بدلتے حالات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں
کہ اب پاکستان میںووٹنگ کے نظام میں تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے،ایک ذرائع کے
مطابق اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں نے غور کرنا شروع کردیا ہے ۔ صدر پاکستان
اور وزیر اعظم بھی اس معاملہ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کررہے ہیں ،
چیئرمین سینٹ و اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی کے ساتھ ساتھ مختلف ایجنسیوں
نے اس سلسلے میں مشاورت کرنی شروع کردی ہیں جبکہ آرمی چیف اور چیف جسٹس نے
پاکستان کی سیاسی و معاشی بد حالی کے سبب الیکشن کے نظام کو فرسودہ اور
ناکارہ تسلیم کرلیا ہے۔۔۔۔۔۔ ۷۱ جنوری اور ۰۳ جنوری کو نئے سسٹم کا ایک
تعارف اپنے کالم میں پیش کیا تھا جسے عوام الناس کے ساتھ حکومتی سطح پر
پزیرائی حاصل ہوئی ، آج میں اپنے کالم میں مزید اس سلسلے میں کچھ تحریر
کررہا ہوں جو مملکت پاکستان اور عوام الناس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں
کیلئے بھی مفید ثابت ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔متحدہ قومی موومنٹ کے قائد تحریک جناب
الطاف حسین نے ہمیشہ عوام الناس کی فلاح و بہبود کی بات کی ہے اور خود
انھوں نے موروثی سیاست کو کلنک قرار دیا ہے ،آپ کے مطابق پاکستان میں
الیکشن کا ایسا نظام مروج ہونا چاہئے جس میں ووٹر ز بلا کسی خوف و خطر اور
دباﺅ کے آزادانہ حق رائے دہی پیش کرسکے ، آپ نے ہمیشہ مظلوموں کی دادرسی کے
سلسلے میں آواز اٹھائی ، آپ کا کہنا ہے کہ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے آئین
میں ہر پاکستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ الیکشن میں کھڑا ہوکر کامیابی کے
ساتھ ایوانوں میں اپنی خدمات پیش کرسکے ، آپ موروثی سیاست کے سخت خلاف ہیں
، آپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ آپ کی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ وہ واحد
جماعت ہے جس میں اٹھانوے فیصد طبقے سے تعلق رکھنے والے مڈل کلاس شامل ہیں
جو اٹھانوے فیصد کی ترجمانی بہتر انداز میں کرتے ہیں ، آپ کے مطابق نئی نسل
کو پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے الیکشن میں بھرپور حصہ لینا چاہئے
تاکہ نئے اور جدید ذہنوں کی قابلیت سے پاکستان کی ترقی میں مثبت انداز پیدا
ہو ، آپ نے متحدہ قومی موومنٹ کی سابقہ ضلعی حکومت کی مثال بھی پیش کی ہے
جس میں مصطفی کمال اور دیگر متحدہ کے ناظموں نے اپنی شب و روز محنت اور
جدید خطوط پر کام کرکے ثابت کردیا کہ نئی مڈل کلاس کی نسل بہتر انداز میں
حکومتی پروجیکٹ کو چلا سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔ تحریک انصاف کے بانی جناب عمران خان
نے پاکستان کے موجودہ الیکشن نظام کی مکمل عدم تحفظ کا اظہار کیا ہے ان کے
مطابق جاگیردار، وڈیرہ، خان اور دیگر با اثر و رسوخ افرادوں نے ایوانوں میں
