شیخ سعدی شیرازی ؒ ایک حکایت میں
تحریر کرتے ہیں کہ ابو الحسن کوشیار ایران کا مشہور ستارہ شناس تھا شیخ بو
علی سینا جیسے سرآمد روزگار بزرگ نے بھی اس کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا
تھا ۔ ایک دفعہ کوشیار کے پاس ایک ایسا طالبعلم آیا جو سخت خود پسند تھا اس
طالبعلم کو علم نجوم سے تھوڑی بہت واقفیت ضرور تھی لیکن اتنی نہیں کہ وہ
اپنے آپ کو افلاطون زمانہ سمجھنے لگے ۔ کوشیار اس کی خود پسندی اور تکبر کو
تاڑ گیا اور اس پر کوئی توجہ نہ دی نتیجہ یہ ہوا کہ مدتوں کوشیار کے حلقہ
درس میں شامل رہنے کے باوجود حقیقی علم و فن سے بے بہرہ رہا ۔ جب وہ وہاں
سے رخصت ہونے لگا تو استاد کوشیار نے کہا کہ ”تو نے اپنے بارے میں خیال کیا
کہ نہایت عقل مند ہے ، ذرا سوچ کہ جو برتن پہلے ہی بھرا ہوا ہو اس کو مزید
بھرنے کی گنجائش کہاں سے نکل سکتی ہے ۔ دعویٰ سے خالی ہو کر آ تاکہ کچھ
حاصل کر سکے تیرے دماغ میں خود پسندی سمائی ہوئی ہے اسی لئے محروم جا رہا
ہے “۔
قارئین! مسلم کانفرنس ایک تاریخ کا نام ہے جو آزادی کشمیر سے پہلے شروع
ہوئی اور آج 2011ءکے الیکشن کے موقع پر یہ ایک تاریخی موڑ پر کھڑی ہے ۔
مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کی قیادت میں اس تنظیم نے ”کشمیر بنے
گاپاکستان “ کا نعرہ دیا اور قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے اس بات کا اعلان
فرمایا کہ کشمیر میں مسلم کانفرنس ہی مسلم لیگ کی نمائندگی کر رہی ہے اور
یہ نمائندگی کا سلسلہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے تک جاری رہا اور جماعت کی
قیادت جہاندیدہ اور دانشور بزرگ سیاسی رہنماءسردار عبدالقیوم خان کے بعد ان
کے فرزند سردار عتیق احمد خان نے سنبھالی اور یہیں سے اختلافات کا عمل شروع
ہوا اور ایسا شروع ہوا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔ ماضی میں وفاق ،
اسٹیبلشمنٹ اور آرمی کی پسندید ہ ترین جماعت مسلم کانفرنس اس وقت ایک
سوالیہ نشان بن کر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز اور زیر بحث ہے ۔ مختلف ستارہ
شناس اور سیاسی ماہرین اس جماعت کے متعلق مختلف پیش گوئیاں کر رہے ہیں ،
کسی کا کہنا ہے کہ مسلم کانفرنس آزاد کشمیر کے ماضی کے ایک باب کا نام ہے
اور مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں اس جماعت کوئی مقام نہیں ہے ، کوئی یہ
دعویٰ کر رہا ہے کہ آنے والے انتخابات میں مسلم کانفرنس تین سے پانچ نشستوں
سے زیادہ نہیں جیت سکتی اور کوئی یہاں تک کہہ رہا ہے کہ سردار عتیق احمد
خان اپنی سیٹ بھی ہار سکتے ہیں ۔
قارئین! یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن مقام افسوس و عبرت ہے کہ سواداعظم کی
حیثیت رکھنے والی جماعت ایسی ٹوٹی اور بکھری ہے کہ سنبھلتے سنبھلتے اسے
کافی وقت لگے گا ۔ لیکن اس کے باوجود چند حقائق اور سیاسی پیش گوئیاں آج ہم
بھی آپ کے سامنے پیش کریں گے ۔
قارئین! بے شک سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان ، سابق وزیراعظم راجہ
فاروق حیدر ، سابق سپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر سمیت مسلم کانفرنس سے ماضی
میں وابستہ ایک بہت بڑی ٹیم مسلم لیگ ن کے نام سے سیاسی جماعت قائم کر چکے
ہیں اس کے باوجود مسلم کانفرنس آزاد کشمیر میں سیاسی تنظیم کے اعتبار سے سب
سے مضبوط ڈھانچہ رکھتی ہے تمام اضلاع ، شہروں ، قصبوں ، دیہات ، یونین
کونسلز سے لیکر ہر سطح پر مسلم کانفرنس کے تنظیمی ڈھانچے کو فوقیت حاصل ہے
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ 79سال عمر رکھنے والی یہ جماعت آزاد کشمیر کی تاریخ
کی سب سے قدیم سیاسی قوت ہے اس جماعت نے آزاد کشمیر و مقبوضہ کشمیر کی
تاریخ میں سب سے زیادہ سیاسی نام پیدا کیے جن میں رئیس الاحرار چوہدری غلام
