بھارت اورچین کے درمیان سرحدپرگزشتہ سال
خاصاہنگامہ خیزرہاجس میں چاردہائیوں کی سب سے خونی جھڑپ ہوئی،رواں برس کے
آغازمیں دونوں ممالک نے لداخ کے علاقے سے فوجیں پیچھے ہٹانے پراتفاق کیا۔اس
معاہدے سے مسلح تصاد م کافوری خطرہ توکم ہوگیا، لیکن تناؤبرقرار ہے اورکسی
بھی وقت تنازع پھر سر اٹھاسکتاہے،جیساکہ بھارتی وزیرخارجہ سبرامنیم جے
شنکرنے2020ءمیں چین اور بھارت کے تعلقات کو انتہائی پریشان کن
قراردیا۔2015ءمیں ہنگامی منصوبہ بندی میمورنڈم(سی پی ایم)نے امریکی سیکورٹی
مفادات کے حوالے سے چین اوربھارت کے درمیان فوجی تصادم کے خطرے
کواجاگرکیاتھا۔یہ خطرہ ابھی تک باقی ہے اوراس پرتوجہ دینے کی ضرورت
ہے۔جوبائیڈن کوبھارت کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی اسٹریٹجک شراکت داری کے پیش
نظرجنوبی ایشیامیں کشیدگی میں کمی کو بہتری کیلئےاستعمال کرناچاہیےتاکہ چین
کے ساتھ سرحدپرممکنہ تنازعات کے خطرے کوکم کیاجاسکے۔
2015ءمیں سی پی ایم نے اندازہ لگایاکہ چین اور بھارت کے تعلقات کافی حدتک
مستحکم ہیں اوردونوں کے درمیان بظاہرفوجی تصادم کاامکان نہیں ہے۔دونوں
فریقوں نے تجارت اورسرمایہ کاری کے بڑھتے تعلقات پرسرحدی تنازع کاکوئی
اثرپڑنے نہیں دیااورسرحدی معاملات کوبروقت بہترانداز میں حل کر لیا۔اس کے
باوجودسی پی ایم نے پایاکہ غیرحل شدہ تنازعات بیجنگ اورنئی دہلی کے درمیان
قائم امن کیلئےچیلنج بن سکتے ہیں۔کسی بھی ایک جگہ تنازع کے نتیجے میں دونوں
ممالک کے سیاسی اوراسٹریٹجک مفادات داؤپرلگیں گے اورپھربحران کے دوران
انٹیلی جنس اکٹھا کرنا، فیصلہ سازی کرنااور تشدد سے بچنے کیلئےاقدامات کرنا
انتہائی پیچیدہ ہوجائے گا۔گزشتہ18برس سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں
پرغیر مسلح جھڑپیں،جارحانہ گشت اوراشتعال انگیزفوجی تعمیرات کاسلسلہ جاری
تھا،جس کے نتیجے میں2020ءمیں چین اور بھارت میں خونی تصادم کی فضامکمل
طورپرسازگارہوچکی تھی۔2019ءکے ابتدامیں بھارت اورپاکستان تعلقات میں کشیدگی
کااثربھی بیجنگ اورنئی دہلی تعلقات پرپڑا کیونکہ پاکستان چین کا قریب ترین
شراکت دارہے۔
اگست2019ءمیں بھارت کی جانب سے جموں وکشمیرکی آئینی حیثیت کی اچانک تبدیلی
نے چین اورپاکستان کے ساتھ علاقائی تناؤکوبڑھاوا دیا تھا۔جس کے نتیجے میں
بھارت کی دفاعی ضروریات میں اضافہ ہوگیا۔2020ءمیں چین سے پھیلنے والے
کوروناوائرس کی وبائی بیماری نے بھارتی معیشت کوسخت نقصان پہنچایا۔جس کی
وجہ سے باہمی تصادم میں اضافہ ہوااورچین بھارت تجارتی اورسفارتی تعلقات کے
مستقبل پرسوالات اٹھنے لگے۔مستقبل میں چین اوربھارت کے درمیان تناؤ
