یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

جب انسان کامیابی اورانعام پر غرور کرتا ہے یا ان کا غلط استعمال کرتا ہے تو یہ کامیابی اور عنایتیں اس کے حق میں باعث عذاب بن جاتے ہیں اس کے برعکس جو بندہ مومن ناکامی، آسمان سے نازل ہونے والے مصائب و بلائیات، زمین میں پھوٹ پڑنی والی وباؤں پر صبر کرتا ہے اور حالات سے گھبرانے کے بجائے اِن بیدار کرنے والے عوامل سے نصیحت و عبرت حاصل کرتا ہے، توبہ کرتا ہے اور اپنے کردار کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے تو دنیا کے مسائل و مشکلیں اس کے حق میں نعمت بن جاتی ہیں۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں اﷲ تعالی کی طرف سے مصائب تنبیہ کے لیے آتے ہیں یہ عین رحمت ہوتے ہیں تاکہ تجھے غفلت سے بیداری حاصل ہو۔ بندہ مومن یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اﷲ تعالی کے نیک بخت بندے وہی ہوتے جو شدت رنج و الم، غم و اندوہ، خشک سالی و بیماری، حوادثات و مشکلات اور شدائد کے ظہور کے وقت اﷲ کی طرف متوجہ اور بے راہ روی و گمراہی دلدل سے نکل کر راہ راست و صراط مستقیم کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ کورونا وائرس نے پوری دنیا میں تباہی مچادی ہے کئی لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، تقریباً ہر روز ایک ہلاکت کی نہیں بلکہ اموات کی خبریں مل رہی ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اب بھی دھوکہ دینے، ظلم کرنے، جھو ٹ بولنے، خیانت کرنے، غلط طریقہ سے پیسہ کمانے وغیرہ میں مصروف ہیں اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے برپا ہونے والے مصائب سے انسان نے کوئی نصیحت حاصل نہیں کی چونکہ وہ خواب غفلت کی نیند سویا ہوا ہے لیکن یہ روش مومن کی نہیں ہوسکتی ۔دنیا میں جو تباہیاں و بربادیاں آرہی ہیں اس کی اہم وجہ ہماری بداعمالیاں ہیں لہٰذا کورونا جیسی موذی وبا سے چھٹکارا پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بداعمالیوں کو ترک کریں اور اﷲ اور اس کے رسول کے مطیع و فرمانبردار بن جائیں۔ ہمارے اسلاف و بزرگان دین کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے لیے نوافل کو ترک کرنا بھی بارگراں تھا تو دوسری طرف ہم ہیں جنہیں فرائض و واجبات کے چھوٹنے پر کوئی ملال نہیں ہوتا اور نہ ہی پیشانی پر شکن آتی ہے۔ بندہ مومن کے لیے کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں کہ وہ ناپائیدار سرور و نشاط کے حصول کے لیے نفس کی مکاریوں، شیطان کی عیاریوں اور دنیا کی جمال پرستی، زینتوں اور لذتوں کے دام فریب میں پھنس کر اس رب کریم سے غافل ہوجائے، اس کے احکامات سے روگردانی کرے ۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی خاطر حدود الٰہی کو پامال کیا تھا لیکن جب کورونا کی وبا پھوٹی تو ان میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کی جمع کردہ پونجی علاج و معالجہ کی نظر ہوگئی ان میں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بہت ناجائز طریقوں سے کافی دولت اکٹھا کرلی تھی لیکن اس موذی مرض نے ان لوگوں کو لقمہ اجل بنادیا اور وہ پوری دولت یہیں پر چھوڑ کر خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اگر چہ مختلف اوقات میں اور مختلف نوعیتوں سے عذاب الٰہی اور قہر خداوندی سے کائنات لرزہ براندام ہوئی ہے۔ کبھی تو ایک ہی وقت میں قوم کی قوم تباہ و برباد ہوگئی۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے مختلف قوموں پر عذاب نازل کرنے کا ذکر فرمایا اور ساتھ میں اس کے اسباب کا بھی ذکر کردیا۔ اور یہ ایک خدا کا حتمی قانون ہے کہ جب وہ سبب وہ بارہ ظاہر ہوتا ہے تو پھر عذاب کا وقوع بھی مختلف اشکال میں ہوتا ہے۔