرنے پر مجبور ہے۔
عمران خان نے کئی ممالک کے کامیاب دورے کئے اور عالمی رہنماؤں کو اپنا
ہمنوا بنایا، ان دوروں میں کفایت شعاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی خزانے میں
کروڑوں کی بچت کی گئی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے نئے تعلقات کی
راہ ہموار ہوئی، سعودی عرب اور ایران کے درمیان تناؤ کم کرنے میں پاکستان
بہترین ثالث بن کر ابھرا۔
پانچ دہائیوں کے بعد مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر آیا اور
وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری کے سامنے ایسے اٹھایا کہ دنیا نے
مانا کہ بھارت کشمیریوں پر ظلم کررہا ہے، بھارت کی تمام سازشوں کے باوجود
دوست ممالک سے مل کر پاکستان کو ایف اے ٹی ایف سے بلیک لسٹ ہونے سے بچایا
اور ایسے اقدامات کئے کہ اب پاکستان کے گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں آنے کے
امکانات بڑھ گئے ہیں۔
فلسطین کے خلاف اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے خلاف پاکستان نے او آئی سی اور
اقوام متحدہ میں بھرپور آواز اٹھائی۔ انسانی حقوق کونسل میں اسرائیل کے
جنگی جرائم کے خلاف پاکستان کی پیش کردہ قرارداد بھاری اکثریت سے منظور
ہوئی۔ اقوام متحدہ کے صدر نے پاکستان کا دورۂ کرکے فلسطین اور کشمیر کے
معاملے پر پاکستانی مؤقف کی تائید کی۔ حال ہی میں سعودی عرب نے پاکستانیوں
کیلئے 10 لاکھ ویزے جاری کرنے پر اتفاق کیا ہے اور کویت نے بھی پاکستانیوں
کیلئے 10 سال بعد فیملی، بزنس اور ٹیکنیکل ویزا بحال کیا۔ ان کے علاوہ بھی
خارجہ پالیسی کی ان گنت کامیابیوں کا سہرا خان کے سر ہے۔ گستاخانہ خاکوں کے
خلاف جنرل اسمبلی ميں آواز اٹھائی تو نيدرلينڈز ميں بھی توہين آميز خاکوں
کا مقابلہ منسوخ کرانے ميں کامياب ہوئے۔
خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ ملک کے داخلی محاذ پر بھی تبدیلی ایکسپریس نئی
منزلیں سر کررہی ہے۔ ڈگمگاتی معیشت اور انتہائی خراب نظام صحت کے باوجود
پاکستان کرونا وائرس پر قابو پانے میں کامیاب ہوا اور عمران خان کی اسمارٹ
لاک ڈاؤن کی حکمت عملی کو دنیا بھر میں سراہا گیا، کرونا کے باوجود صورتحال
یہ ہے کہ معشیت کی شرح نمو 4 فیصد پر آگئی ہے۔ آئی ايم ايف اس گروتھ پر
حيران پريشان اور موڈيز کی بھی پيش گوئياں پيچھے رہ گئيں۔ کئی شہروں ميں اب
ٹیکسٹائل انڈسٹریز کو مزدوروں کی کمی کا سامنا ہے، تعمیرات کی صنعت کیلئے
خصوصی پیکیج دیا گیا، انہی سب اقدامات کی وجہ سے ملکی برآمدات بڑھ رہی ہیں۔
خدمات کا شعبہ ترقی کر رہا ہے، سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں
ریکارڈ اضافہ ہو اہے، ہاﺅسنگ اور تعمیرات کے شعبے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑی
صنعتوں کی پیداوار بڑھی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ٹی اور ٹیلی کام
کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا، ليوی اتنا کم کی کہ پاکستان میں پیٹرول کی قیمت
پورے خطے سے کم ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے سیاحت کے شعبے میں بھی ایسے خاطر
خواہ اقدامات کیے کہ پاکستان کو سیاحت کے اعتبار سے دنیا میں بہترین ملک
قرار دیا گیا۔ گلگت بلتستان اور اسکردو ایئر پورٹس اور نئے علاقوں میں ہوٹل
بن رہے ہیں۔
عمران خان نے عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کے وعدے کو وفا کرنے کیلئے
متعدد فلاحی منصوبوں اور ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا جن میں احساس پروگرام،
صحت انصاف کارڈ، نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام، پلانٹ فار پاکستان، ڈیجیٹل
پاکستان ویژن سمیت دیگر کئی منصوبے شامل ہیں۔ غریب بے آسرا لوگوں کیلئے
شیلٹر ہوم اور لنگر خانے قائم کئے گئے۔ احساس پروگرام کو ورلڈ بینک نے دنیا
