جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی توکوئی بات نہیں ( فیض)
دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اقوام عالم نے آزادی اپنی جانوں کی اور
اپنے پورے پورے خاندان کے سر کٹا کر جائدادیں لوٹا کر یہاں تک کے مکار
دشمنوں سے اپنے شیر خوار بچوں تک کی قربانی دیکر آزادی حاصل کی ہے لمبی
لمبی تحریکوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ بچے
یتیم اور خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ مگر آخر کار کامیابی حق کو ہی حاصل ہوئی
ہے۔ اسی طرح
کی تحریک آزادی شمالی کیلئے لبریشن فرنٹ قائم کرکے 1954ءسے 1962ءتک چلائی۔
اس دوران ان پر بے تحاشا مظالم ڈھائے گئے۔ فرانسیسی فوج تحریک آزادی کے
سرگرم افراد کو پکڑ پکڑ کر جنگلوں میں درختوں کیساتھ اسطرح باندھتی تھی کہ
انکی ناف کے اوپر جنگلوں میں پائے جانے والے لمبے نوک دار چوہے باندھ کر
چھوڑ دیتے تھے، جو ناف کو کاٹ کر پیٹ کو اندر سے کھا جاتے تھے۔ اور یوں
ہزاروں آزادی پسندوں کو ہلاک کرتے رہے۔ مگر پھر بھی وہ تحریک آزادی کو دبا
نہ سکے۔ جیسے جیسے فرانسیسی فوج کے مظالم بڑھتے گئے، تحریک آزادی میں جان
پیدا ہوتی رہی اور آخرکار فرانسیسی راج کا خاتمہ کر دیا گیا۔دوسری جنگ عظیم
میں جاپان کے دو بہادر جوانوں نے امریکی بحری بیڑے کی چمنی میں چھلانگ لگا
کر پورے بیڑے کو تباہ کر دیا تھا۔ ایسی کئی ایک مثالوں سے تاریخ بھری پڑی
ہے۔ مگر آج ہم ایک ایسے بہادر سپوت کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جو نہائت نڈر
بہادر شخصیت شیر کا جگر رکھنے والا تھا جیسا کے مادر ہند ( ہندوستان )کی
آزادی کسی ایک فرقہ یا قوم کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ 1757 تا 1947 ایک لمبی
صبر آزما جنگ اور بے شمار جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا صلہ ہے۔ جس میں بلا
لحاظ قوم و ملت ہندو، مسلم، سکھ اورعیسائی نے کندھے سے کندھے ملا کر حصہ
لیا تھا۔ قومی ایکتا اور آپسی بھائی چارہ سے خوفزدہ ہوکر برٹش نے برادر وطن
کے اندر تفریق پیدا کرنے کے لئے چانکیہ کو بھی مات دے دی ہے۔ انگریزوں نے
روایتی نظریہ پھوٹ ڈالو اور راج کرو سے فرقہ پرستی کا ایسا بیج بویا جو ایک
تناور درخت بن چکا ہے جس نے ملک کے ہر شعبہ پر اپنی مضبوط گرفت کرلی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تاریخی حقائق کو بھی فرقہ پرستی کے عینک سے دیکھا جاتا ہے
چنانچہ اسی ذہنیت کا ثمر ہے کہ وہ مجاہدین آزادی جنھوں نے تنہا تنہا برٹش
سے سینہ سپر ہوکرانگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا، لیکن ان کے
ناموں یا کارنامے سے عام شہری نابلند ہیں لیکن بعض شخصیات کی جنگ آزادی کی
آرٹ گیلری میں ایسی تصویریں آویزاں ہیں جن میں کمال مصور شیر بھی ناتواں
کمزور شخص کے ہاتھوں پچھڑتے ہوئے دکھائی دیتا ہے، تاہم اس مذموم عمل سے
