ہفتے کا دن ہو اور ناک کان گلے کی او پی ڈی میں مریضوں کا
جمِ غفیر نہ ہو یہ کچھ ناممکن سی بات ہے. کراچی جیسے ماحولیاتی آلودگی میں
مبتلا شہر میں ہر دوسرے بندے کو کھانسی زکام کی شکایت ہے تو کسی بظاہر
تندرست آدمی کو سانس لینے میں دشواری. خیر اللّہ بچائے انسان کو ہسپتال کا
منہ دیکھنے سے کسی کو کچھ نہ بھی ہو تو وہاں ہونے لگتا ہے.
او پی ڈی کے اوقات کا اخیر وقت ہی چل رہا تھا کہ فائل پکڑے قریباً پینتیس
سالہ خوبرو شخص ڈاکٹر احمد کے پاس آیا. ایک ہی نظر میں صحنت مند نظر آنے
والے شخص کو کسی اور دن آنا کہہ کر ٹالنے کا دل چاہا کہ صبح سے کئی مریضوں
کو نبٹاتے نبٹاتے ان کی بس ہو گئی تھی. مگر یہ ضمیر اور پیشہ ایسے موقعوں
پہ ہمیشہ انہیں دغا دے جاتا تھا.
چہرے پہ مخلصانہ اور پیشہ ورانہ مسکراہٹ خودبخود سج گئی اور ذہن اس نوجوان
کی شکایت پہ سماعت گو بن گیا.
مریض جس نے اپنا نام احمر بتایا تھا, کہ کنٹھ میں نمایا گلٹی نظر آرہی تھی.
ڈاکٹر احمد نے معائنہ کیا اور ذہن میں معالجہ کا طریقہ و دائرہ کار ترتیب
لینے لگے.
"اوہ..یہ تو تھائیرائیڈ کا معمولی سا کیس ہے... کچھ ٹیسٹ اور دوائیاں لکھ
دیتا ہوں, ان شاء اللّہ جلد افاقہ ہوگا."
احمر الحمدللّہ پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتا تھا, عین وقت پہ روک دیا کہ
"ڈاکٹر صاحب ابھی دو دن پہلے ہی تھائیرائیڈ پروفائل کروایا ہے, رپوڑٹ نارمل
آئی ہے."
چند اور رپوڑٹز کو دیکھا اور پرکھا تو تھائیرائیڈ کی ڈائگنوسس سرے سے ہی "ہوسکتی
بیماریوں" کی لسٹ سے ہٹ گئی.
ایک معمولی سا کیس اب پیچیدہ ہوتا جارہا تھا. دو تین ٹیسٹ لکھ کر دیے اور
جلد سے جلد دوبارہ آنے کی تاکید کی, کہ دو چیزوں میں جلد بازی فائدہ مند ہے,
ایک خیر کے کاموں میں تو دوسرا کسی بھی بیماری کی اس کے اوائل ایام میں
نشاندہی اور فوراً علاج کہ اس میں ذرا سی بھی دیر اور لاپرواہی ناسور کا
کام کرسکتی ہے.
***
دو دن بعد احمر بمعہ حالیہ رپورٹز لے کے آیا تو کیس واقعی میں پیچیدہ نکلا.
"احمر کو lymphoma, گلے کا کینسر تشخیص ہوا تھا."
"چونکہ فی الوقت یہ کینسر مہلک نہیں ہے تو اس کا فوری علاج کینسر کو کم وقت
میں جڑ سے ختم کرنے کارگر ثابت ہوگا." ڈاکٹر احمد نے احمر کو تسلی کے ساتھ
امید کے جگنو تھمائے اور علاج کا طریقہ و دورانیے کے بارے میں بتانے لگے.
احمر کے جانے کے بعد ڈاکٹر احمد کے ذہن سورۃ الاسراء کی یہ آیت گونج رہی
تھی کہ
وَكَانَ الۡاِنۡسَانُ عَجُوۡلًا
" انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔"
اور وہ سوچ رہے تھے کہ واقعی انسان بڑا ہی کوئی جلد باز ہے, اگر ان کا ضمیر
اور پیشے کا تقاضہ ان کو جلد بازی کے شر سے نہ روکتا, اگر وہ اس روز جلد
بازی میں احمر کو یونہی ٹال دیتے یا پھر تھائیرائیڈ کا کیس سمجھ کے اس کا
ٹریٹمنٹ شروع کردیتے تو نہ کینسر کی بروقت صحیح تشخیص ہوتی اور وہ چاق و
چوبند نوجوان ذرا سی لاپرواہی سے اپنی زندگی کا سنہرا دور گنوا دیتا. یہ
جلد بازی کس قدر مہلک ثابت ہوتی یہ احساس ہی جان لیوا تھا. لوگ سمجھتے ہیں
ڈاکٹر بے حس و پتھر دل کے ہوتے ہیں مگر یہ بھی تو سچ ہے اگر مسیحا میں درد
سے شناسائی نہ ہو تو وہ درد کا مداوا کیسے کرے گا!
بے شک زندگی اور موت صرف اللّہ کے کُن کی محتاج ہے مگر اس سے بھی انکار
نہیں کہ یہ جو مسیحائی کا پیشہ ہے نا, یہ اللّہ کا انعام ہے کہ کسی ایک
انسان ہی کی جان بچا کر, اس کی تکلیف کا سدباب کرکے یہ مسیحا پوری انسانیت
کو بچانے کا ثواب حاصل کرلیتے ہیں. اپنے اس پیشے میں smart approach اور
diagnosis تو فائدہ مند ہے لیکن اگر جلد بازی سے کام لیں گے تو پچھتاوے و
نقصان کا اندیشہ تو ہوگا ہی کیونکہ اے مسیحا نہیں زیب دیتا تمہیں جلد بازی
سے کام لینا کہ مسیحائی ہے کام تیرا!
|