آزاد کشمیر کے انتخابات وقت پر ہوں گے یا ہوں گے،
اس بارے میں ابھی تک کوئی مستند بات منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ بر سر اقتدار
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی وقت پر انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف وفاق میں حکومت کے دم پر انتخابات ملتوی کرنے کی تجویز
پر غور کر رہی ہے۔ مسلم لیگ انتخابات میں تاخیر کو دھاندلی کی کوشش قرار
دیتی ہے۔ 21 جولائی 2016 کو آزاد کشمیر میں انتخابات میں کامیابی کے بعد
مسلم لیگ ن نے حکومت تشکیل دی۔ قانون ساز اسمبلی کی مدت 29جولائی2021کو
پوری ہو رہی ہے۔ اس کے بعدسے 60دن تک کسی بھی وقت نئے انتخابات کا انعقاد
ضروری ہے۔ سیاسی پارٹیاں جب جوڑ توڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ اپنے امیدواروں کے
ناموں کو حتمی شکل دے رہی ہیں۔ اس دوران نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر
(این سی او سی) نے انتخابات کو دو ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی تجویز پیش کر
دی۔ جسے آزاد خطے میں بر سر اقتدار ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت تمام
پارٹیاں مسترد کر رہی ہیں۔ وہ اسے وفاقی حکومت اورپی ٹی آئی کی انتخابات
چرانے کی مشترکہ کوشش قرار دیتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران
خان کو اپنی شکست واضح نظر آنے لگی ہے اس لئے وہ انتخابات ملتوی کرنا چاہتے
ہیں۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے آزاد کشمیر حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ انتخابات
کے انعقاد کے فیصلے پر نظر ثانی کرے کیوں کہ جلسے جلوس اور انتخابای
سرگرمیوں سے کورونا پھیلنے کا خدشہ ہے۔ انسانی زندگی کو درپیش خطرے کے باعث
انتخابی شیڈول ترتیب دیا جائے۔ کورونا کی وجہ سے آزاد کشمیر میں دوسرے سال
بھی اول تا ششم جماعت تک کواگلے کلاسوں میں پرموٹ کر دیا گیا ہے۔ بلیک فنگس
کی شکل میں کورونا کی ایک نئی قسم نے پڑوسی بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں
سیکڑوں افراد کو اپنا شکار بنا ڈالا ہے۔ پاکستان میں بھی کئی مریض بلیک
فنگس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی این سی او
سی کا آزاد کشمیر کے انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا آزاد کشمیر کے
الیکشن کمیشن کو دو ماہ تک الیکشن ملتوی کرنا کے لئے خط لکھنا الیکشن سے
قبل دھاندلی اور الیکشن چوری کی کوشش ہے۔ اس خط کو الیکشن دھاندلی کی سازش
قرار دیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی گلگت بلتستان کی
الیکشن حکمت عملی آزاد کشمیر میں دہرانا چاہتی ہے۔ یہ سوال بھی کیا جا رہا
ہے کہ این سی او سی کے 31مئی 2021کو لکھے اس خط کی آئینی حیثیت کیا ہے جس
میں الیکشن جولائی کے بجائے ستمبر میں کرانے کی تجویز دی گئی ہے۔ انتخابات
ملتوی کرنے کی تجویز پر یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی
وفاداریاں تبدیل کرانے کی خاطر ایسا کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں نیب کو بھی
ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے الزامات عائد ہو رہے ہیں۔
کورونا کے باوجود پاکستان میں ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ پھر آزاد
کشمیر کے انتخابات سے کیا ڈر محسوس کیا جا رہا ہے۔ این سی او سی نے ان ضمنی
انتخابات میں کوئی ایڈوائزری جاری نہ کی۔ اگر عمران خان اور ان کے رفقاء
آزاد کشمیر میں اپنی پوزیشن کو کمزور سمجھ کر الیکشن دو ماہ کے لئے ملتوی