برقراررہنے بلکہ تنازع مزیدبڑھنے کاامکان زیادہ ہے۔ اپنی زمینی سرحدوں
پردونوں ممالک فوجی حکمت عملی کے تحت ایک دوسرے پربرتری حاصل کرنے کی کوشش
جاری رکھیں گے اورپچھلے ناکام معاہدے اورکشیدگی کم کرنے کے موجودہ معاہدے
پرعمل پیرارہیں گے۔چین اوربھارت کے فوجی عزائم میں کمی آنے کاکوئی امکان
نہیں، جودونوں ملکوں کی مسلح افواج کوتصادم کے قریب لے جائے گا۔2020ءمیں
شدیدکشیدگی کے دوران شمالی بھارت کی سرحدپردونوں جانب سے ہزاروں فوجیوں
کوتعینات کیاگیاتھا۔بھارت نے رواں برس کے آغازمیں چینی خطرے کے پیش
نظرپاکستانی سرحدپرتعینات اسٹرائیک کورکی تنظیم نوکے منصوبے کااعلان
کیاہے۔اس سے چین کے حوالے سے بھارت کے مستقبل کے رویے کاپتاچلتاہے۔رواں برس
کے آغازمیں پاکستان اوربھارت نے ایل اوسی پرجنگ بندی کااعلان بھی کیالیکن
اس کے باوجود نئی دہلی چین اورپاکستان کے درمیان اسٹریٹجک شراکت کے پیش
نظرمحتاط رہے گا۔گزشتہ برس پاکستان اور بھارت کے درمیان2002ء کے بعدایل
اوسی پرشدیدترین شیلنگ کا تبادلہ ہوا۔دونوں جانب سے اعلیٰ فوجی افسران کے
مفاہمتی بیانات کے بعدجنگ بندی عمل میں آئی لیکن مستقبل میں پاکستان
اوربھارت کے درمیان کسی تنازع کے نتیجے میں اس میں چین کے ملوث ہونے کابہت
زیادہ امکان موجودہے۔
2019ءمیں دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پرفضائی حملے کیے گئے، بھارت کی
جانب سے1971ء کے بعدپہلی بارسرحدپار حملے کیے گئے پاکستان کی جانب سے جوابی
فضائی حملے اوربھارتی پائلٹ کی گرفتاری پراعلیٰ بھارتی اہلکار نے ایٹمی
صلاحیت کے حامل میزائل استعمال کرنے کی دھمکی بھی دی لیکن اس کے
باوجودپاکستان نے اعلانیہ جوابی فضائی حملے سے اپنی دھاک بٹھاکرکشیدگی پر
قابوپانے کیلئے بھارتی پائلٹ کورہاکرکے اقوام عالم پراپنی امن پسندی کا
اظہارکیا لیکن اس واقعہ سے واضح ہوگیاکہ مستقبل میں کسی تنازع کے نتیجے میں
دونوں جانب سے اپنے مقاصدکے حصول کیلئےمزیدطاقت کے استعمال کاخطرہ بڑھاہے۔
حالیہ برسوں میں چین اورپاکستان کے بڑھتے اسٹریٹجک تعلقات کے پیش نظرمستقبل
میں دہلی اوراسلام آبادکے تنازع میں بیجنگ کی شمولیت کا امکان ہے۔سی پیک
پرچین کی جانب سے اربوں ڈالرسرمایہ کاری کی گئی ہے۔بیجنگ نے2019ءکے بحران
میں پاکستان اور بھارت کواشتعال انگیزی سے روکنے کی بجائے اسلام
آبادکاجائزموقف تسلیم کرلیاکہ بھارت کومستقبل کی جارحیت سے روکنےکیلئے خاطر
خواہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کی طرح چین بھی اگست
2019ءمیں کشمیرکے خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام پرکڑی تنقید
کرچکاہے۔ اگر بھارت اورپاکستان کے درمیان تعلقات بہترکرنے کی کوششیں ناکام