عباس، فتح محمد کریلوی ، راجہ حیدر خان، غازی الہی بخش، قائد ملت سردار
محمد ابراہیم اور مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان شامل ہیں اور یہاں پر
بات بھی دلچسپی سے عاری نہ ہوگی کہ آزاد کشمیر میں 80فیصد سے زائد ترقیاتی
منصوبوں اور ان کی تختیوں پر مسلم کانفرنس سے تعلق رکھنے والے صدور اور
وزرائے اعظم کے نام درج ہیں ۔
قارئین ! مسلم کانفرنس تنظیمی ٹوٹ پھوٹ اپنی جگہ لیکن اس بات سے بھی کوئی
انکار نہیں کر سکتا کہ باوجود سنگین نوعیت کے الزامات کے سردار عتیق احمد
خان آج بھی پورے پاکستان اور دنیا بھر میں ایک نمایاں سیاسی مقام رکھتے ہیں
اور اگرچہ ان کی باتوں کو مذاق میں اڑایا جارہا ہے اورترقیاتی منصوبوں کے
حوالہ سے ان کے ویژن کو دیوانے کا خواب قرار دیا جاتا ہے لیکن اس میں کوئی
شک نہیں کہ سردار عتیق احمد خان سیاسی طوفانوں سے گزر کر ایک سخت جان لیڈر
کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں آزاد کشمیر کی موجودہ قانون ساز اسمبلی نے
چار وزیراعظم دیکھے اور سردار عتیق احمد خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ
جس اسمبلی نے ان پر عدم اعتماد کرتے ہوئے انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا
تھوڑا ہی عرصہ گزرنے کے بعد اسی اسمبلی نے ان کودوبارہ منتخب کیا اور آزاد
کشمیر کی تاریخ میں یہ واقعہ پہلی دفعہ ہوا ۔ یہ بات بھی بہت دلچسپ ہے کہ
وہ بلامقابلہ وزیراعظم منتخب کیے گئے ۔
قارئین ! سردار عتیق احمد خان اور مسلم کانفرنس بلاشبہ اس وقت شدید ترین
مشکلات سے دوچار ہیں لیکن اگر پاکستان پیپلزپارٹی کے ”پانچ پیارے“ آپس میں
لڑتے رہے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہے تو اس کا تمام تر فائدہ مسلم
کانفرنس اور مسلم لیگ ن کو ہو گا اور دوسری طرف اگر مسلم لیگ ن انتخابات سے
قبل ملنے والے انتہائی کم وقت کو کامیابی سے استعمال نہ کر سکی تو اس کا
فائدہ بھی مسلم کانفرنس اٹھائے گی یہاں اس بات کا ذکر بھی کرتے جائیں کہ
مسلم لیگ ن کو سب سے بڑا نقصان اس وقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ سیاسی اثر و
رسوخ رکھنے والی سردار عبدالقیوم خان کے پائے کی شخصیت سالار جمہوریت سردار
سکندر حیات خان اس وقت علالت میں گرفتار ہیں اور ان کی بیماری کی وجہ سے وہ
اس قابل نہیں ہیں کہ آزاد کشمیر کے تمام انتخابی حلقوں کا دورہ کر سکیں ۔
ایک ریڈیو چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے سردار سکندر حیات خان نے اعتراف کیا
کہ اپنی بیماری کی وجہ سے وہ سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ نہیں لے پا رہے
اور اسی وجہ سے پاکستان پیپلزپارٹی لینڈ سلائیڈ وکٹری کے دعوے کر رہی ہے ۔
قارئین ! نتیجہ کچھ بھی ہو آزاد کشمیر کے عوام اس مرتبہ تبدیلی چاہتے ہیں
اور پرانے چہروں کی جگہ تبدیلی کا پیغام لانے والے دیانتدار لوگوں کو
اسمبلی میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ سردار عتیق احمد
خان اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر بہتر مستقبل کا تعین کرتے ہیں یا
ان کی سیاسی شکست کی پیش گوئیاں کرنے والے ستارہ شناسوں کی باتوں کو درست
ثابت کرتے ہیں ۔ دونوں طرح سے فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک جلسہ کے بعد سیاسی لیڈر نے اپنے سیکرٹری کو ڈانٹتے ہوئے کہا
”میں نے تمہیں صرف15منٹ کی تقریر لکھنے کو کہا تھا تم نے ایک گھنٹے کی لکھ
دی ، بولتے بولتے میرا منہ تھک گیا ۔“
سیکرٹری نے بیچارگی سے جواب دیا۔
”جناب میں تو 15منٹ کی تقریر ہی لکھی تھی مگر آپ جلدی میں اس کی چار کاپیاں
لے گئے تھے ۔“
قارئین! ہمیں امید ہے کہ آزاد کشمیر کے سیاسی لیڈرز کام کی بات کریں گے اور
لایعنی اور بے معنی تقریروں سے گریز کریں گے ۔ |