کرانا چاہتے ہیں تو دو ماہ بعد ان کے ووٹ بینک میں کیسے اضافہ ہو سکتا ہے۔
آزاد کشمیر کا آئین بھی وقت پر انتخابات کرانے کے لئے واضح اشارے دیتا ہے۔
اس میں الیکشن ملتوی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسمبلی کی معیاد 29جولائی
کو پوری ہونے کے بعد دو ماہ تک انتخابات کا انعقادآئینی ضرورت ہے۔ پیپلز
پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری لطیف اکبر چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن فوری
طور پر شیڈول کا اعلان کرے۔ این سی او سی نے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن
ملتوی کرنے کا خط لکھتے ہوئے کہا کہ ستمبر تک آزاد کشمیر میں دس لاکھ افراد
کو وبا سے بچاؤ کی ویکسین لگ جائے گی۔ این سی او سی کا خیال ہے کہ ستمبر کے
بعد انتخابی جلسے جلوس لوگوں کو زیادہ متاثر نہیں کریں گے۔ مگر وزیراعظم
آزاد کشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا کہ عمران خان حکومت الیکشن
ملتوی کرا نے سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مگر آزاد کشمیر میں
الیکشن صرف بیرونی حملے کی صورت ہی میں ملتوی ہو سکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے
کہ این سی او سی کا خط یہاں کے عوام کی توہین ہے۔ الیکشن ملتوی کرنے کا
اختیار اسمبلی کے پاس ہے۔ ن لیگ کے حلقو ں کا خیال ہے کہ وفاق کے رویہ سے
یہاں سیاسی تناؤ پیدا ہو گا۔
وفاقی وزیر کشمیر و گلگت بلتستان علی امین خان گنڈا پور آزاد کشمیر میں
انتخابات کے التوا سے اظہار لا تعلقی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ای سی
او سی ایک آزاد ادارہ ہے ، جو وبا سے متعلق زمینی حقائق کے تناظر میں فیصلے
کرتا ہے۔ اس خط سے ان کی وزارت یا وفاق کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ عمران خان کے
وزیر مشیر سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن صرف پروپگنڈہ کرتی ہے۔ جس طرح وفاق میں
2018کے الیکشن پی ٹی آئی نے جیتے اور گلگت بلتستان میں بھی حکومت تشکیل دی
، اسی طرح اب آزاد کشمیر میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت بنے گی۔ اپوزیشن اسی
وجہ سے مایوس ہے۔ آج سب پارٹیوں ایک دوسرے پر امیدوار بھی پورے نہ ہونے کا
الزام لگا رہی ہیں۔ آزاد کشمیر میں اس وقت پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، مسلم
کانفرنس، جماعت اسلامی، لبریشن لیگ سمیت 12سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں، مسلم
لیگ ن خطے کے الیکشن کمیشن کے ساتھ اپریل2021تک رجسٹر نہیں ہوئی تھی۔ آزاد
کشمیر کی موجودہ اسمبلی کی آئینی مدت 29 جولائی کو پوری ہوگی۔ 53 رکنی نئی
اسمبلی کی 45 نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوں گے۔ انتخابات کا حتمی شیڈول
ابھی تک جاری نہیں ہو اہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی بڑی پارٹیاں اپنے
امیدوار نامزد کر چکی ہیں۔ مگر این سی او سی کے چیف الیکشن کمشنر کے نام خط
نے انتخابات کا انعقاد مشکوک بنا دیا ہے۔ایک طرف وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر
این سی او سی کا خط میڈیا کو دکھارہے تھے جس میں انتخابات ملتوی کرنے کی
تجویز دی گئی ۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن کسی خط کو موصول ہونے سے انکاری
ہے۔یہ خط 21 مئی کو این سی او سی کے اجلاس میں آزادکشمیر کے انتخابات سے
متعلق بحث میں اس اتفاق کے بعد جاری ہوا کہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی
اجتماعات اور بڑے پیمانے پر میل جول سے کرونا وائرس پھیل سکتاہے۔آزاد کشمیر
کے چار اضلاع میں گزشتہ ہفتوں میں کرونا وائرس کے مثبت کیسوں کی شرح بلند
رہی ۔اس خط کے بعد آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فارق حیدر اور پاکستان کے
سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے الگ الگ پریس کانفرنسیں کیں اور اس
تجویز کو مسترد کردیا۔ التوا کو وفاق کی طرف سے انتخابات چرانے کی ایک کوشش
قرار دیا۔
یہی نہیں بلکہ راجہ فاروق حیدر وفاق پر کشمیر کو صوبہ بنانے کا الزام لگا
رہے ہیں۔کہ من پسند نتائج کے بعد ایسا کرنا عمران خان حکومت کے لئے آسان ہو
جائے گا۔ کشمیر کو صوبہ بنانے کی سازش پر پے درپے بات کی جا رہی ہے۔فاروق
حیدر کا الزام ہے کہ انتخابات کے حوالے سے عمران خان کو قوانین کا علم
نہیں۔ وہ ہمارے قوانین سے واقف نہیں، ہمارا اپنا مکمل با اختیار الیکشن
کمیشن ہے۔وہ وفاق کے خلاف مزاحمت کرنے اور منصفانہ انتخابات میں جو بھی
جیتا، اسے تسلیم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔’’سیز فائر لائن پر حالات پر امن
ہیں، آئین میں انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر ہم پر غیر
آئینی اقدام کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو کسی کا لحاظ نہیں کریں گے۔‘‘کسی کا
لحاظ نہ کرنے کا انتباہ کسی اور طرف بھی اشارہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز
پارٹی بھی انتخابات ملتوی کرنے کی کوشش کا ہر سطح پر مقابلہ کرنے کا اعلان
کر رہی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس مختلف حلقوں میں امیدوار ہی
نہیں ہیں، جوڑ توڑ میں کامیابی نہیں ہو رہی ہے ۔ اس لئے وہ انتحابات ملتوی
کروا نا چاہتی ہے تا کہ وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے اسے زیادہ وقت مل
سکے۔اپوزیشن کہتی ہے کہ عمران خان کا کرونا بہانہ ہے ، الیکشن چرانا ہی اصل
نشانہ ہے۔
آزاد کشمیر میں اس وقت بھی الیکشن ملتوی نہیں ہوئے جب 2005کا شدید زلزلہ
آیا۔ جس نے بستیوں کے بستیاں تباہ کر دیں۔ آزادکشمیر کے عبوری آئین 1974
میں اسمبلی کی مدت پانچ سال ہے۔انتخابات جنگ یا قدرتی آفات کی وجہ سے ملتوی
ہو سکتے ہیں۔گزشتہ سال گلگت بلتستان میں ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے
انتخابات کو تین ماہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ یہ انتخابات اگست میں
منعقد ہونے تھے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے تین ماہ کا التوا ہوا۔ اس دوران
حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے کئی اہم امیدوار وں نے وفاداریاں تبدیل کیں۔ وہ
پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ۔ اسی وجہ سے این سی او سی کے خط
نے شفاف انتخابات کے انقعاد سے متعلق شکوک و شہبات پیدا کر دیئے ہیں۔کیا پی
ٹی آئی آزاد کشمیر میں بھی گلگت بلتستان کی تاریخ دہرانا چاہتی ہے ۔ اس
سوال کا جواب یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں کوئی قانون صرف آئینی ترمیم سے ہی
نافذ کرنا ممکن ہے۔ گلگت بلتستان میں صدارتی آرڈیننس کسی قانون کے نفاذ کے
لئے کافی ہوتا ہے۔ عمران خان حکومت کو مزید وقت درکار ہے۔ ن لیگ سے وابستی
لوگوں نے پانے کام نکال لئے ہیں۔ وہ مفادات حاسل کر چکے ہیں۔ اب اڑان بھرنا
ان کے لئے آسان ہے۔ دیکھنا ہے کہ پی ٹی آئی وفاداریاں تبدیل کرنے کی قیمت
کیا لگاتی ہے اور معروف پارٹیاں الیکٹیبلز کو اڑان بھرنے سے روکنے کے لئے
کیا کرتب دکھاتی ہیں۔
|