ڈھرکی میں ٹرین کا خوفناک حادثہ

ڈھرکی (سندھ) کے مقام پرکراچی سے آنے والی ملت ایکسپریس اور راولپنڈی سے کراچی جانے والی سرسید ایکسپریس کے مابین ٹکر کے نتیجے میں 60قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع لمحہ فکریہ ہے ،حادثے میں 150کے قریب لوگ زخمی ہو گئے ہیں۔یہ ٹرین حادثہ پاکستان کی ریلوے تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ہر حکومت کے دور میں ٹرین حادثات ہوتے رہے ہیں اور ہر حادثے پر وزیر اعظم ، وزیر ریلوے سمیت تمام حکومتی عہدیداران کی طرف سے اظہارافسوس کیا جاتا ہے ۔اپوزیشن کی طرف سے وزیر ریلوے سے فوری طور پر مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ زورپکڑ جاتا ہے ۔ملک کا ہر دوسرا شخص ریلوے کی ناقص کارکردگی پر تنقید کرکے یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپناحق ادا کر دیا ہے ۔چائنا سمیت دیگر کئی ممالک میں سنگین حادثے کی صورت میں وزیر موصوف فورا ً استعفیٰ دے دیتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا کوئی کلچر موجود نہیں۔موجودہ حکومت کے 3سالہ دور میں 79حادثے ہو چکے ہیں۔ لیکن ان حادثات سے کبھی کسی وزیر ریلوے کوئی فرق نہیں پڑا ۔ریلوے کا نظام خیبر سے کراچی تک کام کر رہا ہے ۔ظاہر ہے کہ کوئی وزیر اتنے وسیع حصے میں موجود ریلوے نظام کو خود تو کنٹرول کرنے سے رہا ۔ریلوے کو چلانے کے لیے کھربوں روپیہ قومی خزانے سے خرچ کیا جا تا ہے ۔ریلوے ٹریک کی دیکھ بھال اور ٹرینوں کو رواں دواں رکھنا اہم ذمہ داریاں ہیں ، اس کے لیے باقاعدہ افسران و ملازمین کی ایک فوج ظفر موج مامور ہے۔حادثے کی ذمہ داری کسی فرد واحد پر نہیں ڈالی جا سکتی لیکن غفلت کسی بھی جانب سے ہو اس میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کو یقینی بنانا چاہئے ۔ایسا نہیں کہ ہر حادثے کے بعد انکوائری کمیشن مقرر کرکے رپورٹ تیار کروائی جائے اور بعد ازاں اسے سرخ فیتے کی نذر کردیا جائے ۔سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پروردہ عناصر اور مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ افسران کے سفارشی سارے سسٹم کو تہہ و بالاکرنے کی سکت رکھتے ہیں ۔حادثات کے باوجودبھی غفلت اور لاپرواہی کے مرتکب افسران و ملازمین اپنے عہدوں پر براجمان رہتے ہیں۔

جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اپوزیشن حکومت کے خلاف شور مچانے لگتی ہے ۔لیکن اگر ماضی میں میاں شہباز شریف 300ارب روپے کی لاگت سے اوریج ٹرین منصوبے کی بجائے Mlمنصوبے پر خرچ کرنے کی تدبیر کرتے ، انہی پرانے ریلوے ٹریکس کو تبدیل کرنے پر توجہ دی گئی ہوتی اور جدید سسٹم کو اپنایا گیا ہوتا تو شاہد اس قسم کے خوفناک حادثات کا تدارک ممکن ہو سکتا ۔المیہ یہ ہے کہ ہم محض تنقید برائے تنقید کی ایک ہی پالیسی کے تحت دوسروں پر الزام تراشیاں کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عوامی نمائندگی کا حق ادا کر دیا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ ریلوے حادثات ہوتے ہیں تو ہم محض مذمتی بیانات دینے ، اظہار افسوس کرنے اور متاثرین کی امداد کے حوالے سے خدمات سرانجام دینے میں لگ جاتے ہیں۔اس علاوہ عوامی مسائل حل کرنے کی کوئی تدبیر نہیں کرتے۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موت کا ایک دن معین ہے ،اس قسم کے حادثے بھی تقدیر میں لکھے گئے وہ سانحات ہیں کہ جن سے فرار ممکن نہیں ۔گھروں سے سفر کے لیے نکلنے والوں کو اگر اس بات کا ادراک ہو جائے یا انہیں معلوم ہو کہ ان کی زندگی کا یہ آخری سفر ہے تووہ کبھی کسی ریل گاڑی ، جہاز ، بس یا گاڑی میں سوار ہی نہ ہوں۔عملی زندگی میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ انسان دوستوں اور مہربانوں کی آنکھوں کے سامنے وفات پا جاتا ہے لیکن کوئی انہیں بچا نہیں سکتا ۔یہی بات ریلوے حادثات کی ہے کہ حکام لاکھ احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں ،موت نے بہر حال آناہی ہے۔ ڈھرکی ٹرین حادثے میں 60سے زاہد انسانی جانوں کا ضیاع افسوسناک ہے ۔دو ٹرینوں کا آپس میں ٹکرانا سراسر ذمہ دار افراد کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ ایسا تو ممکن نہیں کہ دو ٹرینیں آمنے سامنے آ رہی ہوں اور ڈیوٹی پر موجود افسران کوان کا علم ہی نہ ہو ۔ڈھرکی ریلوے حادثے کی صورتحال یہ ہے کہ ایک ٹرین خرابی کے سبب ریلوے ٹریک سے اتر گئی تو اسی اثناء میں دوسری لائن پر آنے والی ٹرین اس سے ٹکرا گئی ۔