ہوجاتی ہیں،جیسے ماضی میں ہوتی رہی ہیں توایک اوربحران چین اورپاکستان
کوبیک وقت بھارت کے خلاف کھڑاکرسکتاہے۔بحران کی پیچیدگی میں مزیداضافہ کرتے
ہوئے چین اوربھارت نے2020ءمیں سرحدی کشیدگی کو دوطرفہ تعلقات کے دیگرشعبوں
تک بڑھادیا۔اس اقدام کامقصداپنے عزائم کا اظہار تھا۔
بھارت نے جون2020ءمیں جنوبی بحیرہ چین میں جنگی جہازتعینات کیے،جس پرچین کی
جانب سے فوری اعتراض کیاگیا،اس کے ساتھ بھارت نے وی چیٹ اور ٹک ٹاک جیسی
چینی ایپلی کیشنزپرپابندی لگائی اورچینی کمپنیوں کی بھارت میں حساس منصوبوں
میں شرکت کو محدودکردیاجس کے جواب میں چینی ہیکروں نے اکتوبر2020ءمیں ممبئی
کے الیکٹرسٹی نظام پرسائبرحملہ کرکے شہرمیں بلیک آؤٹ کر کے واضح پیغام
دےدیا۔اگرچہ دونوں جانب سے اس طرح کے اقدام کا مقصد سرحدپرمزیدفوجی تصادم
سے بچناتھالیکن اس سے پتالگتاہے کہ مستقبل کے بحران کے دوران دونوں ممالک
کے درمیان دیگرشعبوں میں بھی کشیدگی میں اضافہ ہوسکتاہے،یعنی دونوں جانب سے
تحمل کے مظاہرے کا امکان کم ہے۔مثال کے طورپر مستقبل میں بھارت کی حساس
تنصیبات پرچینی سائبرحملہ بھارتی رہنماؤں پرشدیدعوامی دباؤ ڈالے گالیکن یہ
اندازہ لگانامشکل ہے کہ مستقبل میں دونوں ممالک کشیدگی میں اضافہ کرناچاہتے
ہیں یاامن کوترجیح دیں گے۔اسی طرح اگربھارت چینی تجارت اورسرمایہ کاری میں
نئی رکاوٹیں کھڑی کرتاہے توچین بھارتی ادویات کی صنعت کواہم خام مال کی
فراہمی روک کر اس کا سخت جواب دے سکتاہے۔2015ءمیں سی پی ایم نے چین
اوربھارت کے درمیان دیگرتنازعات کی نشاندہی کی،جوکسی سرحدی تنازع کے ساتھ
ہی بیک وقت بھڑک سکتے ہیں اور دوسری طرف کیا پاکستان بھی اپناادھارچکانے
کیلئےایسے ہی وقت کامنتظرہے؟
چین اوربھارت دونوں ممالک کی بحریہ کااگرسامناہوجاتاہے اورساتھ ہی تبت میں
دلائی لامہ کے حوالے سے کوئی ڈرامائی پیش رفت جوچین کیلئے ناقابل قبول
ہوتواس بحران کی صورتحال میں بھارت اورچین کیلئےاپناردِّعمل اپنے سیاسی
اورتزویراتی مقاصد کے حصول تک محدودرکھنامشکل ہوجائے گا۔2020ءکی سرحدی جھڑپ
تنازع کے پرامن حل میں ناکامی کے بعدکوئی فریق بھی اعتمادنہیں کرسکتا کہ
دوسرافریق تنازع کوکس حدتک بڑھاوادے گا،اسی لیے بھارت اورچین کے تعلقات ایک
غیریقینی دورمیں داخل ہوچکے ہیں۔امریکی انتظامیہ طاقتور چین کامقابلہ کرنے
کیلئےمسلسل واشنگٹن اورنئی دہلی کے درمیان اسٹریٹجک شرکت داری کوفروغ دینے
کی کوشش کررہی ہے۔بائیڈن نے امریکااورچین کے درمیان تعلقات کوانتہائی
مسابقانہ قراردیاہے۔اس پس منظرمیں امریکااور بھارت کے قریبی تعلقات کی
اہمیت بڑھ جاتی ہے لیکن خطرہ بھی مزیدبڑھ جاتا ہے،خاص کرچین اوربھارت کے