اپنے خاندان کی مہر ثبت کردی ہے ، عمران خان بھی وسیع نظر رکھتے ہوئے
پاکستان میں الیکشن کے نظام کو جدید اور بہتر انداز میں دیکھنا چاہتے ہیں ،
آپ کے مطابق پاکستان میں الیکشن کے نظام کو کمپیوٹرائز نظام میں منتقل کرکے
جعل سازی کو مکمل روک دیا جائے تاکہ با صلاحیت اور پڑھے لکھے افراد ایوانوں
میں پہنچ کر ذاتیات سے نکل کر پاکستان کی بہترمسقبل کیلئے قانون بنائیں اور
ایسے اقدامات پر عمل پیرا ہوں جن سے پاکستان کا وقار بلند ہو،آپ کے مطابق
سیاستدانوں کا انتخاب کا طریقہ مناسب نہیں ہے ، اسی وجہ سے عمران خان اس
سیاسی نظام کے مخالف ہیں۔۔۔ اے ایم ایل کے چیئرمین جناب شیخ رشید صاحب کا
موقف بھی کچھ اسی طرح سے رہا ہے کہ آپ کے مطابق پاکستان میں سیاسی نظام اور
انتخابی مراحل کو قطعی درست نہیں ہیں ، آپ نے بھی اس بات کا خدشہ ظاہر کیا
ہے کہ اگر یہی فرسودہ نظام جاری رہا تو پاکستان کی ترقی ممکن نہیں ہوسکے گی
کیونکہ الیکشن کے اس فرسودہ نظام میں صرف اور صرف امراءو با اختیار افراد
کا قبضہ ہے وہ کسی طور برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کے پاس ملازم یا غلام ان
کے برابر بیٹھ سکے اسی لیئے ایسے سیاستدانوں نے اس نظام کو قائم کیئے رکھا
ہے تا کہ خاندان در خاندان وزارتیں چلتی چلی آئیں۔ نواز شریف اور شہباز
شریف آپ دونوں اپنی سیاسی جماعت کو اور اپنی ذات کو عوام الناس کی خدمت کو
لازم و ملزوم سمجھتے ہیں آپ لوگوں کے مطابق عوام الناس کی خدمت کیلئے کسی
بھی ہاری ، مزدور، طالبعلم ، تاجر گو کہ ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ
الیکشن میں کھڑا ہو اور کامیابی کے بعد بہتر انداز میں خدمت پیش کرسکے ،آپ
دونوں کی تقاریر میں انکساری و عاجزی کا عنصر پایا جاتا ہے۔۔ قاف لیگ کے
سربراہان بھی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ وہ الیکشن کے نظام میں تبدیلی چاہتے
ہیں ان کے مطابق ایسا نظام مروج ہونا چاہئے جس میں بوگس، جعلی ووٹ کی مکمل
بندش ہو تاکہ اصل منتخب نمائندہ کامیاب ہو۔۔۔۔ ۔۔ قوم پرست جماعتوں کے
رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ ان کی قوم کے ساتھ مسلسل زیادتی و استحصال رہا ہے ان
کی تقاریر و منشور میں اپنی قوم کیلئے خدمات کے جذبات نظر آتے ہیں لیکن جب
حقیقت پر نظرجاتی ہے تو برعکس دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ ؟آخر وہ کون سے محرکات
ہیں جو انھیں ان کے دعوﺅں کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں !! الیکشن میں کامیابیوں
کی خاطر نت نئے نعرے و دعوے تو پیش کردیئے جاتے ہیں لیکن جیسے ہی عوام
الناس انھیں اپنے ووٹوں سے کامیاب ہمکنار کرتے ہیں دوسرے ہی لمحے یہ بھول
جاتے ہیں کہ وہ خدمت کیلئے منتخب ہوئے ہیں ، وزراتوں کے حصول میں وہ اپنے
تمام وعدے و دعوے مسخ کرکے صرف اور صرف اپنی ذات تک محدود رہ جاتے ہیں۔۔۔۔اس
سیاسی بد نظمی کو صحیح کرنے کیلئے ایک مسودہ (پلان)پیش کررہا ہوں گر اسے
