فلسطین ایک ایسی سرزمین جہاں مسجداقصیٰ کےساتھ مسلمان
کبھی چین سےآبادتھے۔لیکن آج وہ زمین مسلم خون کی پیاسی ہے۔ آج وہاں ظلموں
جبرکابازارگرم ہے۔اک نئی کربلاسجی ہے۔اس مقدس زمین پہ جس کےایک ٹکرے یعنی
مسجداقصیٰ میں ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تمام
انبیاکرام کی امامت فرمائی ۔یہ وہی مقام جس کی جانب منہ موڑکرکبھی مسلمان
سجدہ کیاکرتاتھا۔اپنےرب کےسامنےحاضرہواکرتاتھا۔اگردیکھااورسمجھاجائےتو
فلسطین کی سرزمین مسلمانوں کےلیےنہایت ہی اہمیت رکھتی ہے۔جس کے حق میں
جہادکرنامسلمان پہ فرض ہے۔کیونکہ مقدس مقامات کی توحین کرنااوربےجاقتل کسی
مذہب کا حصہ نہیں اور اسرائیل مسجداقصیٰ کےساتھ ساتھ کئی مسلمانوں کی شہادت
کا باعث بنابیٹھاہے۔اورمظلوم کے حق میں آواز اٹھانا اسلام کاایک اہم حصہ
ہے۔جس کی بنیاد پہ پاکستان مادروجود میں آیا۔آج پاکستان کی ریاست جس کی
بنیاد لااللہاالاللہ سے رکھی گئی۔جس کی بنیاد اسلام کے سنہری اصولوں کو
پورا کرنےکی خاطر رکھی گئی تھی۔فلستین اور اسرائیل کے درمیان جو معملات ہے
ان کو مدنظررکھتےہوئےپاکستان میں ایک نہایت ہی اہم سوال اٹھایاجاتاہے۔
"کیاپاکستان کوفلسطین کےحق میں اوراسرائیل کےخلاف جہادکرناچاہئےیانہیں؟" اس
بابت توکچھ لوگ اس کے حق میںاورچندہی افرادہےجو اس کے حق میں نہیں ہےان کا
کہنا ہےکہ پاکستان کوفلسطین کی مددکےلیےنہیں جاناچاہئے۔جس کی وضاحت وہ کچھ
یوں کرتےہیں۔ مسجداقصیٰ مسلمانوں کےلئے اہمیت رکھتی تھی لیکن اب نہیں
کیونکہ اب وہ مسلمانوں کاقبلہ نہیں اور رہی بات وہاں موجود مسلمانوں کی
تواس بارےمیں قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"جوکچھانسان کےساتھ ہوتا ہےوہ اس کےاپنےہاتھ کی کرتوت ہے۔" اس آیت کا حوالہ
دیتےہوئےانکاکہناہےکہ جوکچھ بھی فلستنوں کےساتھ ہورہاہےوہ انکی اپنی غلطیوں
کےنتائج ہے۔جسکو مدنظررکھتےہوئےپاکستان کوچاہئےامن وسلامتی کا مظاہرہ کریں
اورفلسطینوں کوان کےحال پہ چھوڑدے ان سب میں سےاہم کردار پاکستان کی خاتون
جن کانام "عاصمہ حرید"ادا کرتی ہوئی منظرعام پہ اتی ہے۔اور اب باری آتی ہے
ان لوگوں کی جو لوگ فلسطین کےحق میں ہونےوالے جہاد کی حمایت کرتے ہیں ان کا
کہنا ہےکہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
" تم پہ جہاد فرض کردیاگیا ہے۔"
اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا ہے کہ
"مسلمان جسدواحدکی ماندہے۔ "
اس آیت اورحدیث کاحوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جہاد اللہ کا حکم ہے اور
فلسطین کےمسلمان ہمارے جسم کا ایک حصہ جواس وقت تکلیف میں ہے۔جس کے لیے
آواز بلند کرنا ہم پہ فرض کیا گیا ہے۔ اور یہ ایک اسلام کا سنہری اصول ہے
جسکی بنیاد پہ یہ ملک قائم ہوا ۔اج ہم لوگ مثنیٰ بن حارثہ جیسے بہادرکےتو
طلب گار ہے لیکن جہاد کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور اگر ہم میں سے کوئی تیار
بھی ہے تو اس کے پیروں میں وقت کی بیڑیاں پڑی ہے۔ جن سے رہائی ابھی ناممکن
ہے۔اور رہی بات مسجداقصیٰ کی تووہ مسلمانوں کا حق ہے کیونکہ وہاں ہمارے
آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے تمام انبیاکرام کی امامت
فرمائی ہے۔ یہ دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ درست ہے۔ کیونکہ دونوں کے پاس قرآن
مجید کا ایک ایک خوبصورت حوالہ موجود ہے۔ لیکن یہاں ایک تیسرا گروہ بھی
موجود ہے۔جس کےافراد تعداد میں نہایت ہی کم ہے۔ جن کا ذکر شاید آپ کے چھو
