پاکستان میں گرمی کی شدت بڑھنے کے ساتھ ہی ملک بھر میں
بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بھی بے حد اضافہ ہو گیا ہے ۔ کئی کئی گھنٹے کی
لوڈشیڈنگ جاری ہے۔بجلی کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ
بھی بڑھ گیا ہے اور شہروں میں دس سے بارہ گھنٹوں جبکہ دیہی علاقوں میں سولہ
سے زائد گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔لوڈشیڈنگ سے جہاں صنعتوں کو نقصان
پہنچ رہا ہے وہیں عام تاجر بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں اور ان کا روزگار
بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ایک طرف توسال 2020کوویڈ کی نظر ہوگیا۔تاجر حضرات
کورونا کے باعث کاروبار نہ کرسکے اور اب گرمیوں میں کوویڈ میں کچھ کمی واقع
ہوئی ہے تو اسکو بجلی کی قلت نے متاثر کردیا۔
توانائی کے بحران نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اورملک میں
ہرطرف روشنیاں گل ہورہی ہیں۔صنعتی پیداوار‘ گھریلو زندگی اور سماجی ، معاشی
اور دفتری معمولات درہم برہم ہوچکے ہیں۔ معاشی ترقی بے روزگاری میں اضافہ
اور غربت کے پھیلاؤ میں بھی بجلی کی کمی اور اس کی قیمت میں اضافہ ایک اہم
عنصر ہے۔ ملک کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جو اس بجلی کی قلت سے متاثر نہ
ہو۔کھانے پینے سے لیکر پیداوار تک ہر چیز تو بجلی کے تابع ہے۔ اگر بجلی نہ
تو انسان ایسے ہوجاتا ہے جیسے بینائی کے بغیر ہو۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو بجلی نہیں مل رہی لیکن بجلی کے بل میں کوئی
کمی نہیں ہو رہی، الٹا اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اس وقت جو بجلی عوام کو میسر کی
جارہی ہے وہ نہ ہونے کے مترادف ہے۔ عام روٹین میں جو وولٹج مہیا کیے جاتے
ہیں وہ 220 یا اس سے زائد ہوتے ہیں مگر اس وقت جو وولٹج عوام کو مل رہے ہیں
وہ صرف 100ہیں۔ جو گھریلو برقی آلات کونہیں چلا سکتے ۔ لوگ اتنی گرمی میں
پانی سے بھی تنگ ہیں کیونکہ 100وولٹج سے واٹر پمپ نہیں چلتے بلکہ سڑجاتے
ہیں اورعوام پانی کے لیے باہر نہروں یا نلکوں کا رخ کرتے ہیں۔ فریج کا چلنا
تو ممکن ہی نہیں بلکہ اس گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے کئی سوروپوں سے
زائد کا برف بازار سے خرید کر استعمال کرنا پڑتا ہے جبکہ بجلی کا بل اپنی
آب و تاب کے ساتھ آرہا ہے۔بجلی ملے نہ ملے مگر بل ہر بار گھر کے دروازے پر
پہنچ جاتا ہے۔
پاکستان میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہونا کوئی نئی بات نہیں یہ تو اب قومی
اثاثہ بنتی جارہی ہے۔جس کو پورا رکھنے کے لیے ہر قدم اٹھانا منظور ہے۔
لوڈشیڈنگ کا مسئلہ نئے پاکستان یا پرانے پاکستان کا نہیں ہے یہ مسئلہ تو
ہردور جوں کا توں رہا ہے۔ نوازشریف، پرویز مشرف ، زرداری اور اب عمران خان
صاحب کی حکومت میں بھی لوڈشیڈنگ اپنی آب و تاب سے جاری ہے۔ ہر دور میں اس
پر قابو پانے کے بلندو بانگ دعوے کیا جاتے رہے مگرحقیقت میں مکمل قابوپانے
کے لیے خاص اقدام نہیں اٹھائے۔ ہر حکومت نے تھوڑا بہت قدم اٹھا کر یہ ثابت
کرنے کے کوشش کی جیسے لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کردیا ہے۔ گرمی کی شدت جون کے
وسط سے لیکر اگست تک بھرپور عروج پر ہوتی ہے اور ان ماہ میں ہی حکومت کی
کارکردگی کا پتہ چلتا ہے۔
سب کو معلوم ہے سیاسی نعرے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ بس عوام کو جھوٹی تسلی دیکر
اپنا وقت پورا کرو ۔ ابھی کچھ دن پہلے عمران خان صاحب نے اس لوڈشیڈنگ کا
سختی سے نوٹس لیا جس کے بعد خانصاحب کے چہیتے وزراء کے دعوے بھی سامنے آگئے
کہ پاکستان کے پاس تو بجلی اتنی ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کو فروخت کرسکتا ہے
مگر دعوے محض دعوے ہوتے ہیں کیونکہ آج بھی لوڈشیڈنگ کا جن بے قابو ہے ۔ ایک
طرف گرمی نے جینا مشکل کیا ہوا ہے دوسری طرف لوڈشیڈنگ نے بھرپور ساتھ دیا
ہوا ہے۔ پچھلے دور میں تو گھنٹہ یا دوگھنٹہ ٹائمنگ تھی لائٹ جانے اور آنے
کی مگر اب تو نہ پل کا پتا اور نہ کل کا۔
گرمی کی شدت کو دیکھ کر سکولوں کی چھٹیاں کردی جاتی ہیں ، دفتری اوقات میں
تبدیلی کردی جاتی ہے مگر اس کا کیا کریں کہ گھر بیٹھے ٹائم میں جب گرمی آگ
برسا رہی ہوتی ہے اور اوپر سے بجلی بھی نہ ہوتو پھر گرمی سے بچنے کے لیے
کیافارمولااستعمال کرنا چاہیے؟مجھے یاد ہے میں ہر سال لوڈشیڈنگ جب عروج پر
ہوتی ہے اور عوام کا جینا مشکل ہورہا ہوتا ہے تو عوامی فرمائش پرایک دو
کالم لکھنے پڑتے ہیں اوریہ بھی پتہ ہے کہ کالم لکھنے سے اس کا حکومتی سطح
پر کبھی کوئی اثر نہیں ہوگا مگر اتنا ضرور ہے کہ اپنا ضمیر مطمئین ہوجاتا
ہے کہ عوام کی پریشانی حکام بالا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کردیا ہے ۔
حکومت کو چاہیے کہ بجلی کی پیداوار بڑھانے اور ڈیم بنانے میں سیریس ہو
کیونکہ کہ مسائل ہمارے مستقبل کے دشمن ہیں جن کی وجہ سے ہم نقصان اٹھا سکتے
ہیں۔ میٹرو بس یا اورنج ٹرین ہو، ہاؤسنگ سکیم ہو یا قرضہ سکیم ، ان سب سے
زیادہ ضروری ہے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ۔ اس منصوبے پر عملدرآمد کرنے کے لیے
حکومت ترجیح بنیادوں پر اقدام اٹھا نا ہونگے کیونکہ ہر کاروبار، ادارہ،
انڈسٹریز اور انسانی ضروریات زندگی کا تعلق بجلی سے ہے اگر بجلی نہ ہو تو
ہر شے متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ لودشیڈنگ کے خاتمے
کے مسئلہ جلد ازجلد حل کرے تاکہ عوام سکون سے جی سکے۔
|