کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا

مودی کابینہ کے توسیع کی خبریں بڑے عرصے سے آرہی تھیں لیکن بار بار یہ معاملہ ٹل جاتا تھا ۔ اس دوران اچانک پتہ چلا کہ اس کے لیے شبھ مہورت مل گیا ہے اور چونکہ ہندو شاستروں کے مطابق شبھ گھڑی میں کیا جانے والا ہر کام کامیاب ہوتا ہے اس لیے موقع غنیمت جان کراسے کردیا گیا۔ یہ شبھ اور اشبھ(یعنی منحوس) گھڑی کی گتھی روزنامہ بھاسکر میں چھپنے والی ایک خبر نے سلجھا دی ۔ اس کے مطابق 20جولائی سے 118 دنوں تک کو ئی شبھ کام نہیں ہوسکے گا ۔ اس لیے پہلے ہی یہ کام نمٹا دیا گیا ورنہ 14؍ نومبر تک یہ معاملہ ٹل جاتا۔ توحید کے علمبرداروں بلکہ ملحدین تک کو یہ سب عجیب و غریب لگتا ہے مگر ان عقائد کے ماننے والے کروڈوں لوگ وطن عزیز میں بستے ہیں اور ان کی اچھی خاصی تعداد سرکار دربار میں بھی موجود ہے۔ ہندو عقائد کے مطابق اس دوران دنیا کو چلانے والے وشنو دیوتا آرام فرمائیں گے اور ان کی ذمہ داری بھولے ناتھ ادا کریں گےگویا اس عقیدے کے مطابق دیولوک میں بھی دیوتا آرام فرماتے ہیں لیکن ہمارے وزیر اعظم سال بھر بلا توقف یومیہ 18 گھنٹے کام کرتے ہیں ۔ کبھی من کی بات سناتے ہیں تو کبھی کابینہ کی تنظیم نو میں مصروف ہوجاتے ہیں یہ اور بات ہے کہ فی الحال ان کی ساری محنت رائیگاں جانےلگی ہے۔ اس لیے بہترہے وہ بھی آرام فرمائیں ۔

وزیر اعظم کا یہ حال ہے ملک کے کسی حصے میں انتخابات کا اعلان ہوجائے تو وہ اپنےوزیر داخلہ سمیت بے چین ہوجاتے ہیں ۔ صوبائی انتخابات کے دوران وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک علاقائی وزیر اعلیٰ سے دوبدو ہونا ان کو زیب نہیں دیتا ۔ جوش میں آکر وہ سڑک چھاپ تقاریر فرمانے لگتے ہیں اور اسی زبان میں اپنی رسوائی کا سامان کرتے ہیں ۔ وزیر داخلہ تو بیچارے میونسپل انتخابات کو بھی نظر انداز نہیں کرپاتے اور روڈ شو کے بعد اپنی بے عزتی کرواکر گلی سے دلی کی جانب لوٹ جاتے ہیں ۔ عوام نے ان دونوں کی اس کیفیت سے مصالحت کرلی ہے اور یہ توقع کرتی ہے کہ اگر انہیں انتخابی شعبدہ بازیوں سے فرصت ملے گی تبھی وہ ملک کی فلاح بہبود کا کام کریں گے ۔ فی الحال تھوڑا وقفہ ملا تو مودی جی نے اسے اپنی شبیہ سدھارنے کا ذریعہ بنایا۔ خود پسند نرگسیت کا شکار لوگوں کو اپنی شبیہ کے بگڑنے کا احساس کم ہی ہوتا ہے۔ آس پاس میں جمع چاپلوس لوگ انہیں ہمیشہ خوش فہمی کا شکار رکھتے ہیں لیکن کورونا کی وبا اور مغربی بنگال کی شکست نے یہ طلسم توڑ دیا ۔ سنگھ پریوار نے وزیر اعظم کی شبیہ سدھارنے کی مہم چھیڑ کر حکمت کے ساتھ انہیں خواب غفلت سے جاگنے کا احساس دلایا ۔ عالمی اخبارات نے بھی اس بیداری میں اپنا کردار نبھایا اور خمار کسی قدر اترا۔ مرکزی کا بینہ کی تشکیل نو اس کا نتیجہ ہے۔