ریلوے کا قبلہ تو شروع دن سے ہی درست نہیں ۔خیبر سے کراچی تک کاریلوے ٹریک جوں کا توں چل رہا ہے ۔۔کہیں کسی مقام پر کوئی خرابی پیدا ہو بھی جائے تو کسی کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی ۔وزیر ریلوے و دیگر افسران بند کمروں میں اپنا وقت گذار کر چلے جاتے ہیں ۔کبھی کسی وزیر ، مشیریا اعلیٰ افسران نے یہ زحمت گوارا نہیں کی کہ وہ کہیں باہر نکل کر حالات کا جائزہ لیں ۔ٹرینیں ٹکرا جائے یا پیٹری سے اتر جائیں ۔لوگ مریں یا جئیں ۔یہ لوگ تو محض دیہاڑی لگانے آتے ہیں ۔اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ اب تک جتنے بھی حادثات ہوئے ان میں بیسیوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں لیکن کسی ایک بھی حادثے کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی عوام کو بتایا گیا کہ حادثہ کیوں ہوا۔۔؟ اور یہ کس کی غفلت کا نتیجہ تھے ۔کبھی کوئی وزیر مشیر بھی مستعفیٰ نہیں ہوا۔ایسا نظر آتا ہے کہ وزیر کی حیثیت سے کسی ایک بھی لیڈر نے ریلوے کے حالات و دیگر معاملات بارے آگاہی حاصل کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ۔نا ہی ریلوے نظام کو نئی ڈیجیٹل سسٹم کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے ۔200سال پرانے ریلوے ٹریکس میں تبدیلی کا سلسلہجاری ہے لیکن ابھی بھی متعدد مقامات پر ریلوے لائنز بوسیدہ ہونے کی وجہ سے حادثات کا امکان برقرار رہتا ہے ۔پورے ملک میں ریلوے ٹریکس میں واقع سینکڑوں’’پھاٹکس‘‘بھی حادثات کاسبب بن چکے ہیں لیکن گنتی کے چند پھاٹکس کو ختم کرنے کی تدبیر کے سوا آج تک اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔پھاٹکس پر شہریوں کی جلد بازی کے طفیل اب تک کتنے ہی رکشے ، گاڑیا ں، ریل گاڑیوں سے ٹکراتی رہی ہیں ۔ہر حادثے پر حکومت عوام کو طفل تسلیاں دے کو خاموش کرا دیتی ہے ۔لیکن عملاً ریلوے میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی سعی نہیں کی جاتی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ریلوے کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی اپنائی جائے ۔مرنے والوں کے لواحقین کی مالی امداد اچھا اقدام ہے لیکن اس سے بڑھ کر حکومت اور وزیر ریلوے آئے روز ہونے والے حادثات کی ممکنہ وجوہات کا جائزہ لیں اور اس امرکو یقینی بنائیں کہ ٹرین حادثات میں کمی آئے ۔ریلوے عوام کے لیے ایک بہترین سفری سہولت ہے ،اسے محفوظ بنانا بہر حال حکومت کی ذمہ داری ہے ۔تاہم حادثے کے ذمہ داران کے خلاف سخت ترین کارروائی کو یقینی بنانا ہوگا ،تاکہ آئندہ کے لیے کوئی غفلت کا ارتکاب نہ کرے۔

 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130367 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.