درمیان مسلح تصادم کی صورت میں صورتحال انتہائی خراب ہوسکتی ہے۔چین
اوربھارت کے درمیان تصادم کے نتیجے میں امریکاصرف بھارت کی پیٹھ تھپکاکرہی
حصہ بن سکتاہے جس کے نتیجے میں عالمی معیشت درہم برہم ہوجائے گی اورعلاقائی
ترقی کونقصان پہنچے گا،اس کے ساتھ ہی انسانیت پراس کے شدید اثرات مرتب ہوں
گے ۔
اگرتصادم کے بعد بھارت عسکری اور معاشی طورپرکمزورہوجائے گاتوجہاں نئی دہلی
کی چین کامقابلہ کرنے صلاحیت پرفرق پڑے گا وہاں بھارت کی تقسیم کوئی بچا
نہیں سکے گااورخاص کرچین کوروکنے کے امریکی وسیع ترمقصدکاحصول انتہائی مشکل
ہوجائے گا۔ان وجوہات کی بناپرواشنگٹن کی بھارت سے اسٹریٹجک تعلقات قائم
کرنے کابے چینی کے نتیجے میں پیداہونے والے خطرے کادرست اندازہ لگاناہوگاکہ
کس طرح امریکی رویہ بھارت اورچین کے تعلقات پراثرانداز ہورہاہے۔امریکا کے
اسٹریٹجک وعدوں اوربھارت کے ساتھ تعاون کے معاملات کواحتیاط سے اس اندازمیں
جانچناچاہیے جس سے دولازمی تقاضوں کوپوراکیاجا سکے۔
مودی سرکارایک توواشنگٹن کی جانب سے نئی دہلی کوکرائی جانے والی یقین دہانی
اورمدد کا ایک ایساتحریری معاہدہ یقینی بناناچاہتی ہے جس میں چینی جارحیت
کے مقابلے میں حالات کیسے بھی ہوں،امریکابھارت کے ساتھ اپنے وعدے پورے کرے
گاچاہے چین سے براہ راست تصادم کا خطرہ بھی موجودہوکیونکہ وعدے پورے نہ
کرنے کے نتیجے میں بھارت کی بقاء اورسلامتی کوناقابل تلافی دھچکا لگے گا۔
دوسری جانب بھارت فی الحال امریکی حمایت کواپنے اسٹریٹجک مقاصدکوپوراکرنے
اورامریکی مفادات کونقصان پہنچانے کیلئےاستعمال نہیں کرنا چاہتا۔یہ تشویش
کوئی فرضی بات نہیں۔مودی کی کشمیرپالیسی اورچین اورپاکستان کے ساتھ فوجی
کشیدگی میں اضافہ خطرات سے کھیلنےکی غیرمعمولی کوشش ہے۔بھارت کے جارحانہ
رویہ کی حمایت کے نتیجے میں چین زمینی سرحد کے ساتھ فوج کی تعیناتی میں
اضافہ کرتاجائے گا۔اس طرح کی صورتحال چین اوربھارت کی سرحدپرتنازع کے خطرے
کوبڑھادے گی۔ جس کے نتیجے میں بھارت اپنے زیادہ وسائل بحریہ کی بجائے زمینی
سرحدکے دفاع پرخرچ کرنے پرمجبورہوگاجبکہ بھارت امریکی مدد سے بحرہندمیں
جغرافیائی برتری اورچینی جارحیت کے خلاف آزادانہ دفاع کی صلاحیت میں برتری
چاہتاہے تاکہ مستقبل میں بھارت زیادہ مضبوط انداز میں چین کاسامناکرسکے۔اس
کیلئےوہ متنازع زمینی علاقوں میں بیجنگ کی فوجی برتری کوکم کرنےاورچینی
سابئرحملے اورمعاشی دباؤ کے مقابلے کیلئےبھارت کی صلاحیت میں اضافہ کرنے
کیلئے امریکاکے علاوہ مغرب کی طرف بھی دیکھ رہاہے۔ جس کیلئے مودی امریکی
سفارتکاروں کوتنازعات کے دوران تحمل کے فروغ اوعدم تشدد کی حوصلہ افزائی کے
