میرے سامنے دو خبریں ہیں جسے میں
بدترین قومی احسان فراموشی سے ہی تعبیرکرسکتا ہوں۔ایک اخبار کی تصویر میں
افغانستان کے دارالخلافہ کابل میں افغانوں کو پاکستانی میزائل حملوں کے
خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور اس کے بالکل نیچے قومی اسمبلی کی
قائمہ کمیٹی کا بیان تھا کہ ہمیں افغان ٹرانزٹ سے ایک پیسے کی بھی آمدنی
نہیں ہورہی ہے۔ جبکہ ہمارے حکمران انڈیا کو افغانستان تک رسائی دینے کے
سوال پر اسقدر بیتاب تھے کہ انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرتے وقت ان کی
شقوں کو بھی قابل مطالعہ نہیں سمجھا تھا ۔
ہمارے حکمران افغانستان سے محبت کے اظہار میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں کرتے
ان کا بس چلے تو پاکستان کا نام بدل کر افغانستان ہی رکھ دیں ویسے بھی
افغان مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث جلد یا بدیر یہی ہونے جارہا ہے۔
پڑوسی ملک سے محبتوں کا یہ عالم ہے کہ ہمارے حکمراں ٹولے سے وابسطہ بعض
رہنماؤں نے تو یہاں دفن ہونا بھی گوارا نہیں کیا کیونکہ ان کا ظاہر ہی نہیں
باطن بھی افغانستان سے وابسطہ تھا اسطرح مر کر بھی پاکستان کے مقابلے میں
افغانستان سے اپنی محبت کا ناقابلِ تردید ثبوت چھوڑ گئے۔
افغانستان ایک پڑوسی ملک ہوتے ہوئے پاکستان کے وجود سے اپنی بے اعتنائیوں
کے اظہار میں کبھی پیچھے نہیں رہا ۔ آزادی کے بعد پاکستان کو تسلیم کرنے
والے ممالک میں افغانستان کا نام سب سے آخیر میں آتاہے۔ اُس وقت افغانستان
میں چاہے کسی کی بھی حکومت تھی لیکن بحرحال حکومت تو افغانی ہی تھی جس نے
سب سے آخیر میں جاکر پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا ۔ افغانستان پاکستان کے
بغیر ماہی بے آب کے مانند ہے کیونکہ اسکی کوئی اپنی بندرگاہ نہیں نقل و حمل
کا واحد ذریعہ پاکستان ہے لیکن اسلامی دنیا کا یہ واحد ملک ہے جس نے ہمیں
کشمیر سمیت کسی بھی مسئلے پر ہمیشہ اپنی حمائت سے محروم رکھّا۔ لیکن ہم ہیں
کہ افغانستان کےلئے اپنے وجود کو داؤ پر لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ
نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم پہلے پاکستانی اور پھر بعد میں کچھ اور ہیں ہم آخر
کب تک دوسروں کے لئے اپنے وجود کو خطرات میں ڈالتے رہیں گے؟
ہمیں یہ سوچنا ہے کہ صرف ہم ہی دنیا کے ٹھیکیدار نہیں۔ صرف ہمارا ہی یہ فرض
نہیں ہیں کہ ہم دوسروں کے معاملات اور انکے مفادات کی جنگ لڑیں۔ ہمیں ہمارا
گھر ہمارا شہر ہمارا ملک ہمیں اپنے مفاد کوہر چیز پر مقدم رکھنا ہوگا ہمیں
ہر صورت میں دوسروں کے بجائے اپنے لوگوں کو پہلے دیکھنا ہے۔ اگر ہم دوسروں
کے غم میں دبلے ہوتے رہے تو بات ہماری بقا تک جا پہنچے گی جو کہ کسی صورت
بھی اور کسی بھی نقطہءنظر سے ٹھیک نہیں ہوگا۔ باہمی تعاون کا مطلب یہ ہے کہ
اگر ہم دوسروں کے لئے کچھ کررہے ہیںتو انھیں بھی ہمارے لئے اتنا ہی کرنا
پڑے گا ۔ اگر کسی وجہ سے وہ ہمارے برابر کا تعاون نہیں کرسکتے تو انھیں یہ
ثابت کرنا پڑے گا کہ ہمارے خلاف وہ ہمارے ازلی دشمن کے( کم از کم )دوست
نہیں ہیں۔ افغانستان میں سب سے زیادہ کونسل خانے بھارت کے ہیں۔ افغانستان
جیسے چھوٹے ملک میں اتنے کونسل خانوں کی بالآخر ضرورت کیا ہے؟ بلوچستان
