آٹھ بہنوں میں سے تیسرے نمبر کی لڑکی بڑی بہو کی حیثیت
سے بیاہ کر ایک دور دراز کے علاقے میں واقع اپنی سسرال پہنچی ۔ وہاں دیگر
افراد کے ساتھ اس کے دو دیور بھی تھے جو پڑھائی اور کام دونوں سے فارغ تھے
اور باپ کی ڈھیل اور بڑے بھائی کی باہر کی کمائی پر عیش کرتے تھے ۔ اب لڑکی
نے سسرال والوں کے دل جیتنے اور ان کی نظروں میں اپنا مقام بنانے کے لیے
اپنی جان لڑا دی ، اپنے ایک بنیادی حق سے محروم ہونے کے باوجود ۔ شوہر
پردیس میں اپنا خون پسینہ ایک کر رہا تھا اور یہ یہاں سسرال والوں کے دل
میں گھر کرنے کے لیے اپنے دن رات ایک کیے ہوئے تھی ۔ پھر اس کی یہ قربانیاں
رائیگاں نہیں گئیں دو چار برسوں بعد ہی وہ اس لائق ہو گئی کہ اس نے اپنے
ساس سسر سے اپنے دونوں دیوروں کےلیے اپنی دو چھوٹی بہنوں کے رشتے کی بات کی
۔ انہیں بھلا اور کیا چاہیئے تھا وہ تو ویسے ہی اس پر سو جان سے فدا تھے
اور ان کا یہی خیال تھا کہ اس کی بہنیں بھی اسی کی طرح محنتی اور سگھڑ ہوں
گی ۔ پھر کہیں اور ٹانگ پھنسانے اور رسک لینے سے اچھا ہے کہ باقی دونوں
بیٹوں کا بھی اسی گھر میں رشتہ طے کر دیا جائے وہ راضی ہو گئے ۔
پھر یہ لڑکی اپنی دونوں بہنوں کو بہت دھوم دھام کے ساتھ اپنی دیورانیاں
بنا کر لے آئی اور مہینہ بھر تک انہیں پلنگ سے پیر بھی نیچے زمین پر نہ
دھرنے دیا اگرچہ خود اس کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ۔ پھر کھیر پکائی کی رسم
انجام پائی دعوتیں ضافتیں بھی اپنے اختتام کو پہنچیں مگر نو بیاہتا جوڑوں
کا ہنی مون بدستور جاری رہا ۔ دن چڑھے تک اور چھٹی والے روز بارہ بارہ بجے
تک ان کے کمروں کے دروازے کھلتے نہیں تھے ۔ یہ ناشتہ بنا کر دوپہر کے کھانے
کی تیاری میں مصروف ہوتی تھی تو وہ کمروں سے برامد ہوتے تھے اور غسلخانے
میں غروب ہو جاتے تھے ۔ ساس کا خیال تھا کہ یہ بہنوں بہنوں کا آپس کا
معاملہ ہے وہ خود ہی مینیج کر لیں گی ۔ مگر بڑی بہن اس معاملے میں بالکل ہی
مٹی کا مادھو نکلی چھوٹی بہنوں کو گھر کے نظام کا حصہ بنانے اور انہیں عملی
زندگی میں ساتھ لے کر چلنے کی بجائے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا پیچھے سے
بھی کوئی تربیت نہیں ہوئی تھی یہاں بڑی بہن ان کی اصلاح کرنے کی بجائے ان
کی ڈھال بن گئی ۔
بالکل اسی طرح اس کے دونوں دیور بھی گھر کی ذمہ داریوں میں حصہ ڈالنے اور
بڑے بھائی کا بوجھ بانٹنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے تھے اور ٹھاٹ باٹ ان کے
پورے تھے ۔ اور باپ حسب معمول اس ساری صورتحال سے انجان بنا ہؤا تھا بڑا
بیٹا اور بہو جیسے کوئی سوتیلے تھے اور سارے فرض انہی کے تھے باقی لوگ صرف
مفت کی روٹیاں اور چارپائی توڑنے کے لیے تھے ۔ حالات میں ایک عجیب ابتری
پیدا ہو گئی یہ لوگ سدھرنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔ لڑکی صورتحال کو اپنے
ماں باپ کے علم میں لے آئی جن کے ترغیب دلانے اور اکسانے پر اس نے سسرال
میں اپنی جان ماری کی تھی اپنی دو بہنوں کو وہاں کھپانے کے لیے ۔ پھر ماں
باپ نے انہیں خاصی لعن طعن کی تو بس مارے باندھے جیسے تیسے گزارا ہونے لگا
مگر ماحول میں خاصا تناؤ رہنے لگا ۔ پھر بڑا بھائی جو چھوٹے بھائیوں کی
شادی کے بعد واپس لوٹ گیا تھا چھٹی پر گھر آیا تو ان کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر
دنگ رہ گیا ۔ وہ اب بال بچے دار ہو چکے تھے کچھ کام کاج سے بھی لگ چکے تھے
مگر گھر کی ذمہ داریوں میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا بڑے بھائی بھابھی کو
قربانی کا بکرا بنا رکھا تھا ۔ پھر ماں باپ کی صریح غفلت اور خود غرضی نے
بھی اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ اس نے اپنی بیوی کا کچن اور
پورشن علیحدہ کر دینے کا مطالبہ کر دیا ماں باپ نے اسے اپنا بوریا بستر
سمیٹ کر گھر سے نکل جانے کا حکم دے دیا ۔ وہ گھر جس پر اس نے اپنی جوانی کے
سارے سنہرے قیمتی سال قربان کر دیئے تھے خود اپنے لیے کچھ کیا ہی نہیں تھا
اور اس دوران اسے ایک ہلکا ہارٹ اٹیک بھی آ چکا تھا ۔ ہاتھ پلے کچھ تھا ہی
نہیں جو کماتا تھا والدین کے ہاتھ میں دے دیتا تھا بیوی کو بھی ان کا دست
نگر بنا رکھا تھا لہٰذا اس کے ہاتھ بھی کوئی جمع پونجی نہیں تھی ۔ خیر وقت
ابھی ہاتھ سے نکلا نہیں تھا اور وقت سے ہی ان دونوں کی آنکھیں بھی کھل گئی
تھیں انہوں نے مزید بیوقوف نہ بننے کا فیصلہ کر لیا اور زندگی کو نئے سرے
سے شروع کرنے کے لیے کمر باندھ لی ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام اتنا آسان بھی
نہ تھا زندگی کے برسہا برس محنت مشقت کرتے ہوئے گزار دینے کے بعد خالی ہاتھ
پھر زیرو پوائنٹ سے اسٹارٹ لینا ۔ خون کے رشتے خون چوس لینے کے بعد جب آپ
کی کمر میں خنجر بھی گھونپ دیں تو سنبھلنا آسان نہیں ہوتا ۔ پاکستان کے
متوسط و نیم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوے فیصد گھرانوں کی یہی کہانی
ہے کہ جب کوئی نوجوان زیادہ تر گھر کا بڑا بیٹا اپنے حالات کو سُدھارنے کے
لیے دیار غیر کو سِدھارتا ہے تو انصاف اور خدا کا خوف اس بچے کے ساتھ ہی
رخصت ہو جاتا ہے ۔
|