کے 4 بڑے سماجی پروگراموں میں شامل کیا جو پاکستان کیلئے اعزاز ہے۔ ہنرمند
نوجوان پروگرام کے ذریعے ایک لاکھ 70 ہزار نوجوانوں کو اسکالر شپ دی جارہی
ہے تاکہ وہ معاشرے کے کارآمد فرد بن سکیں تو دوسری جانب کامیاب جوان
پروگرام کے ذریعے نوجوانوں کو کاروبار کیلئے قرض فراہم کرکے انہیں اپنے
پیروں پر کھڑا کیا جارہا ہے۔ بے روزگاری کے خاتمے اور صنعتی ترقی کیلئے 4
نئے اکنامک زون بنائے جارہے ہیں جس سے 15 لاکھ افراد کو روزگار کے مواقع
فراہم ہوں گے۔ پہلی بار موبائل فون پاکستان میں تیار ہورہے ہیں جو ایکسپورٹ
کیے جائیں گے اور موبائل کی درآمدات کے بل میں بھی کمی آئے گی۔
اسی حکومت کے دور میں ایمازون جیسی بڑی کمپنی نے پاکستان کو سیلر لسٹ میں
شامل کیا ہے، جس سے پاکستانیوں کیلئے کاروباری مواقع کا ایک نیا جہان کھل
گیا ہے۔ سی پیک پر کام تیز کرنے کے ساتھ اس کا دائرہ وسیع کرکے پورے ایشیاء
تک پھیلایا جارہا ہے۔ گوادر پورٹ فعال ہوچکی ہے اور سرمایہ کاروں کو مزید
سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ افغان بارڈر کے ساتھ 17 نئے بازار تعمیر کئے
جارہے ہیں جس سے مقامی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے اور
اسمگلنگ کے رجحان کا خاتمہ ہوگا۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے ذریعے غریبوں
کا اپنے گھر کا خواب پورا ہورہا ہے۔
زرعی شعبے میں بھی خوشحالی کی بہار آچکی ہے۔ اپنا خون پسینا بہا کر امیدوں
کی فصل سینچنے والے کسانوں کو پہلی بار اپنی محنت کا معقول اور بروقت
معاوضہ مل رہا ہے جس سے کسان خوشحال ہورہے ہیں۔ برسوں بعد گندم، کپاس اور
گنے کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔ بلین ٹری سونامی منصوبے کو بھی دنیا بھر
میں پذیرائی حاصل ہوئی اور پہلی مرتبہ پاکستان کو ماحولیاتی کانفرنس کی
قیادت دی گئی۔ معاشی ترقی کی رفتار برقرار رکھنے کیلئے توانائی کے منصوبوں
پر بھی کام کیا جارہا ہے۔
کئی دہائیوں بعد ملک میں دیامیر بھاشا اور مہمند جیسے بڑے اور درجنوں چھوٹے
ڈیم بن رہے ہیں جن پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے
بالاکوٹ میں پن بجلی کی پیداوار کیلئے 300 ملین امریکی ڈالر دینے کا فیصلہ
کیا ہے اور یہ سستی بجلی نیشنل گرڈ میں جائے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار
1100 میگاواٹ کے بجلی گھر کی تکمیل بھی اسی دور حکومت میں ہوئی ہے۔
عمران خان کا ایک اور وعدہ بلاتفریق احتساب کا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت
میں پاکستان میں پہلی بار بامعنی ادارہ جاتی احتساب کا سلسلہ شروع کیا گیا
جس کے نتیجے میں نیب نے 484 ارب روپے برآمد کرکے قومی خزانے میں شامل
کرائے۔ پہلی بار طاقتوروں کی جائیدادیں نیلام کی جارہی ہیں۔ پہلی بار
طاقتور مافیا پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ پی ٹی آئی پہلی حکومت ہے جس میں اپنے
لوگوں کے خلاف بھی مقدمات بنائے گئے۔ ٹیکس وصولی کی شرح بھی سال بہ سال
بڑھتی جارہی ہے۔ ایف بی آر نے پہلی مرتبہ 4 ہزار ارب روپے سے زائد کا ٹیکس
وصول کرکے ریکارڈ قائم کیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی مفاد میں سول اور
عسکری قیادت ایک پیج پر ہے۔
يہ خان ہی کی حکومت ہے جہاں کرپشن الزامات پر خاص ترين دوست کو نہ صرف
استعفیٰ دينا پڑا بلکہ تحريک کے سب سے اہم اور جاندار ساتھی کو بھی نااہلی
اور انکوائری کا سامنا کرنا پڑا۔
يہ تو طے ہے کہ حکومت اب اپنے ٹريک پر آچکی ہے اور اب اميد کی جارہی ہے کہ
براہ راست عوام کی فلاح و بہبود اور مہنگائی کم کرنے پر کام کیا جائے گا۔
یہ بھی نظر آنے لگا کہ ہفتوں يا مہينوں کے اندر حکومت کی بہتری کے اثرات
نچلی سطح پر نمودار ہوجائيں گے
اب عوام خود فیصلہ کریں کہ کیا واقعی ایسا ھی ھے جو اوپر تفصیل سے بیان کیا
گیا؟
|