کر بھی نہ گزراہو۔ اس گروہ سےےوابستہ افراد دونوں گروہوں کی حمایت کرتے
ہوئے کہتے ہیں کہ ٹھیک ہےہم مان لیتے ہیں کہ جو کچھ بھی آج فلسطینوں کےساتھ
ہورہاہے وہ ان کے اپنے ہاتھ کی کرتوت ہے۔ ہاں ہم مان لیتے ہیں کہ فلسطینی
اسی لائک ہے۔ جو کچھ بھی ان کے ساتھ ہورہا ہے ٹھیک ہورہا ہے۔ قرآن سے یہ
بات ثابت ہے۔اور رہی بات مسجداقصیٰ کی تو ہم مان لیتے ہیں کہ اس پہ بھی
ہمارا کوئی حق نہیں کیونکہ وہ اب ہمارا قبلہ نہیں رہا۔ لیکن فلسطین پہ ظلم
ہورہا ہے۔کیونکہ وہاں بچوں اور عورتوں کو بے جاماراجاتاہے۔ہماری بہنوں کی
عزتیں پامال کی جاتی ہے۔ وہ ہمارے جسم کا حصہ ناسہی لیکن انسانیت
کےناطےتعلق ہےہمارا ان سے وہی انسانیت جس نےچندماہ پہلے پاکستان کو
ہندوستان کی مدد پہ آمادہ کردیاتھا۔وہی انسانیت جویہ بھول گئی تھی کہ یہ
وہی ہندوستان ہے جوہمشہ سے کشمیر میں مجھے بھولتا آیا ہے۔ اس انسانیت کے
ناطے آج پاکستان کو فلسطین کےحق میں ضرورت ہے۔
ان ساری باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئےاگر میں کچھ کہوں تو میں تو یہی کہوں گی
کہ ہاں پاکستان کو فلسطین کےحق میں جہاد کی ضرورت ہے۔ اور ایسے جہادکی
ضرورت ہےجو ناہی امت مسلمہ کےلیےہواور ناہی مسجداقصیٰ کے دفع کےلیےہو۔ یہاں
جہاد کی ضرورت ہے تواس انسانیت کےناطےجہاد کی ضرورت ہےجیسے مدنظر رکھتے
ہوئے انڈیاکی امداد کی گئی تھی ۔اس بات کوبھول کرکہ وہ دشمن ہےہمارا۔اور
کشمیری مسمانوں پہ آئے دن ظلم ڈھاتاہے۔ اور ایک چوتھا گروہ بھی ہے نہایت ہی
معصوم افراد ہے۔ جو ابھی تک فیصلہ نہیں کر پارہا کہ جہاد ہونا چاہئے یا
نہیں لیکن وہ پھربھی چند سوال اٹھاتا ہےکہ اگرفلسطین پہ ہونےوالا ظلم ان
کےاپنےہاتھ کی کرتوت ہےتوپھرہندوستان میں کروناکی وباکاحدسےزیادہ پھیل
جانااوراکسیجن کی کمی کیاتھی؟ وہ بھی تو ان کے اپنے ہاتھ کے کرتوت تھے۔ تو
اس ہندوستان کی مدد کیوں کی گئی تھی ؟ اگراس وقت ہندوستان کی مددانسانیت کے
ناطے کرناضروری تھا تواج مسلمان کی مدد کیوں ضروری نہیں ہے؟ کیاانسانیت
مسمان کابےجاقتل سکھاتی ہے؟ فلستینی انسان نہیں ہےکیا؟ کیا انہیں انسانیت
کے لیے امداد نہیں ملتی چاہئے ؟ دراصل یہ چار گروہ صرف نظر آرہے ہیں ۔
درحقیقت یہ دو ہی ہے۔ ایک وہ گروہ جوفلسطین کےحق میں ہونے والے جہاد کے حق
میں ہےاور دوسرا خلاف ہے۔ کیونکہ تیسرا گروہ حمایت یہودیوں کی کرتا ہے اور
فیصلہ امت مسلمہ کے حق میں سناتا ہے۔ اور رہی بات چوتھے گروہ کی تو اس بھی
تمام کے تمام سوالات کے جوابات میں جہاد کی حمایت چھپی ہے۔اور آج پاکستان
میں جس سر زمین کی تاریخ نہایت ہی وسیع ہے۔ جیسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے
بڑوں اپنی نظرانیں پیش کئے تھے۔وہ پاکستان جس کی بنیاد لہوں سے رکھی گئی
ہے۔وہ پاکستان جسکی عمارت کی تعمیر امت مسلمہ کے جسم کےٹکڑوں سے کی گئی
ہے۔وہ ملک جس قومی ترانوں ، نغموں اسلام کا بول بالا اور دشمن سے لڑنے کی
طاقت جھلکتی ہے۔ اس ملک کے حکمران آج امن پسندی کا دوھنگ رچائے بیٹھے ہیں ۔
کیونکہ امن پسندی کاڈوھنگ رچانےوالا شخص حقیقت میں بزدل کہلاتا ہے ۔ اگر
پاکستان کے حکمران اس وقت امن پسندی کا مظاہرہ کرتےہیں ۔تودرحقیقت پاکستان
بزدل ملک ہونےکا ثبوت دیتا ہے۔ ہم ثابت کردے گے ہم لہوں بہہ جانے پہ اظہارِ
افسوس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ہم کمزور ہے۔
آج پھر بہا لہوں میرے شجرہ نسب کا
آج پھر سربازار لب ہمدرد میسر
آج پھر مرہم سے بازار خالی
آج پھر سمجنے سے جہاں خالی
کہاں دکھاؤ میں زخم اپنے
کہاں سکھاؤ میں درد اپنے ۔
|