تاریخی حقائق نہیں بدل سکتے ہیں۔ جب بھی جنگ آزادی کا تذکرہ ہوگا ایسی
شخصیات کا نام بھی قلم کی نوک کے نیچے ضرور آئے گا جن کو نظر انداز کرنے کی
پوری طرح کوشش کی گئی۔
ایسا ہی ایک مرد مجاہد ہے شیر علی خاں آفریدی نورانی جس نے برٹش انڈیا کے
چوتھے وائسرائے کا سبزی کاٹنے والی چھری سے شکار کرکے برطانوی ایوانوں میں
ہلچل مچا دی تھی لیکن اس کے اس عظیم کارنامے پر تاریخ ہند کے صفحات خاموش
ہیں۔ شیرعلی نے تختہِ دارپر کھڑے ہوکر انگریزی حکومت کو جس انداز میں
للکارا ان کی شجاعت و دلیری اور فداکاری کا جذبہ اپنی تمام حدود پار کرتا
نظر آتا ہے۔”مجھے جلد از جلد پھانسی دے دو کیوں کہ میری موت سے ایک ایسا
آتش فشاں پھوٹے گا جو برطانوی سامراج کو جلا کر راکھ کر دے گا اور میرے خون
کا ایک ایک قطرہ مجھ جیسے کئی شیر علیؔ خاں کو جنم دے گا۔“
شیر علی خاں کی شخصیت کے بارے میں حد درجہ ورق گردانی کے بعد زیادہ معلومات
فراہم نہیں ہوسکیں، کیونکہ انگریزی حکام نے اس بات کا عزم کر رکھا تھا کہ
اس سرفروشِ وطن کی قربانی کو جدوجہد آزادی ہند میں کسی بھی قیمت پر درج
نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ایک مشہور تاریخ دان سر ولیم ولسن ہنٹر نے شیرعلی
کے بارے میں ان جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اس (شیر علی) کا اس کے گاؤں اور نہ
ہی اس کی برادری کا نام میری کتاب میں جگہ پائے گا۔“
اس عظیم مجاہد آزادی کی بے لوث قربانی کا تذکرہ ماونٹ ہوپ ٹاون کے ایک پتھر
پر اس طرح کندہ ہے :”یہ وہی جگہ ہے جہاں 8 فروری 1872 کو وائسرائے لارڈ میؤ
Lord Mayo ایک سزا یافتہ قیدی شیرعلی خاں کے حملہ کا شکار ہوئے اور اس حملہ
میں ان کا انتقال ہوگیا۔ شیر علی خاں کو 11 مارچ 1972 کو آئر لینڈ میں
پھانسی د ی گئی۔“
شیر علی کا آبائی وطن تیراہ جمرود (ضلع پیشاور) تھا۔ وہ کمشنر پشاور کے
سوار اردلیوں میں بھرتی ہوا۔ اس کے خاندان کی دو شاخوں میں مدت سے شدید
دشمنی چلی آرہی تھی۔ ایک مرتبہ اسے خبر ملی کہ دشمنوں میں سے ایک پشاور آیا
ہوا ہے۔ چنانچہ وہ اٹھا اور پشاور کے ایک باغ میں اس نے دشمن کو قتل کر دیا۔
اس پر قتل کا مقدمہ قائم ہوا اور 2 اپریل 1876 کو پھانسی کا حکم سنایا گیا،
لیکن چونکہ اس کا عام چلن اچھا تھا۔ جنگ امبیلہ میں بھی شریک رہا تھا اور
انگریزوں کی خدمات انجام دی تھیں لہذا ”سزائے موت کالا پانی میں بدل دی گئی
اور اسے جزائرانڈمان نکوبار قید خانہ بھیج دیا گیا۔ جب شیر علیؔ خاں نے
عظیم آباد کے نڈر رہنما پیر علی اور نارمن (چیف جسٹس کلکتہ ہائی کورٹ) کے
قاتل عبداللہ پنجابی کو تختہ دار پر چڑھانے کی خبرسنی تو ان کے دل میں بھی
حب الوطنی کا آتش فشاں پھوٹ پڑا اور مادر وطن کی خاطر کچھ کر گزرنے کی
خواہش بیدار ہوئی تو انہوں نے اپنی اس آرزو کی تکمیل کے لئے کسی ’یورپی
اعلیٰ عہدیدار کو قتل کرنے کا ‘مصمم ارادہ کر لیا جو وائسرائے کے قتل کی
شکل میں منظر عام پر آیا۔ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے شیر علی