حکومتی سطح پر کاربند کیا جائے تو یقیناً آنے والا الیکشن ۳۱۰۲ءحقیقی معنوں
میں شفاف کہلائے گا اور ایسے امیدوار منتخب ہونگے جن کا اصل حق ہے۔ اس
مسودہ (پلان) کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ جس میں کسی بھی قسم کی بد
دیانتی، بد نظمی، دھوکہ دہی، غلط عوامل کا قطعی دخل نہیں ہوسکتا۔۔۔ ۔۔۔۔۔
مسودہ (پلان)
الیکشن ۳۱۰۲ ،جدید کمپیوٹرائزووٹنگ نظام
۱۔خانہ شماری کے عمل کو نہایت احتیاط کے ساتھ مکمل کیا جائے جس میں شناختی
کارڈ سے مدد حاصل کرتے ہوئے اس کے ڈیٹا کو کنفرم کرنے کے بعد جمع کیا جائے
تاکہ ایک جگہ سے ڈیٹا حاصل ہونے والا گھرانہ دوسری جگہ تحریر کرنے پر منسوخ
ہوجائے۔ اس طرح جعلی ووٹوں کی پکڑ ممکن بنائی جاسکے گی اور شمار کنند گان
کا عمل صحیح ہوگا۔
۲۔شمارکنندگان کے ڈیٹا جمع کرنی والی ٹیم کو اسکینگ کمپیوٹر فراہم کیئے
جائیں تاکہ نادرا کے اسکینک سے جو میچ ہو جائے اُس گھرانے کو صحیح قرار دیا
جائے۔تا کہ ووٹنگ کے وقت نادرا سے جاری کردہ کارڈ کی تحقیق پر دوبارہ میچنک
ہوسکے۔
۳۔نادرا سے منسلک ڈیٹا سے موازنہ کیا جائے ، درست ہونے پر اسے کمپیوٹر میں
ووٹنگ لسٹ میں پھردرج کردیا جائے۔
۴۔ ووٹنگ لسٹوں کی تکمیل کے بعد ایک وقت دیا جائے جس میں ووٹر اپنے ووٹ کی
پہچان کرسکیں کہ ان کا ووٹ کس علاقے، حلقہ میں موجود ہے۔
۵۔ووٹنگ کے وقت پولنگ آفیسر کی میز پر پہلے سے تیار ڈیٹا کمپیوٹر موجود ہو
جس میں ووٹنگ لسٹ کے ساتھ نادرا کے جاری کردہ شناختی کارڈ کا ڈیٹا بشمول
اسکینگ شامل ہو تاکہ ووٹر کے آنے پر اس کے کارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد
اسکینگ کا عمل بھی دوہرایا جائے تاکہ اصل ووٹر ہی اپنے حق کو استعمال کرسکے۔
۶۔ووٹنگ کے وقت سب سے پہلے مرحلے میں ووٹر پولنگ آفیسر کے پاس جائے جہاں وہ
اپنے ووٹ کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کرائے ۔ڈیٹا کی جانچ مکمل ہونے کے بعد وہ
ووٹر اسسٹنٹ پریزائڈنگ آفیسر کے پاس جائیگا۔
۷۔اسسٹنٹ پریزائڈنگ آفیسر کی زمہداری میں شامل ہو کہ وہ ووٹرز کی اسکینگ
کرے اسکینگ کی درست میچنگ کے بعد فائنل بیلڈ کمپیوٹر (یاد رہے اب ووٹنگ کے
وقت بیلڈ پیپر کی جگہ بیلڈ کمپیوٹر استعمال ہوگا) کی طرف روانہ کردے جہاں
ووٹر اپنے منتخب امیدوار کو ووٹ دے سکے۔ لیکن اسسٹنٹ پریزائڈنگ آفیسرفائنل
بیلڈ کمپیوٹر پر بھیجنے سے پہلے ایک بار پھر ووٹر کو ووٹنگ کا طریقہ سمجھا
دے تاکہ ووٹر اپنے امیدوار کو صحیح طریقہ سے منتخب کرے۔
۸۔فائنل بیلڈ کمپیوٹر چاروں اطراف سے چھپا ہونا چاہئے ، تاکہ ووٹر آزادانہ
ووٹ ڈال سکے۔ اس کمپیوٹر سسٹم میںمتعلقہ حلقہ، علاقہ، یونٹ کے ساتھ
امیدواروں کی تصاویر،ان کے انتخابی نشان بھی موجود ہونگے جس پر ووٹر صرف
اور صرف کرسر کے ذریعے کلک کریگا ، کلک کرنے پر وہ اسے محفوظ یعنی save
کرکے باہر آجائےگا۔
۹۔ ووٹنگ کے اختتام تک یہی عمل جاری رہیگا پھر وقت کے اختتام پر پریزائڈنگ
