ہماری نانی دادی ان کی بہنیں کزنیں سب ہی کی شادی بارہ
تیرہ برس کی عمر میں ہو گئی تھی شاید ہی کسی کی عمر نے اس حد سے تجاوز کیا
ہو ۔ لیکن ان کے شوہر بھی بس زیادہ سے زیادہ اٹھارہ بیس برس کی عمر تک کے
ہی ہوتے تھے دگنی یا چوگنی عمر کے نہیں ۔ پھر انہوں نے اپنی بیٹیوں کی
شادیاں پندرہ سولہ سال تک کی عمر میں کیں آگے ان کی بھی بیٹیوں کی اتنی ہی
یا اس سے کچھ زیادہ مثلاً سترہ اٹھارہ تک کی عمر میں شادی ہوئی ۔ اتنی کم
عمری کی شادی اور پھر سال بھر کے اندر ہی اولاد کی پیدائش کی وجہ سے ہمارے
خاندان میں چند ایسی خواتین بھی گزری ہیں جنہوں نے اپنی پانچویں نسل بھی
دیکھی ۔ یعنی ان کے گرینڈ چلڈرن ان کی زندگی ہی میں خود گرینڈ پیرنٹس بن
گئے ۔ باقی چوتھی نسل بھی دیکھ لینا تو ایک عام سی بات ہے مرد و خواتین
دونوں ہی کے لیے ۔ اس کی مثالیں تو جا بجا مل جائیں گی ۔
ہماری نانی اماں نے بھی اپنی پانچویں نسل دیکھی ۔ یعنی ان کا ایک نواسا ان
کی زندگی ہی میں خود نانا بن گیا تھا اور ایک نواسی اور پوتی نانی بنیں ۔
مگر انہوں نے اولاد کی خوشیوں کے ساتھ ساتھ بہت دکھ بھی دیکھے وہ صرف
اٹھارہ برس کی عمر میں جبکہ چار بچوں کی ماں تھیں تو حالات اور قسمت کی ستم
ظریفی کے ہاتھوں اپنے شوہر یعنی نانا ابا سے بچھڑ گئی تھیں ۔ اور جدائی و
مفارقت کا یہ عرصہ تقریباً نو برسوں پر محیط تھا اور رابطے کا واحد ذریعہ
خط و کتابت تھا اور اس کے درمیان بھی کئی کئی مہینوں کا وقفہ ہوتا تھا ۔
اور اس دوران ان کی ایک بچی کسی وبائی مرض کا شکار ہو کر وفات پا گئی تھی ،
جبکہ ایک بیٹا نانا سے جدا ہونے کے آٹھ ماہ بعد پیدا ہؤا تھا اس طرح بچوں
کی تعداد چار ہی رہی ۔ پھر جب بالآخر تقدیر نے انہیں دوبارہ ملا دیا تو پھر
دو بیٹے ہوئے زندگی مشقتوں اور سخت کوشیوں کا استعارہ تھی اور جوں توں بسر
ہو رہی تھی کہ ان دو میں سے بڑا والا بیٹا سولہ سترہ سال کی عمر میں لا پتہ
ہو گیا جس کا پھر کبھی پتہ نہ چل سکا ۔ اور اس کی گمشدگی کے کچھ ہی عرصے
بعد نانا ابا کو اچانک ہی کینسر کی تھرڈ اسٹیج تشخیص ہوئی اور مختصر سی
علالت کے بعد وہ وفات پا گئے اور نانی اماں سے ایکبار پھر ہمیشہ کے لیے
بچھڑ گئے ۔
کئی برسوں کے انتظار اور ہر نماز میں بیٹے کی خیر و سلامتی اور واپسی کی
دعا کے بعد انہوں نے علماء سے رجوع کیا کہ کیا میں بیٹے کی دعائے مغفرت اور
اس کے لیے ایصال ثواب کر سکتی ہوں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ اللہ سے
اچھی امید رکھیں اگر بیٹے کے بارے میں کہیں سے کوئی خبر نہیں ملی ہے تو بس
صرف دعائے خیر کریں ۔ پھر مایوسی کے عالم میں وہ کچھ پیروں فقیروں روحانی
عاملوں کے چکر میں بھی پڑیں اور معلوم کرنا چاہا کہ بیٹا دنیا میں موجود ہے
یا نہیں؟ عجیب بات ہے کہ ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملا کہ آپ کا بیٹا دنیا میں
موجود ہے یعنی بقید حیات ہے ، کہاں ہے اور کب واپس آئے گا؟ یہ تو نہیں
بتایا جا سکتا مگر وہ نظر آ رہا ہے ۔ اور بالکل درست حلیہ اور عمر بھی بیان
کر دی ۔ اب تو شک و شبہے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی اگر ماموں کی موت کی
تصدیق ہو جاتی تو نانی اماں کو صبر آ جاتا مگر ان کی زندگی کی نوید نے
انہیں تا عمر امید و بیم کی کشمکش میں مبتلا کیے رکھا ۔ پھر ابتلاء کی
انتہا یہ ہوئی کہ ان کی تین اولادیں ان کی زندگی ہی میں راہیء ملک عدم
ہوئیں جن میں ہماری امی بھی شامل تھیں ، ایک نوعمر نواسا حادثاتی موت کا
شکار ہؤا ۔ ان کی ایک نواسی بالکل انہی کی طرح شوہر کی زندگی ہی میں بیوہ
ہو گئی تھی وہ بھی شادی کے چوتھے روز ، رشتہ انہوں نے کرایا تھا اس صدمے نے
بھی انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا ۔ باقی ان کے بچوں کے نوزائیدہ بچے جو زچگی
کے موقع پر جانبر نہ ہو سکے ان کی تو ہمیں گنتی بھی معلوم نہیں ہے ۔ غرض
آٹھ بھائیوں کی سب سے چھوٹی اکلوتی لاڈلی بہن اور اپنے ماں باپ کی بہت
نازوں کی پالی بیٹی نے جب اپنی عملی زندگی میں قدم رکھا تو چند ہی برس بعد
مصائب و آلام اور آزمائشیں ان کی ہمسفر بن گئیں ۔ یہاں تک کہ خود ان کی
زندگی کا سفر تمام ہؤا خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔ |