تحریر:محمد سلیم خان، باغ آزاد کشمیر
۱۸۴۶ء کے معاہدہ امرتسر کے بعد کشمیر پر ڈوگر ہ راج کا تسلط ہوگیاتھاجس میں
شخصی آزادیوں پر شدید قسم کی قدغن تھی اور مسلمان غلامی کی زندگی بسر کر
رہے تھے۔ صرف ایک مثال کافی رہے گی کہ اس دور میں لوگوں کے گھروں میں لنے
والے چولہوں پر بھی ٹیکس تھا لوگون سے بیگار لی جاتی تھی۔ مہا راجہ کشمیر
نے ریاست کا ایک حصہ پونچھ اپنے ایک باجگزارراجہ کو دے رکھا تھا۔ اس فضا
میں وقتا فوقتا آوازیں اٹھتی تھیں لیکن دبا دی جاتی تھیں۔ سری نگر اور جموں
میں لوگ چھپ چھپا کر سیاسی اعتبار سے خود کو منظم کر رہے تھے لیکن شدید
ترین خطرات سے دو چار رہتے تھے۔ پونچھ کی ریاست کی جغرافیائی دوری اور
ذرائع مواصلات نہ ہونے کے باعث یہاں خبریں دیر سے پہنچا کرتی تھی۔ سری نگر
میں ریڈنگ روم پارٹی بنائی گئی، ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی
گئی جس نے بالاخر مسلم کانفرنس کی شکل اختیار کی۔ یہ جماعت جموں کشمیر کے
مسلمانوں کی پہلی سیاسی جماعت تھی۔ ریاست پونچھ کی صورتحال میں تبدیلی کے
لیے آواز اٹھانے والی پہلی شخصیت سید احمد شاہ گردیزی آف ہل سرنگ (موجودہ
ضلع باغ) کی تھی۔ جنہوں نے مسلمانوں کی خدمت کو اپنا مطمع نظر قرار دیدیا
تھا۔ دینی اور دنیاوی تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا
کہ آپ برصغیر کی مختلف تحریکوں میں شامل رہے۔ ۱۹۰۰ء سے لے کر ۱۹۴۰ء تک کے
زمانے کی بات ہے،جب آپ کو اس وقت کے برصغیر کے چوٹی کے مسلم رہنماؤں مولانا
محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی قیادت میں کام کرنے کا موقع ملا۔ آپ
کی خدمات کے اعتراف میں انہوں نے ہی آپ کو برما بھیجا جہاں آپ نے مسلم
ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی اور اس کے بانی سیکرٹری رہے۔
وہاں سے واپسی پر آپ نے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے ساتھ
تحریک خلافت میں بھرپور حصہ لیا اور انگریز حکومت کے ہاتھوں قید و بند کی
صعوبتیں برداشت کیں۔ تحریک خلافت کے ٹوٹنے کے بعد مسلمانوں پر مایوسی کے
بادل چھا گئے لیکن سید احمد شاہ گردیزی نے ہمت نہ ہاری اور اپنے علاقے یعنی
پونچھ میں سیاسی و ملی بیداری کی تحریک کی قیادت کا فریضہ اپنی زندگی کے
آخری سانس تک انجام دیتے رہے۔تحریک آزادی کشمیر میں آپ کے اکلوتے فرزند سید
ابراہیم شاہ ڈنہ محاذ میں شہید ہوئے اور وہاں ہی مدفون ہیں۔
آپ نے مسلم کانفرنس میں شمولیت اختیار کی اور ریاست کے جنرل سیکرٹری چنے
گئے۔ ساتھ ہی آپ نے مہاراجہ کشمیر اور راجہ پونچھ کے خلاف مختلف مذہبی
تحریکوں کی قیادت بھی کی۔ ہل سرنگ میں مسجد کو ڈوگرہ پولیس نے گرا دیا تھا
آپ نے اس کے خلاف ہل سرنگ سے پونچھ شہر تک لانگ مارچ منظم کیا۔ وہاں آپ کو
گرفتارکیا گیا۔طرح طرح کے لالچ دیئے گئے۔ مختلف عہدوں کی پیش کش کی گئی
لیکن آپ کے پایہ ء ثبات میں لغزش نہ آئی اور اپنے مقصد پر ڈٹے رہے۔ سری نگر
میں توہین قرآن کے واقعہ کے خلاف ۳۱جولائی ۱۳۹۱ء کو ۲۲ مسلمان نوجوانوں کی
شہادت کے حلاف تحریک کو ریاست پونچھ میں منظم کرنے کا اعزاز بھی سید احمد
شاہ گردیزی کے حصہ میں آیا۔ ان کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو حیرت ہوتی
ہے کہ اتنی بھرپور سیاسی و مذہبی زندگی کے ساتھ ساتھ آپ بر صغیر کشمیر و
پونچھ کی اخبارات میں بھرپور انداز میں لکھتے بھی رہے۔
آپ کے معاصر مورخ منشی محمد دین فوق،جنہوں نے تاریخ کشمیر اور اقوام پونچھ
و کشمیر پر بے شمار کتابیں لکھیں، اپنی کتاب ’’تاریخ اقوام عالم پونچھ‘‘
میں سید احمد شاہ گردیزی کی زندگی پر یوں نظر ڈالتے ہیں۔
’’سید احمد شاہ،علمی و ادبی شوق کے علاوہ سیاست سے بھی گہری دلچسپی رکھتے
ہیں۔ عرصہ تک برمہ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سیکرٹری رہے ہیں“۔(اقوام
عالم پونچھ، صفحہ نمبر 103).آپ کی خدمات کا اعتراف اس عہد کے دیگر مورخین
نے بھی کیا ہے۔
سید احمد شاہ گردیزی کی قومی و ملی خدمات کے اعتراف میں حکومت ریاست جموں و
کشمیر نے آپ کو پس از مرگ قومی اعزاز سے نوازا آپ کا انتقال 1937 میں ہوا۔
آپ کا مزار نزد ٹی۔بی سینی ٹوریم ہسپتال واقعہ ہے۔ آزاد کشمیر میں واحد
ٹی۔بی ہسپتال آپ کی آبائی زمین میں واقع ہے اور آپ کے نام سے منسوب ہے۔
|