بھارتی سیاسی ڈرامہ کی پشت پناہی کابھی خواہاں ہے۔
ادھربھارتی اوریہودی لابی مسلسل وائٹ ہاؤس کومشورہ دے رہے ہیں کہ
امریکاکوکسی بھی بحران کے دوران بروقت اورکارآمدردِّعمل دینے کی پالیسی کی
صلاحیت پیداکرنی ہوگی تاکہ چین اوربھارت کے درمیان ایک بارپھرانتہائی
خطرناک صورتحال سے بچاجاسکے۔ امریکی حکمت عملی امریکی ترجیحات کادرست
امتزاج ہونی چاہیے جس کے ذریعے ناصرف بھارت اورامریکاکی شراکت داری میں
بہتری آئے بلکہ بھارت اورچین کے درمیان تعلقات بھی خراب نہیں ہوں۔سب سے
پہلے توامریکاکوبھارت کی جارحانہ صلاحیت کے بجائے دفاعی صلاحیت
کوبہتربناناہوگاتاکہ چینی فوجی اقدام کابروقت اندازہ کرکے ردِّعمل
دیاجاسکے۔بھارت کوچین کے ساتھ ایک لمبی اورمشکل سرحدپرانٹیلی جنس جمع کرنے
اورمعلومات کا بروقت تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے فائدہ ہوگا۔
امریکاپہلے ہی اس حوالے سے اقدامات کرتارہاہے۔مثال کے طورپر2020ءکے موسم
سرما میں بھارت کودوایم کیو9بی ڈرون فراہم کیے،مزیدڈرون بھی فراہم کیے جانے
چاہییں۔تاہم بعض اطلاعات کے مطابق امریکااوربھارت کے درمیان مزید30 ڈرون کی
فروخت پرکام ہورہا ہے،لیکن اب تک حتمی معاہدہ ہو نہیں پایا۔سرحدپرچین کی
جانب سے کسی تجاوز کی بروقت اطلاع کیلئےبھارت کوامریکاکے بغیر پائلٹ نگرانی
کے طیارے اور دیگر حساس ٹیکنالوجی فراہم کی جانی چاہیے۔چین اوربھارت کی
سرحدپرمشکل پہاڑی علاقوں پرنظر رکھنے کیلئےخصوصی سنسرکی تیاری میں امریکا
اوربھارت کے فوجی انجینئروں کوآپس میں تعاون کرناچاہیے۔امریکااوربھارت کے
درمیان انٹیلی جنس کے تبادلے کے حوالے سے بنیادی معاہدے پرپہلے ہی بات چیت
ہوچکی ہے لیکن معلومات کے تبادلے کے حوالے سے بنیادی معاہدے پرپہلے ہی بات
چیت ہوچکی ہے لیکن معلومات جمع کرنے والے امریکی پلیٹ فارم تک بھارت کی
محفوظ رسائی حساس معلومات کی بروقت فراہمی کوبہتربناسکتی ہے۔
واشنگٹن کواس حوالے سے کام کوآسان بنانے کیلئےاقدامات کرنے
چاہییں۔امریکاکوبھارت کے ساتھ سائبربات چیت کے دوران چینی سائبرحملے سے
نمٹنے کیلئےبھارت کی مددکرنی چاہیے۔چین کی جانب سے اکتوبر2020ءمیں ممبئی کے
الیکٹرک گرڈپرحملہ محض ایک انتباہ تھا۔جس سے اندازہ ہوتاہے کہ چینی ہیکرز
پہلے ہی بھارت کی حساس تنصیبات کے اندر سرایت کرچکے ہیں۔جوبھارت کیلئےبڑے
خطرے کی علامت ہے۔اس یقینی خطرے کے خلاف بھارتی صلاحیتوں کو
بڑھایاجاسکتاہے،اس حوالے سے امریکاکوتکنیکی مہارت فراہم کرنی چاہیے،خاص
کردونوں ممالک کی داخلی سلامتی کے ذمہ داراداروں کواشتراک کرنا چاہیے۔ چین
کی جانب سے ممکنہ معاشی دباؤکامقابلہ کرنے کے حوالے سے بھی بھارتی صلاحیت