اﷲ تعالیٰ کی آیات قدرت کا انکار ، کفر و شرک پر اصرار ، نبی ؐ کی توہین و نافرمانی ، ظلم و زیادتی ، ناانصافی و حق تلفی ، بے راہ روی و بدکاری ، فحش و بے حیائی ، فسق و فجور ، سرکشی و عناد ، سستی و غفلت کے علاوہ جب گناہ بڑھ جاتے ہیں تو پھر اﷲ تعالیٰ کا قہر مختلف شکلوں میں مختلف نوعیتوں سے ظاہر ہوتا ہے۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کے بعد کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرڈالا اور آپ کا رب کافی ہے ( وہ ) اپنے بندوں کے گناہوں سے خوب باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے۔قہر خداوندی کے سامنے سپر پاور طاقتیں ، ترقی یافتہ ممالک عاجز و بے بس اور کمزور و لاچار ہیں۔ یہ ترقی یافتہ دور حفظ ماتقدم سے قاصر ہے ، اس کے مقابلہ سے عاجز ہے۔ اس کے سدباب سے ناواقف ہے۔ غرض یہ کہ دنیا کے مختلف مقامات پر مختلف انداز میں مختلف وجوہات کے ساتھ ہلاکت و بربادی کا پیغام لیکر یہ حوادث نمودار ہوتے رہتے ہیں۔حالیہ عرصہ میں متعدی امراض عالمی سطح پر ماہرین صحت کی تشویش کا سبب بنے ہوئے ہیں ، سوائن فلو ، برڈ فلو اور SARS جیسے متعدی امراض نے دنیا کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ عالمی قائدین ، صحت و توانائی کی منصوبہ بندی کرنے والے ماہرین ، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک اسی موضوع کو اپنے ایجنڈے میں نمایاں اہمیت دے رہے ہیں۔ گلوبلائزیشن نیز پروازوں کی کثرت اور سہولت کی بنا متعدی امراض شہر شہر قریہ قریہ کے علاوہ دوردراز ملکوں میں تیزی سے پھیلتے گئے اور دیکھتے دیکھتے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے۔ دسمبر 2019ء کے اواخر میں کورونا وائرس چین میں ظاہر ہوا اور نامور سائنسدانوں کے مطابق یہ وائرس کسی جانور سے شروع ہوا اور پھر انسانوں تک پھیل گیا۔ اندازہ کے مطابق یہ وائرس سابقہ دو خطرناک وائرسز MERS اور SARS سے زیادہ تباہ کن اور ہلاکت خیز ثابت ہوا ۔ اکیسویں صدی میں جب ہم عالمی صحت تنظیم کی گائیڈ لائینس کو پڑھتے ہیں اور چودہ سو سال قبل نبی اکرم صلی الہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو دیکھتے ہیں کہ جب آپ ؐاپنی اْمت کو پنجوقتہ نماز کے لئے کس طرح پاکی و صفائی کا نظام بتاتے ہیں ، پھر آپ صبح و شام کھانے سے قبل اور کھانے کے بعد ، صبح میں بیدار ہوتے ہی ہاتھ دھونے کا حکم دیتے ہیں۔ پاکی و صفائی کی تلقین کرتے ہیں ، مسواک کرنے پر زور دیتے ہیں۔ چھینک اور کھانسی کے وقت اپنے عمل کے ذریعہ ہاتھ یا کپڑے کے استعمال کی ترغیب دیتے ہیں ، سوتے قوت برتنوں کو ڈھانکنے اور دھوکر رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں یعنی چودہ سو سال قبل ہمارے نبی نے سب سے ماڈرن اور Civilised قوم کی بنیاد رکھی۔ یہی ظاہری و باطنی ، شخصی سماجی اور ماحولیاتی پاکی و صفائی کی تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ یہ قوم مختصر سے وقت میں دنیا کی دو بڑی سپر پاور طاقتیں روم اور فارس کو سرنگوں کرکے صدیوں تک اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔یاد رہے کہ یہ مہلک بیماریاں ، آفات و حوادث قرب قیامت تک گاہے گاہے پیش آتے رہیں گے تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور وہ غفلت کی زندگی سے بیدار ہوں۔ اگر وقفہ وقفہ سے وقوع پذیر ہونے والی ہلاکت خیز بیماریوں اور آفات سماوی سے عبرت حاصل نہ کی جائے اور اپنی بدمستی میں مدہوش رہیں تو نہ موت کا دن دور ہے اور نہ قیامت کا دن دور ہے۔ دیکھتے دیکھتے زندگی ختم ہوجائے گی اور دنیا تباہ و برباد ہوجائیگی اور کف افسوس ملنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Haji Latif Khokhar
About the Author: Haji Latif Khokhar Read More Articles by Haji Latif Khokhar: 141 Articles with 112981 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.