کراچی کے حلقہ 249 کا ضمنی انتخاب اس لحاظ سے منفرد تھا
کہ جن پارٹیوں کے نمایندے یہاں قومی الیکشن میں سر فہرست تھے وہ ضمنی
الیکشن میں سرفہرست سے پھسل گیے وہ عوام کی ناپسندیدگی کی گہری کھائی میں
جاپڑے اور ایک عدد بلیک بیلٹ ،سماجی کارکن اور پیپلزپارٹی کا جیالہ پشتون
بازی لے گیا اس انفرادیت کو تحریک انصاف اور نواز لیگ ماننے کو تیار نہ
تھیں اور نواز لیگ تو کچھ عرصے سے خود پسندی کے ایک ایسے نشے میں مبتلا
ہوچکی ہے کہ آئیندہ بھی جو ضمنی الیکشنز ہونگے کچھ بعید نہیں اسپر انکی یہی
گردان رہے گی کہ "ووٹ کو عزت دو "کا ہمارا بیانیہ ہی عوام میں مقبول ہے
لحاظہ جب بھی کسی کو ووٹ پڑے وہ ہمارے ہی ہونگے نہ کہ ہمارے سامنے کھڑے
مخالف سیاسی نمایندے کے .اور نون لیگ کا یہ نشہ جلدی اترتا نہیں دیکھائی
دیتا کیونکہ "کچھ شہر دے صحافی بھی لفافی ہیں اور کچھ تجزیہ کار بھی بریف
کیس ہیں
خیر بات ہورہی تھی جناب عبد القادرخان مندوخیل کی جیت کی ......جس نے
سرکاری اور نیم سرکاری پارٹیوں کو تو ضمنی الیکشن میں پریشان کیا ہی مگر
عوام کو اسوقت حیران کیا جب ایک ٹاک شو کے دوران "پنجاب کی شیر پتر " نامی
گرامی پہلوان کو بیچ شو میں "پچھاڑ " دیا اور جو حالات اس وقت اس مملکت خدا
داد کے چل رہے ہیں جن میں اسمبلی سے لیکر سوشل میڈیا اور میڈیا سے لیکر گلی
محلوں تک اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے وہاں ایک مرد کا ایک مرد نما
عورت کو اپنے ضبط و برداشت سے پچھاڑنا ایسا حیران کن منظر ہے جس نے مندوخیل
جیسے گمنام سماجی کارکن کو راتوں رات اسکرینوں کا ہیرو بنا دیا ہے
اگلے دن دیکھتی کیا ہوں کہ تمام چینلز کے پرائیم ٹایم شو ز میں قاد ر خان
کا طوطی بول رہا ہے شاید یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ممبر اسمبلی کو اسکے گالی
گلوچ یا مکے بازی، تھپڑ بازی کے میرٹ پر نہیں بلکہ برداشت اور حوصلے پر
نیوز چینلز دعوت دے رہے ہیں اور قارئین مزید انگشت بدنداں رہ جائیں کہ ممبر
بھی پاکستان پیپلزپارٹی کا جس پارٹی کے کھاتے میں پچھلے پچاس سالوں میں قلم
کاروں ، تجزیہ کاروں ، صحافیوں اور اینکروں نے صرف " ملبہ " ڈالا ہے متفقہ
آئین سے بینظیر انکم سپورٹ اور میزائل پروگرام سے بین الاقوامی میعار کے
علاج کی مفت سہولتوں تک کو یہ "پڑھے لکھے "بہت محنت سے اپنی چاۓ کی پیالی
میں گھول کر پی جاتے ہیں اور ہر وہ مسلہ جو پاکستان کے طول و عرض میں موجود
ہے پیپلزپارٹی کی حکمرانی کو اسکا ذمہ دار ٹہرا کر نیوز میڈیا ہاؤس اور
راولپنڈی میں قائم "پاور ہاؤس " سے برابر کی تنخواہ وصول کر لیتے ہیں
چلیں یہ تو پرانا درد ہے اس لیے بار بار اسکا ذکر کرنا سواۓ درد کو بڑھانے
کے کچھ نہیں کرے گا ہم تو آج کی نئی بات کرنا چاہ رہے ہیں جو نہ صرف دلچسپ
ہے بلکہ تاریخ کو ہزاروں سال بعد دہرانے وا لا معاملہ ہے . آسمانی کتابوں
میں درج ہے کہ کس طرح ایک طاقتور شخص کی بااختیار بیوی نے حضرت یوسف کی
وجاہت پر فریقتہ ہوکر انپر "حملہ " کیا اور حضرت یوسف کے بارے میں بیان ہے
کہ وہ اپنی عزت بچاتے ہوے پیٹھ دیکھا کر بھاگے اس دوران انکا کرتا زلیخا کے
ہاتھوں پیچھے سے پھٹ گیا اور یہی پیٹھ سے پھٹا کرتا عدالت میں انکی بے
گناہی کا ثبوت بن گیا . اس وقت کا مصر یقینن آج کی "نیو ریاست مدینہ " سے
بہت بہتر تھا کیونکہ عزیز مصر ہو یا زلیخا دونوں ہی پاکباز و باوقار یوسف
کی بے گناہی کے کھلے کھلے ثبوت دیکھ کرکم از کم کچھ شرافت دیکھا گیے ایک
ہماری ریاست مدینہ ہے اوراسمیں گریبان کھینچتی ، تھپڑ لگاتی، گالم گلوچ
کرتی "عاشق "کو سینڈ وچ بناتی فردوس اعوان ہیں جنکی نظر میں اگرمرد اپنی
عزت اور وقار انکے ہاتھوں سے بچا کر "کمرے سے نکل جاے" تو وہ مرد نہیں بلکہ
" کھسرا " ہے..... وہ تو بھلا ہو زلیخا کا کہ سیالکوٹ میں ہوش نہیں سنبھالا
اور نہ ہی سیاست میں لوٹا بنتی بناتی چیف منسٹر پنجاب کی خاص الخاص معاون
بنی ورنہ جس لمحے حضرت یوسف کا پیچھے سے پھٹا کرتا عزیز مصر کو انکی بے
گناہی کی گواہی دیتا اسی لمحے زلیخا نے گرج کے کہنا تھا " جو سچا ہے اسکو
بھاگنے کی کیا ضرورت ہے جس کے دل میں چور نہیں اسکو کنڈیاں لگا کر باہر
بھاگنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور وہ بھی ایک " عورت " سے ..... یہ کیسا "کھسرا
مرد" ہوگا کہ جو ایک عورت سے ڈر کر بھاگ رہا ہے یہ روایت ہے نہ آپکو زیب
دیتا ہے " .......اور یوں تاریخ کےاوراق ہمیں کچھ اور ہی کہانی سناتے ، کچھ
اور ہی سبق ہماری روایات کا حصہ ہوتے پھر ہمارے الہامی مذاہب ہمیں یہی
تعلیم دیتے کہ ہر باوقار اور عزت دار مرد "کھسرا " ہے اورہر بے راہ رو اور
بد چلن مرد " مرد کا بچہ "
|