خاں نے تین سال تک اپنے آپ کو ’نہایت معصوم، شریف، و جیہہ اور منکسر المزاج
شخصیت کا مالک ثابت کرنے کی غرض سے ”تین سال تک روزے رکھے، تنخواہ
اورمزدوری سے جوکچھ بچتا، مہینے دومہینے کے بعد اس کا کھانا پکا کر مسکینوں
میں تقسیم کردیتا، جس کی وجہ سے شیر علی خاں کو ٹکٹ چھٹّی قیدی کا درجہ عطا
کردیا گیا اور جیل حکام نے ان کو بارک میں حجامت کا کام کرنے کی اجازت دے
دی، جس سے انہیں بنا روک ٹوک تمام جزیروں میں آمدورفت کی سہولت حاصل ہوگئی۔
1869 میں جب لارڈمایو گورنر جنرل اور وائسراے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں
نے”میجر جنرل سر ڈونالڈ اسٹوارٹ۔ Major General Sir Donald Stewart کو ماہ
اکتوبر 1781 انڈومان کے چیف کمشنر“ اور سیلولر جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر
فائزکیا۔ اس نے صرف چھ ماہ کی قلیل مدّت میں ہی قیدیوں کو ایسی نازیبا،
عبرت ناک اور دل سوز اذیتیں دیں کہ جن کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اسٹوارٹ نے
اپنے انتظامات کے معائنہ کرنے کے لئے لارڈمیؤ سے متعدد مرتبہ مخلصانہ
درخواست کی تو وائسرائے نے ان کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے 24 جنوری 1872 میں
کلکتہ سے برما ہوتے ہوئے 8 فروری صبح 8 بجے پورٹ بلیرپر اترے۔ چیف کمشنر نے
ان کی حفاظت کے پیش نظر کوئی کسر نہ اٹھارکھی تھی، پورے علاقے کو چھاؤنی
میں تبدیل کرتے ہوئے اتنے سخت حفاظتی اقدام کیے کہ کوئی پرندہ بھی پر نہ
مار سکے۔
ادھر وائسرائے کا پرتپاک اور والہانہ استقبال 12 توپوں کی سلامی سے کیا جا
رہا تھا۔ ادھر شیرعلی خاں کی رگوں میں آزادی کا طوفان موجیں مار ہا تھا۔ وہ
تو اسی دن کا بے صبری سے منتظر تھا، اس نے سبزی کاٹنے والی چھری کو پتھر پر
مزید تیز کیا اور اپنے شکار کا ایک بھوکے شیر کی مانند انتظار کرنے لگا۔
وائسرائے کا دورہ تقریباً گیارہ بجے شروع ہوا۔ پورے حفاظتی لاؤ لشکر کے
ساتھ انہوں نے جزیروں کے اہم مقامات کا جائزہ لیا۔ آخر میں ہوپ ٹاؤن کے
ماؤنٹ ہریٹ دیکھنے پہنچے۔ وہاں پہنچنے سے قبل ان کی حفاظت کے لئے اور مزید
حفاظتی دستہ روانہ کر دیا گیا۔ انہوں نے اس حسین وادی میں تقریباً پندرہ
منٹ گزارے، غروب آفتاب کی رنگیں شفق اور ساحل سے ٹکراتی ہوئی موجوں کی دلکش
آمیزش نے ان کو فریفتہ کر دیا لیکن وہ اس بات سے بے بہرہ تھے کہ یہ دلفریب
شام ان کی زندگی کی آخری شب میں تبدیل ہوجائے گی۔ لگ بھگ شام 7بجے وائسرائے
واپسی کے لئے پہاڑی سے اترے، آفتاب اپنا سفر تمام کرچکا تھا اور فضا تاریکی
کی بسیط چادر اوڑھ چکی تھی اور
شیر علی کے اس عظیم کارنامے کو کالے پانی کی سزا کاٹ رہے ”امبالہ سازش کیس“
کے محرک ’مولانا جعفر احمد تھانیسری‘‘ نے اس طرح قلم بند کیا ہے: ’’جب
اندھیرا ہوگیا تو (وائسرا ئے) مشعلوں کی روشنی میں نیچے اترنے لگے، اس وقت
ایک مسلح جماعت پولیس لارڈ صاحب کے چاروں طرف تھی اور چیف کمشنر صاحب اور