پرنظر رکھنے کے لئے ہندوستانی آنکھیں افغانستان کی سرحدوں سے کیوں دیکھ
رہیہیں؟ انھیں اس کام میں کس کا تعاون حاصل ہے؟ پاکستان نے ۶۸۹۱ء سے لے کر
اب تک افغانستان کی وجہ سے جو نقصانات برداشت کئے کیا ہم نے کبھی اس پر
سنجیدگی سے غور کیا؟ میں یہ بات یقین کی حدوں سے بھی آگے جاکر کہہ سکتا ہوں
کہ بھارت کے ساتھ تین جنگوں میں ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا کہ
۶۸۹۱ءسے لےکر ابتک کر افغانستان کے باعث ہوچکا ہے۔ پڑوسی کا یہ زخم جو ہم
نے ایک عرصے سے پال رکھا ہے وہ اب ہمارے لئے ناسور بن چکا ہے جس کا علاج
شائد آنے والی دو تین دہائیوں تک ممکن نہیں ہوسکے گا۔
ہم نے نظریہ پاکستان سے غداری کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں محصور
پاکستانیوں سے جان چھڑالی جب کہ انکی تعداد دو لاکھ سے بھی کم تھی ۔ ایک
طرف ہم نے انھیں ان کی قربانیوں سمیت سیاست کے ناپاک قبرستان میں دفن
کردینے کا جرم کیا اور دوسری جانب چالیس لاکھ افغانیوں کو اپنے دامن میں
جگہ دے دی جو کبھی ہمارے تھے ہی نہیں اور جو نہ کبھی ہمارے ہوسکتے ہیں۔ میں
ایک پاکستانی کی حیثیت سے یہ سوال کرنا چاہونگا کہ پاکستان کی خاطر اپنی
تین نسلوں کی قربانی دینے والے ‘ پاک فوج کے شانہ بشانہ پاک سر زمین کی
حفاظت اور پاکستانی فوج کو ہندو فوجوں اور مکتی باہنی سے بچانے والے
پاکستانیوں کے لئے پاکستان میںتو کوئی جگہ نہیں لیکن ۳۶ سالوں سے پاکستان
کی ہر طرح سے مخالفت ‘ پاکستان کے دشمنوں کو اپنا دوست رکھنے والوں‘
پاکستان کے حصّے بخرے کرنے کی سازشوں میں بھارت اور دیگر پاکستان مخالف
قوتوں کا ساتھ دینے والوں کآ پاکستان پر کیا حق ہے ؟ چالیس لاکھ سے
زائدافغانی جو کہ اب افغانی نہیں پاکستانی بن چکے ہیں ان کو پاکستانیوں سے
زیادہ سہولتیں کس طرح اور کس قانون کے تحت حاصل ہیں؟ اگر یہ سب مہاجرین کو
دی جانے والی کسی عالمی سہولت کا حصّہ ہیں تو ایران میں بھی لاکھوں کی
تعداد میں افغان مہاجرین ہیں لیکن وہ سب کے سب اپنے کیمپوں تک ہی محدود
ہیں۔ انھیں نہ تو ایرانی پاسپورٹ دیا گیا اور نہ ہی ایران میں کسی کاروبار
کی اجازت۔ اسلئے کہ ایرانی حکومت ایرانی عوام کے مفادات کا کا تحفظ مقدم
رکھتی ہے ۔ ہماری حکومتیں نہ جانے کس ایجنڈے پر کام کررہی ہیں جس سے
پاکستان اور پاکستانی قوم کا سوائے نقصان کے فائدہ نہیں ہورہا ہے۔
یاد رکھئے ہم اپنی آنے والی نسلوں کے مقروض ہیں ہمیں اپنے اور انکے پاکستان
کی ہرصورت میں حفاظت کرنی ہے تاکہ انکو ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان دے
سکیں یہ انکا حق اور ہمارا اولین فرض ہے۔ اسکے لئے ہمیں دوسروں کو اپنے
مختصر سے دسترخوان پر دعوت دیتے ہوئے اپنے بچوں کے بھوکے پیٹوں کی طرف
دیکھنا ہوگا۔ اپنے گھر میں کسی کو بلانے سے پہلے سوچنا ہوگا کہ ہمارے بچوں
کے سر پر سائبان مہیا کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے ہم ان کے سروں کاسائبان
دوسروں کو بانٹنے کا اختیار ہر گزہرگز نہیں رکھتے۔
ہمارے حکمران بیگانی شادی میں دیوانہ ہونے کے بجائے اپنے گھر کی طرف دیکھیں
کہ ہم نے اپنی غلط پالیسیوں کے باعث ملک کو کس مقام پر پہنچا دیا ہے۔ کیا
ہم اپنی آنے والی نسلوں کوایک ٹوٹا پھوٹا اور لاغر پاکستان دے کر جانا
چاہتے ہیں؟
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے |