اسماء یعقوب (ملتان)
خوشبودار سبز الائچی والا خاص پشاوری قہوہ۔ قہوہ لے لو، گرما گرم قہوہ۔ فی
کپ 20 روپے، پشاوری قہوہ تیار ہے۔ چائے، کافی، آئس کریم، چپس، مناسب قیمت
پر لینے کے لیے ہمارے پاس آ جائیں۔ فیملی کے لیے الگ سے جگہ ہے۔ کرارے اور
مزیدار پوپکارن۔ ’’بھائی! کھلونے لو گے۔ اچھے والے کھلونے ہیں اور جلدی
نہیں ٹوٹتے۔ لے لو ناں! اپنے بچوں کے لیے لے لو۔ میں آپ کے لیے دعا کروں
گی۔‘‘مال روڈ پر بھیڑ کے درمیان ایک پٹھانی بچی نے اس کی توجہ اپنی طرف
مبذول کر لی۔ وہ سر سبز وادیوں کے حسن میں کھویا ہوا تھا۔ وقفے وقفے سے برف
باری ہونے کی وجہ سے گھروں کی چھتوں پر سفید نرم سی تہہ چڑ چکی تھی، جو
دیکھنے میں بھلی لگتی۔ ماحول میں خاصی خنکی پیدا ہو چکی تھی۔
وہ بھونچکا رہ گیا۔ سردی کی شدت کے لحاظ سے بچی کے کپڑے انتہائی غیر موزوں
تھے۔ وہ ایک سیاح تھا۔ ملکوں ملکوں گھومنا اور قدرت کے حسن کو قریب سے
دیکھنا اس کا کام تھا۔ آج بھی وہ اسی مقصد کے تحت کاغان ناران کی وادیوں سے
ہوتے ہوئے مری کے مسحورکن نظاروں کو آنکھوں کے ذریعے دل میں اتار رہا تھا۔
’’بھائی! مجھے یہ کھلونے بیچ کر گھر جانا ہے۔ شام ہو رہی ہے۔ اپنے بچوں کے
لیے لے لو، چلو 25 میں لے لو۔ اتنا سستا کہیں سے بھی نہیں ملے گا۔‘‘ بچی
بولتی چلے جا رہی تھی۔ وہ حیرت کا بت بنے، اس عجیب و غریب منظر کے سحر میں
جکڑا ہوا تھا۔ اس دنیا کے جبر کی داستان اس کے چہرے پر رقم تھی۔ بھائی! بچی
نے جھنجوڑا تو وہ چونک اٹھا۔ ’’بچوں کے لیے کھلونے لے لو، میں دعا دونگی۔‘‘
وہ پر امید ہو کر نہایت بھولپن سے بولی۔
’’کیا دعا دو گی؟‘‘ سیاح کا لہجہ تجسس اور تحیر سے پر تھا۔ اﷲ آپ کی عمر
دراز کرے۔ ’’واہ بھئی واہ! تم تو کافی سمجھدار ہو۔‘‘ اس نے نوٹ تھماتے ہوئے
گفت شنید جاری رکھی۔ ’’گھر کدھر ہے تمہارا؟‘‘ ڈھلان کے اس پار۔ بچی نے
اشارہ کرتے ہوئے مختصر سا جواب دیا۔ ’’او ہو! اتنی دور کیسے جاؤ گی؟‘‘ اب
اس کا انداز تھوڑا فکر مندانہ تھا۔’’شام ہونے سے پہلے یہ تمام کھلونے بیچ
کر اپنی سہیلیوں کے ساتھ جاؤ گی۔ اگر برف باری ہو گئی تو پھر تو بہت مشکل
ہو جائے گی۔ موسم بھی خراب ہے۔ اچھا ایسا کرو تم سارے کھلونے مجھے بیچ دو۔‘‘
اس نے مسئلے کا حل پیش کیا۔ ’’کیا واقعی؟‘‘ وہ بے یقینی کے انداز میں بولی۔
’’بھائی! آپ تو بہت اچھے ہیں۔ میری امی کہتی ہیں کہ امیروں میں احساس نہیں
ہوتا۔ آج میں ان کو بتاؤں گی کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔‘‘ وہ کسی ترنگ میں
بولی۔
’’وہ ایسا کیوں کہتی ہیں؟‘‘ سیاح کی نظروں میں تحیر اور انداز متجسس تھا۔
’’وہ کہتی ہیں کہ مالدار لوگ سفید پوش طبقہ کی مالی امداد سے تعاون نہیں
کرتے۔ مستحق لوگوں کو زکوٰۃ دینے کے بجائے اپنا پیسہ سود اور رشوتوں کی نذر
کر دیتے ہیں۔ بے بس ہو کر ہمارے ماں باپ پڑھائی ترک کروا کر ہمیں کمانے کے
لیے لگاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کریں تو ہمارے گھر کا چولا جلنا بند ہو جائے گا۔‘‘
وہ اتنی یاسیت سے بولی کہ سیاح کو اپنا وجود کٹتا محسوس ہوا اور ساتھ ہی
ساتھ بچی کی آنکھوں سے شفاف نیر بہتے ہوئے رخسار پر جمے گرد کی وجہ سے
مٹیالے ہو گئے، جسے اس نے اپنی چادر کے پلو سے پونچھ لیا۔ کھلونے اس نے
وصول کر لیے تھے اور نقدی بھی ادا کر چکا تھا۔ بچی کے لبوں پر چپ کی مہر
تھی لیکن آنکھیں شکریہ بول رہی تھی۔ اس نے یوں اچھلتے کودتے اپنی راہ پکڑی،
جیسے اس کے ناتواں کندھوں سے بہت بڑا بوجھ سرک گیا ہو۔
بچی تو چلی گئی مگر جاتے جاتے سیاح کو مبہوت کر گئی۔ اس کے کانوں میں اس کے
الفاظ ابھی تک گونج رہے تھے۔ وہ ان باتوں کی نفی بھی نہیں کر سکتا تھا
کیونکہ ہمارے ملک میں واقعی زکوٰۃ کی جگہ سود نے لے لی ہے۔ رشوت پروان چڑھ
رہی ہے۔ وہ اپنے اردگرد سے بے نیاز ہو کر سوچ رہا تھا اور سوچتے ہی چلا جا
رہا تھا۔ موسم کافی خوشگوار تھا۔ یخ بستہ ہوائیں ہڈیوں میں گھستی چلی جا
رہی تھیں۔ سیاحوں کا ایک جم غفیر منظر کشی کرنے میں مصروف تھا۔ گروپ کی
صورت میں آنے والے سیاح اپنی چہم گوئیوں میں مصروف تھے۔ کانوں سے ٹکراتی
مختلف چیزیں بیچتے یہاں کے مقامی بچوں کی آوازیں ہجوم کے شوروغل میں مکمل
طور پر دب چکی تھیں۔
|