کوبڑھاناہوگا۔اس لیے امریکاکوبھارت اوردیگرہم خیال ریاستوں خاص کر کواڈکے
شراکت دارآسٹریلیااورجاپان کے ساتھ مل کرکثیرالجہتی حکمت عملی بنانی
ہوگی۔جاپان اور آسٹریلیادونوں ہی چینی پالیسیوں کانقصان اٹھاچکے ہیں،جس نے
ان کی مخصوص صنعتوں کونشانہ بنایا۔
چین نے جاپان کونایاب خام مال کی فراہمی روک دی جبکہ آسٹریلیاسے درآمدہونے
والی شراب پربھاری ٹیکس عائدکر دیا لہٰذاوہ بیجنگ کی جانب سے نئی دہلی کو
درپیش معاشی خطرے سے زیادہ واقف ہیں۔دونوں ممالک کومل کرٹیکنالوجی، تجارت
،منڈیوں تک رسائی اورپابندیوں کے حوالے سے چین کی مخصوص کمزوریوں کی
نشاندہی کرنی چاہیے۔انہیں مل کراس طرح منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ کسی بھی
ایک ریاست کے خلاف اقدام کی قیمت چین کومعاشی طورپربھاری پڑے لیکن چین کے
خلاف قدم تاخیرسے اٹھاناچاہیے،تاکہ بیجنگ کویکطرفہ اقدام کے ردِّعمل سے
متنبہ کیاجاسکے اورکشیدگی میں اضافے سے بچاسکے۔جہاں تک ممکن ہوسکے
کواڈممالک کوچین کے معاشی دباؤکامقابلہ کرنے کیلئےبھارت کی صلاحیت کوبہتر
بنانے کامتبادل منصوبہ بھی بناناچاہیے۔مثال کے طورپراہم صنعتوں کیلئےحساس
خام مال کی مختصر مدت میں فراہمی کاانتظام کیاجاسکے۔
امریکاکوچین،بھارت اورپاکستان کے درمیان تحمل کے فروغ اورتنازعات کے پرامن
حل میں رکاوٹ کودورکرنے کیلئےسفارت کاری کا استعمال کرنا چاہیے۔امریکا
اورچین کے سردتعلقات کی وجہ سے مستقبل میں امریکا،بھارت اورچین کے درمیان
سہ فریقی بات چیت کا امکان نہیں ہے،پھربھی واشنگٹن کوبیجنگ کے سامنے چین
اوربھارت کے درمیان بحران کی صورت میں پیداخطرات کے حوالے سے اپنے خدشات
کاکھل کراظہارکرناچاہیے اورواضح کردیناچاہیے کہ نئی دہلی کیلئےامریکی
مدددفاع مضبوط کرنے کیلئےہوگی۔سفارتی بات چیت اورجنوبی ایشیا کے حوالے سے
امریکی اورچینی ماہرین کے درمیان گفتگوکے ذریعے واشنگٹن کو جنوبی ایشیا کے
حوالے سے مخصوص چینی مقاصداورتحفظات کوسمجھناہوگاتاکہ نئی دہلی کی پالیسی
پرچین کے ردِّعمل اورپاک بھارت تعلقات میں پیش رفت کابہتر اندازہ
لگایاجاسکے۔
گزشتہ15برس کے دوران پاکستان کیلئےامریکی امدادمیں کمی کے نتیجے میں اسلام
آبادپرواشنگٹن کااثرورسوخ کم ہوچکاہے لیکن پھر بھی پاکستان کی کمزورمعیشت
اوراس کی مغرب سے بہترتعلقات کی خواہش کافائدہ
اٹھایاجاسکتاہے۔امریکاپاکستان کوحالیہ جنگ بندی پر قائم رہنے اوراپنے ملک
میں موجوددہشتگردوں پرکڑی پابندی عائدرکھنے کی ترغیب دے سکتاہے۔اس
کیلئےبائیڈن انتظامیہ کوایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کوبلیک لسٹ کرنے
