افغانستان اب ’’اسلامی امارات افغانستان ‘‘ کی جانب بڑھ
رہا ہے۔ پاکستان کی سرحد پر چمن کی دوسری طرف ویش علاقہ میں طالبان نے قبضہ
کر کے افغانستان کا پرچم اتار کر اپنا پرچم لہرا دیا۔ دیگر کئی سرحدی
علاقوں کی یہی صورتحال ہے۔ کابل میں آئیندہ کیا ہو گا، واضح نہیں۔ گوماگوں
کی حالت میں افغانستان امن عمل کے لئے پاکستان میں کانفرس ہونے والی ہے۔ جس
میں افغان صدر اشرف غنی کی شرکت متوقع نہیں۔ دنیا پاکستان کو طالبان کے
حامی کے طور پر دیکھتی ہے۔ 1996میں جب طالبان نے افغانستان میں حکومت
سنبھالی تو پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا۔ اب
ایک بار پھر طالبان پیش قدمی کر رہے ہیں۔ شمال میں بھی ان کے معرکے ہو رہے
ہیں۔ ان علاقوں میں طالبان نئے قوانین نافذ کر رہے ہیں۔ خواتین پر محرم کے
بغیر بازاروں میں جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ مرد حضرات داڑھی رکھنے کے
پابند ہوں گے۔ ان علاقوں میں سگریٹ نوشی پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلاء کے بعد طالبان کی واپسی کے لئے کئی
علاقوں میں معرکہ آرائیاں جاری ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے اسی تناظر میں کہا کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی
میز پر لانے کے لیے پاکستان سے زیادہ کوششیں کسی نے نہیں کیں۔پاکستان ہمیشہ
بات چیت سے معاملات حل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔تاشقند میں وسطی اور
جنوبی ایشیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے افغانستان کے صدر اشرف غنی
کی جانب سے افغان تنازع میں پاکستان کے منفی کردار کے الزام پر جواب دیتے
ہوئے کہا کہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ افغانستان میں گڑبڑ سے جو ملک سب
سے زیادہ متاثر ہوگا وہ پاکستان ہے۔یہ درست ہے۔ گزشتہ 15 برسوں میں 70 ہزار
جانوں کا نقصان اٹھانے والا ملک پاکستان ہے۔ اس لئے اسلام آباد کابل میں
امن چاہتا ہے۔ تنازع میں اضافہ وہ سب سے آخری چیز ہوگی جو پاکستان چاہے گا۔
طالبان کی پیش قدمی کے دوران طالبان چاہتے ہیں کہ ان کے 7 ہزار قیدرہا کئے
جائیں۔ ان کے بدلے وہ 3 ماہ تک جنگ بندی پر بھی رضا مند ہیں۔ ایک افغان
عہدیدار نادر نادری کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ ایک بڑا مطالبہ ہے اور
جنگجوؤں نے طالبان قیادت کو اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے نکالنے کا بھی
مطالبہ کیا ہے۔ طالبان چاہتے تھے کہ افغانستان کے شہروں کے اندر اشرف غنی
حکومت کے ساتھ جنگ نہ ہو بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سرکاری فورسز ہتھیار ڈال دیں۔
طالبان کی شمالی حصے میں بڑی پیش قدمی کے بعد افغان حکومت کے پاس صوبائی
دارالحکومتوں تک محدود قبضہ ہے۔افغانستان میں سیکیورٹی کی خدشات کے باعث
اپنے شہریوں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی جانے لگی ہے اور فرانس اس حوالے سے
دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے اور انہیں کابل سے باہر لے جانے کے لیے مفت
پروازوں کی پیش کش کردی ہے۔قبل ازیں ہتھیار ڈالنے والے سرکاری اہلکاروں کے
معاملات دیکھنے والے طالبان کے کمیشن کے سربراہ نے افغانستان کے شہروں میں
مقیم لوگوں پر زور دیا تھا کہ وہ ان سے رابطہ کریں۔غیرملکی افواج نے 31
اگست تک افغانستان سے انخلا مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ عملی طور صورت
حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔
افغانستان میں تعینات امریکا کے اعلیٰ کمانڈر نے کابل میں ایک تقریب میں
اپنا منصب چھوڑ دیا تھا، جو امریکا کی افغان جنگ کا علامتی خاتمہ
تھا۔امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کے اندر خانہ جنگی کے خدشات ظاہر
امریکی فوجی کمانڈر ظاہر کر رہے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ افغان فورسز ان کی
فضائی مدد کے بغیر کمزور ہوں گے۔ طالبان نے بھی کارروائیوں میں تیزی لائی
ہے۔کابل میں قائم امریکی سفارتی مشن کی سیکیورٹی کے لیے امریکا کے 650 فوجی
افغانستان میں ہی موجود رہیں گے۔ امریکی صدر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ان
کی فوج افغانستان میں جنگ سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھی وہ پورے ہوگئے
ہیں۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین افغانستان میں رونما ہونے والی نئی سیاسی
صورتحال میں اسلام آباد کے مشوروں کا خیر مقدم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
مگروہ کسی بھی قسم کی اورکسی سے کوئی ڈکٹیشن قبول نہ کرنے کا عزم رکھتے
ہیں۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی قسم کی ہدایت قبول کرنا ہمارے قوانین کے خلاف
ورزی ہے۔طالبان پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں۔ پاکستان
اور افغانستان اسلامی برادر اور پڑوسی ملک ہیں۔دونوں کے ثقافتی، مذہبی اور
تاریخی اقدار مشترک ہیں۔ پاکستان کابل میں صرف عوام کی خواہشات پر مبنی
حکومت کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔طالبان نے وسطی افغانستان کے شہر
غزنی کا گھیراؤ کر لیا ہے اور افغان سیکیورٹی فورسز سے لڑائی کے لیے شہریوں
کے گھروں میں مورچے بندی کر لی ہے۔یہ طالبان کا صوبائی دارالحکومت پر تازہ
ترین حملہ ہے ۔ غیرملکی افواج کے جانے کے بعد ان کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے امریکا نے خاموشی سے بگرام ایئربیس خالی کردی تھی۔ پینٹاگون نے
کہا کہ امریکی فوج کا 90 فیصد انخلا مکمل ہوچکا ہے۔ امریکا سابق صدر ڈونلڈ
ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ایک معاہدے کے تحت افغانستان سے انخلا پر راضی ہوا
تھا اور جو بائیڈن نے ان فوجی رہنماؤں کی توقعات پر پانی پھیر دیا جو
افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی برقرار رکھنے کے حامی
تھے۔افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل آسٹن ملر نے یہاں تک خبردار
کیا کہ ملک خانہ جنگی کی جانب جاسکتا ہے۔مگر افغانستان سے انخلاء کے
مخالفین کامیاب نہ ہو سکے۔ اس انخلاء کے بعد افغانستان کے مستقبل کے بارے
میں بات چیت ہو رہی ہے۔ اگر طالبان کی واپسی ہوئی اور ملک میں اسلامی شریعت
کے نفاذ کی مہم چلی تو پاکستان پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
|