کابینہ کی توسیع کے بعد کسی نے وزیر اعظم کو سمجھا یا کہ ایک درجن لوگوں کو ہٹا کر تین گنا زیادہ وزراء کو شامل کرنے کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ آپ کی ٹیم میں نکھٹو رہنماوں کی بھر مار تھی ۔ اس نقصان کی بھرپائی کے لیے وزیر اعظم نے نئے وزراء کی کلاس لگائی اور انہیں پروچن سنانے بیٹھ گئے ۔ اس میں انہوں نے حسبِ عادت یہ جھوٹ بولا کہ پرانے لوگوں کو ہٹائے جانے کا تعلق ان صلاحیت سے نہیں بلکہ ایک نظام سے ہے۔ یہ کون سا نظام ہے کہ 12 وزراء کو نکال کر 36 کے لیے جگہ بناتاہے ۔ اس نظام کے تحت کابینہ کے ناکام ترین وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو کیوں نہیں ہٹایا جاتا؟شارک مچھلیوں کو چھوڑ کر بے ضررجھینگوں پر نزلہ کیوں اتارا جاتا ہے؟ ان سوالات کا چونکہ کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہے اس لیے وزیر اعظم کے مشورے پر کوئی عمل نہیں کرے گا کہ’’ نئے وزراء پرانوں سے مل کر ان کے تجربات سے استفادہ کریں‘‘ ۔ اس لیے کوئی اس انجام ِ بد سے دوچار ہونا نہیں چاہتا ۔

اس کے ساتھ وزیر اعظم نے نئے وزراء کو بلاوجہ میڈیا میں بیان بازی سے منع کیا۔ اس پر بھی عملدر آمد ناممکن ہے کیونکہ جتنے بدزبان وزراء تھے ان میں سے کسی کو نہیں ہٹایا گیا مثلاً گری راج سنگھ ، اشونی چوبے، کشن ریڈی، سادھوی نرنجن ، سنجیو بالیان اور ’گولی مارو۰۰۰۰ ‘ کا نعرہ لگانے والے انوراگ ٹھاکر ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مودی یُگ میں بدزبانی نقصان دہ نہیں بلکہ فائدہ مند ہے۔ مودی جی اگر سوشیل مودی جیسے لوگوں کو وزیر بناتے تو انہیں یہ پروچن دینا ہی نہیں پڑتا اس لیے کہ وہ فطرتاً اچھے بول بولتے ہیں۔ کرناٹک کی بدنامِ زمانہ نئی وزیر شوبھا کرندلاجے نے فی الحال تو اپنے پرانے ٹویٹ ہٹا دیئے لیکن آگے اپنے آپ کو کیسے روک پائیں گی؟ وزیر بن جانے کے بعد تو دماغ اور بھی زیادہ آسمان پر اڑنے لگتا ہے۔ اسی طرح شاہین باغ پر تشدد کی دھمکی دینے والی میناکشی لیکھی اپنی زبان پر کیسے لگام لگا سکیں گی ؟ ایک اصول یہ بھی ہے کہ کچی کیری سے کھٹا اچار تو بن سکتا ہے مگر میٹھا مربع نہیں بن سکتا۔ مودی کے نئے پرانے وزراء کو پتہ ہے سنگھ کی سیاست میں گالیاں اونچے بھاو بکتی ہیں اور شرافت کی قدر دانی نہیں ہوتی ۔ اس طرح کی جملے بازی صرف میڈیا کے ذریعہ عوام کو بہلانے پھسلانے کے لیے کی جاتی ہے ۔

وزیر اعظم نے اپنے پروچن میں یہاں تک کہہ دیا کہ آپ کا چہرہ نہیں بلکہ کام چمکنا چاہیے۔ مودی یُگ میں تو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ خواب بیچے جاتے ہیں اس لیے صرف ٹویٹ اور چہرہ چمکتا ہے۔ وزیر اعظم نے صبح ساڑھے نو بجے دفترمیں آنے کا ناقابلِ عمل مشورہ بھی دے دیا حالانکہ اتنی جلدی تو سیاستداں سو کر بھی نہیں اٹھتے۔ اس کے علاوہ انہیں دفتر میں جاکر کرنا بھی کیا ہے؟ سارے فیصلے پی ایم او میں ہوتے ہیں ۔ ان پر بلا چوں چرا عمل کرنے کی ذمہ داری افسران کی ہے ۔ وہ بڑی مستعدی سے اپنا فرض منصبی نبھاتے ہیں اس لیے وزراء اگر مجبوری میں دفتر آبھی جائیں تو وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرنے اور سوشیل میڈیا پر دل بہلانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے ۔ یہ کام تو گھر بیٹھے بھی ہوسکتا ہے۔ تشکیل نو کے بعد یہ ہوا بنائی گئی کہ اب بہت قابل لوگوں کو وزیر بنایا گیا ہے ۔ اس دعویٰ کی پول اس وقت کھل گئی جب اترپردیش سے 6 مرتبہ ایوان پارلیمان میں پہنچنے کے بعد پہلی بار وزیر بننے والے پنکج چودھری اپنا حلف نامہ تک ٹھیک سے نہیں پڑھ سکے اور صدر مملکت کو ڈانٹنا پڑا۔ جس وزیر کا یہ حال ہے وہ صبح ۹ بجے دفتر آکر کیا مکھی مارے گا؟

مودی جی کے نومنتخب وزراء کی مذکورہ کلاس کے پہلی صف میں پانچ لوگ بیٹھے تھے ۔ ان میں سے صرف ایک ویریندر سنگھ کھٹک آر ایس ایس کی شاکھا سے آئے تھے ۔ باقی لوگوں میں سے پہلا نام بہا رکے آر سی پی سنگھ کاہے۔ ان کا تعلق جے ڈی یو سے ہے یعنی وہ اب بھی بی جے پی میں شامل نہیں ہیں ۔ جے ڈی یو پچھلے دو سالوں سے کابینہ میں اس لیے شامل نہیں ہوئی کیونکہ اس کو ایک وزیر کی علامتی بھیک منظور نہیں تھی اوروہ نمائندگی کے تناسب میں چار وزارتوں کا مطالبہ کررہی تھی لیکن بغض ِ معاویہ میں یعنی چراغ کو وزارت سے محروم رکھنے کی خاطر تین کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی۔ اس طرح مودی جی نے اپنے بجرنگ بلی ہنومان کی بلی چڑھا دی۔ ان کے بغل میں جیوتر دتیہ سندھیا بیٹھے تھےجن کی دادی نے کانگریس چھوڑ کر جن سنگھ میں سیاست چمکائی۔ ان کے والد اور وہ خود کانگریس میں وزیر رہے ۔ خالہ نے راجستھان بی جے پی کے ناک میں دم کررکھا ہے پھر بھی وزیر بن گئے ۔ جیوتردتیہ کو ہرانے والا بی جے پی رکن پارلیمان حیرت سے شکست خوردہ کو وزیر بنا دیکھ رہا ہے۔ ٹی ایم سی سے آنے والے نسیتھ پرمانک کو بھی غداری کا انعام دیا گیا۔

مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ نارائن رانے بھی ایک ناکام ترین سیاستداں ہیں۔ وہ پہلے شیوسینا میں تھے تو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنی پارٹی کو شکست سے بچا نہیں سکے۔ اس کے بعد کانگریس میں چلے گئے وہاں اپنی ساکھ قائم نہیں رکھ سکے ۔ اس کے بعد بی جےپی میں جانے کے بعد اپنے بیٹے کو پارلیمانی الیکشن لڑایا تو وہ بھی بری طرح ہار گیا ۔ وہ اب بھی بھاگوت یا مودی کے بجائے بال ٹھاکرے کو اپنا گرو مانتے ہیں اس کے باوجود دیویندرفڈنویس کو کنارے کرکے انہیں مرکزی وزیر بنایا گیا ۔آسام کے سابق وزیر اعلیٰ سربانند نے پانچ سال حکومت کی لیکن ان کو کامیابی کے باوجود ہٹا دیا گیا ۔ وہ بھی اے جی پی سے نکل کر بی جے پی میں آئے تھے ۔ ان کو دوبارہ اے جی پی میں جانے سے روکنے کے لیے پھر سے مرکزی وزیر بنایا گیا ۔ ان پٹے ہوئے سیاسی مہروں کے علاوہ پیچھے بیٹھنے والے میں پروفیسر بگھیل ایک زمانے میں کانگریس کے این ڈی تیواری اور ملائم سنگھ یادو کے باڈی گارڈ تھے ۔ انہیں سماجوادی پارٹی نے انہیں پہلی بار ایوان پارلیمان میں پہنچایا لیکن پھر وہ پالہ بدل کر بی جے پی میں آگئے اور وزارت سنبھال لی ۔ اتر پردیش کے کوشل کشور بھی سماجوادی پارٹی کے صوبائی وزیر تھے بعد میں بی جے پی کے اندر داخل ہوئے اور اب وزیر بن گئے ۔ اس لیے اس کابینی توسیع پر یہ کہاوت صادق آتی ہے ’ کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا‘۔ بھان متی کا یہ کنبہ کیا تماشے دکھاتا ہے یہ تو وقت بتائے گا ۔
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449771 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.