کاخطرہ برقراررکھناہوگا،جس کےذریعے پاکستان پرمالی پابندیاں عائدکی
جاسکیں۔اس کے ساتھ ہی واشنگٹن کوشراکت داری کومضبوط بنانے کیلئےباہمی تجارت
اورسرمایہ کاری کیلئےنئے اقدامات پربات چیت کی اسلام آبادکی پیشکش کوقبول
کرلیناچاہیے۔
بھارت کے ساتھ دوطرفہ بات چیت میں امریکاکوقریبی اسٹریٹجک تعلقات قائم کرنے
پرزوردینا چاہیے،تاہم یہ بھی واضح کردیناچاہیے کہ چین اور بھارت کے فوجی
تصادم کے نتیجے میں واشنگٹن کے نئی دہلی سے تعلقات کے مقاصدکوشدیدنقصان
پہنچے گا۔امریکاکوچین کے خلاف بھارت کی دفاعی مددکرنے کے حوالے سے عوامی
سطح پربیانات دینے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ جبکہ بندکمرے میں مذاکرات میں
امریکی سفارتکاروں کو بھارت کی پالیسیوں پرخدشات کااظہارکرتے ہوئے
اگست2019ءجیسے کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کرنے کے حیران کن اقدامات
سے بازرہنے کاپیغام دینا چاہیے،جس کے نتیجے میں خطے میں کشیدگی میں اضافہ
ہوا۔امریکاکواپنے پالیسی سازوں کواگلے موسم بہاریاموسم گرما میں چین
اوربھارت کے درمیان نئے بحران کیلئےبھی تیاررکھنا ہوگا۔
بائیڈن انتظامیہ کوسینئرافسران کوانٹیلی جنس بریفنگ کے ذریعے بھارت چین
سرحدپرنظررکھنے اوربھارت اوراسلام آبادکے درمیان کشیدگی کی نگرانی کرنے
کاعادی بناناہوگا،اس حوالے سے سمندری کشیدگی،معاشی اورسفارتی جنگ
اورسابئرحملے پربھی نظررکھنی ہوگی۔بھارتی ہم منصبوں سے بات چیت کے ساتھ ہی
بائیڈن انتظامیہ کوٹرمپ انتظامیہ کے اہم افرادسے بھی قریبی مشاورت کرنی
چاہیے، تاکہ2020ءمیں چین اوربھارت کے درمیان جھڑپ اور2019ءمیں بھارت
اورپاکستان کے درمیان تصادم کی صورتحال کادرست اندازہ لگایاجاسکے۔اس مشاورت
کے نتیجے میں ایسی حکمت عملی تیارکی جانی چاہیے، جومستقبل کے بھارت اورچین
بحران میں کارآمد ہو سکے۔جس میں امریکاکی جانب سے فوجی اورانٹیلی جنس
اقدامات کے ساتھ بھارت کی سفارتی مددبھی شامل ہو، تاکہ چینی دباؤکامقابلہ
کیا جاسکے اورتحمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بروقت کشیدگی میں کمی کاراستہ
کھولاجاسکے۔
یہودوہنودلابی کی کوششوں کے بعدہمیں یادرکھناچاہئے کہ امریکاایک حکمت عملی
کے تحت چین کے پاکستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات اورسی پیک منصوبے
کوچندسالوں سے پیچھے دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ان کوششوں کی بنیادی
وجہ امریکاکے عالمی اور علاقائی سلامتی کے مسائل ہیں۔سوویت یونین کے خاتمے
کے بعدامریکاواحدسپرپاورکے طورپرسامنے آیا۔اس وقت امریکی پالیسی سازوں نے
فیصلہ کیاکہ اب کبھی بھی سوویت یونین جیسی حریف طاقت کوابھرنےکاموقع نہیں