پرائیویٹ سکریٹری لارڈ صاحب کے دا ئیں بائیں بدن سے بدن ملائے ہوئے چلتے
تھے اور دوسرے بیسیوں افسران کے پیچھے پیچھے تھے۔ اترائی میں بھی لارڈ صاحب
بخیریت تمام ہوپ ٹاون کے گھاٹ تک پہنچ گئے۔ جب گھاٹ پر ایک گاڑی کے نزدیک
جو وہاں اس دن کھڑی تھی پہنچے۔ چیف کمشنر صاحب لارڈ صاحب کی اجازت لے کر
کسی ضرورت کے واسطے پیچھے کو ہٹ گئے اور لارڈ صاحب مع پرائیویٹ سکریٹری
آہستہ آہستہ چلے جاتے تھے اس وقت اس گاڑی کی آڑ میں ایک آدمی نے مثل شیر کے
کود کر لارڈ کو دو زخم کاری ایک چھری سے ایسے لگائے کہ لڑکھڑا کر لارڈ صاحب
سمندر میں جاپڑے اس گڑ بڑ میں مشعلیں بھی سب گل ہو گئیں مگرایک دوسرے قیدی
نے جرأت کرکے قاتل کو پکڑ لیا ورنہ وہ اور دوچار کو مارتا۔ لارڈ کو سمندر
سے نکالا اور اسی گاڑی پر لٹایا وہ توایک دو بات کرکے راہی ملک بقا ہوئے۔
خارجہ سیکریڑی کپتان ایچسن (Captain Atichson) نے شیر علی سے دریافت کیا کہ
اس نے اتنا بڑا کام کس کے اشارے پر کیا اور اس سازش میں کون کون افراد اس
کے معاون تھے۔ جذبہ آزادی کے نشہ سے سرشار اس جری مجاہد نے شیر کی طرح
گرجتے ہوئے کہا : ”میں نے خدا کے حکم سے کیا ہے، خدا میرا شریک ہے۔“
وائسرائے کی لاش کو ان کے جنگی جہاز گلاسکو پر ہی سر کاری اعزاز دیا گیا
اورمقدمہ کی سماعت میجر جنرل اسٹورٹ کی سریع الفیصل عدالت عالیہ (فاسٹ ٹریک
کورٹ) نے اگلے روز اسی جنگی جہاز پر شروع کی اور اسی دن سزائے موت کی سزا
سنا دی گئی۔ مشہور مورخ ایم۔ایف داس جنہوں نے انڈمان نیکوبار کی تاریخ لکھی
ہے ان کے مطابق شیر علی نے قبول کیا تھا کہ وہ لمبے عرصے سے کسی بڑے انگریز
حاکم کے قتل کے فراق میں تھے۔
شیرعلی خان مجاہد ککے زئی
نے 1872ء کےدوران کالا پانی میں چهری کے وارکرکے وائس رائے ہند گورنر جنرل
لارڈ میو (جس کے نام پر لاہور کا میو ہسپتال مشہور ہے) گستاخ کو قتل کرکے
تاج برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس عظیم مسلمان پختون ہیرو کو 11مارچ
1872ء کو سر عام پهانسی پر لٹکا دیا گیا۔
غازی شیر علی خان مجاہد ککے زئی کو پھانسی کی سزا سناتے ہوئے جج نے کہا تھا
کہ ہم ایسا کام کریں گے دنیا تجھے بھول جائے گی لیکن لارڈ میو کو نہیں
بھولے گی اس لیے اس کے نام کا ہسپتال بنا دیا.
اللہ تعالیٰ آپکے درجات بلند فرمائے ھم غازیوں کو بھی دنیابھولے گے نہیں
آپکی یاد میں پروگرام ھونے چاھیے
لیکن ضِغیم ہند شیر علی خاں تختہ دار پر لٹکتے وقت بالکل ہراساں نہ تھا
بلکہ بہ آواز بلند کہا۔ مسلمان بھائیو میں نے تمہارے دشمن کو مار ڈالا اب
تم شاہد رہو کہ میں مسلمان ہوں اور کلمہ پڑھا، دو دفعہ کلمہ ہوشیاری سے
پڑھا تیسری بار پھانسی کی رسی سے گلا گھٹ کر پورا کلمہ ادا نہ ہوا۔ شیرعلی
خاں کے جسد خاکی کو ڈنڈاس پوائنٹ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ جنگ آزادی کے گم
نام مجاہد کی طرح اس کی آخری آرام گاہ بھی بے نام ونشاں رہی۔
|