آفیسر تمام اسٹاف بشمول چیف ایجنٹ کی موجودگی میں فائنل بیلڈ کمپیوٹرسے
پرنٹ آﺅٹ نکالے گا ، یاد رہے کہ اس سسٹم میں تمام منتخب امیدواروں کی تفصیل
بمعہ ووٹرز کی کلکنگ موجود ہے جس کی گنتی آٹو میٹک کلک کرنے پر ہوتی جارہی
ہوگی۔
۰۱۔فائنل بیلڈ کمپیوٹر سے حاصل ہونے والا پرنٹ ہی اصل نتیجہ قرار پائے گا
اور اس پرنٹ پر پریزائڈنگ آفیسر ،اسسٹنٹ پریزائڈنگ آفیسر اور پولنگ آفیسر
کے دستخط کیئے جائیں گے۔ ووٹنگ کے اختتام پر کمپیوٹرز متعلقہ الیکشن کمیشن
کے حوالے کردیئے جائیں گے۔ اس مسودہ(پلان) کو پائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے
ممکن ہے چیف جسٹس، الیکشن کمشنر، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکرز کو بڑی مزاحمت
کا سامنا کرنا پڑیگا کیونکہ اس مسودہ (پلان) سے بہت سے سیاستدانوں کی قلعی
اتر جائے گی ۔ درحقیقت مملکت پاکستان کو چند سیاستدانوں نے پاکستان کی
سیاست اور ایوانوں کو باپ دادا کی جاگیر بنالی ہے اور وہ اس نام میں کسی
اور کو آنے کی اجازت نہیں دیتے اسی لیئے پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا
نہیں ہو پاتا ، آپس کی چپکلش اور مخالفتوں کی بناءپر ترقیاتی امور مکمل
نہیں ہوپاتے اور پاکستان دنیا بھر میں بد نظمی کی بناءپر بد نام ہوتا رہا
ہے۔ موروثی سیاستدانوں نے پاکستان کی سیاست کواپنی میراث سمجھ لی ہے اور وہ
عوام الناس کی خدمت سے آزاد ہیں اور ایسے سیاستدان اُن سیاسی لیڈرانوں
کیلئے مشکل کا باعث بھی بنتے ہیں جو واقعی خالصتاً اس ملک و قوم کی خدمت
میں کرنا چاہتے ہیں اگر اس مسودہ(پلان) کو حکومت وقت عملی جامع پہنائے تو
کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا نہ ہو، اس سے عوام الناس
میں ووٹنگ کا جذبہ بیدار ہوگا اور وہ اُن لوگوں کو منتخب کریں گے جنہیں وہ
بہتر سمجھتے ہونگے۔ اس طرح پاکستان کی سیاسی، اقتصادی و معاشی حالات
میںبہتری سامنے آئیگی اور وطن عزیز پاکستان ایک بار پھر ترقی و کامرانی کی
جانب گامزن ہوجائیگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کون سی جماعتیں اس مسودہ
(پلان) کی مخالفت کرتی ہیں اور کون کون سی سیاسی جماعتیں اس کی حامی بھرتی
ہیں ، حقیقت تو یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جنہیں اپنے منشور اور اپنی خدمات
پر یقین ہے اور جو خالصتاً نیک نیتی سے عوام الناس کی خدمت کا جذبہ رکھتی
ہیں وہ اس مسودہ (پلان) کو ضرور تقویت پہنچائیں گی اور اس پر عمل پیرا کرنے
کیلئے حکومت اور سپریم کورٹ پر ضرور دباﺅ ڈالیں گی جبکہ اسے سیاستدان اور
سیاسی پارٹیاں جن کا مقصد صرف اور صرف لوٹ و کھسوٹ ہے وہ اس مسودہ (پلان)
سے ضرور خائف ہوجائیں گی اور ان کی کوشش ہوگی کہ اس مسودہ (پلان) پر اپنی
تحفظات ظاہر کرکے اسے عمل کرنے سے روکا جائے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کس کی
قلعی کھلتی ہے ۔ اللہ پاکستان اور اس قوم کا حامی و نظر ہو آمین۔۔۔ |