دیاجائے گا۔
چین نے1979کے بعدحیرت انگیزمعاشی ترقی کی،جس میں اس کی معیشت
میں1978اور1998کے درمیان پانچ گنااضافہ ہوا۔امریکااس ترقی کو اپنی عالمی
برتری کیلئےایک بڑاخطرہ سمجھتاہے۔اکیسویں صدی کے آغازسے امریکانے چین کی
بڑھتی ہوئی معاشی اوردفاعی طاقت کامقابلہ کرنے کیلئےحکمت عملی بنانی شروع
کی۔اپنی سردجنگ کی پالیسی کی طرح امریکانے جاپان،جنوبی کوریااورآسٹریلیاکے
ساتھ دفاعی اتحادوں کیلئےکام شروع کیا۔اس کے ساتھ امریکانے بھارت کوبھی اس
حکمت عملی میں شراکت داربنانے پرآمادہ کرنے کی کوشش کی۔بھارت کوچین کے
علاقے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے علاقے میں اپنااستبدانہ منصوبہ خطرے میں
نظرآیا،اس لیے فوری امریکاکی گودمیں جابیٹھا۔
پچھلی چارامریکی انتظامیہ،جن میں دونوں رپبلکن اورڈیموکریٹ شامل ہیں،بھارت
کے ساتھ مل کراس امیدپراس کثیرالجہتی منصوبے پر کام کرتے رہے کہ بھارت چین
کے بحرہنداورجنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے ایک فصیل بن
کرکھڑاہوگا۔اس لیے امریکی خیال میں اگر پاکستان بھارت کی برتری کوقبول کرلے
تویہ اس امریکی حکمت عملی کو،جس میں بھارت کوایک بڑی ایشیائی طاقت
بناناہے،آگے بڑھانے میں مددملے گی۔ٹرمپ کے بھارتی دورے نے واشنگٹن اورنئی
دہلی کے درمیان گہرے تعاون کومزیدمضبوط کیا۔یہ امریکی علاقائی پالیسی
اورپاکستان پر معاشی،سیاسی اورفوجی دباؤاسلام آبادکوبیجنگ کے مزید قریب لے
آیاہے۔سی پیک منصوبہ اسی بڑھتے ہوئے معاشی،سیاسی اورسلامتی کے مسائل پرہم
آہنگی کانتیجہ ہے۔
سی پیک منصوبے کے تحت چین نے2015اور2030کے درمیان پاکستان میں مختلف شعبوں
میں62ارب ڈالرزکی سرمایہ کاری کرنی ہے جس میں پاکستان کے فرسودہ بنیادی
ڈھانچے کوبہتربنانے کے علاوہ اس منصوبے کے تحت سڑکوں کے جال بچھانے،ریلوے
میں انقلابی تبدیلی لانا،شمالی اور جنوبی معاشی کوریڈور قائم کرنااوربیجنگ
کوگوادرکی بندرگاہ سے ملانے کاکام تیزی سے جاری ہے۔اس کے علاوہ اس منصوبے
کے تحت پاکستان میں توانائی کی کمی کوپوراکرنے کے پراجیکٹ بھی تکمیل کے
قریب ہیں اورمختلف صعنتی زون کی تعمیرکاکام بھی جاری ہے۔اس منصوبے کے
تحت2015سے2018تک تقریباً20ارب ڈالرزاور2018 سے 2020کے درمیان5ارب ڈالرزکی
اضافی سرمایہ کاری بھی کی گئی ہے۔ادھرافغانستان سے امریکی انخلاءکاعمل شروع
ہوچکاہے جس سے خطے میں افغان صورتحال پر مکمل غیرجانبدارہوکرکڑی نگاہ رکھنے
کی اشدضرورت ہے کہ کہیں افغانستان میں آپس کی خانہ جنگی اس خطے کوایک مرتبہ
پھرغیرمستحکم نہ کردے جس سے یقیناً دشمن قوتیں بھرپورفائدہ اٹھاکرہماری
قومی سلامتی کونقصان پہنچانے کی کوشش کریں گی۔
|