زیب داستاں
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
افغانستان ایک بار پھر ایک بڑے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور یہ بات یقینی
ہے کہ افغانستان میں اگر بد امنی اور خانہ جنگی کی لہر اٹھتی ہے تو اس سے
سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ایک بار پھر پاکستان ہی ہو گا۔ کیا ہم اس
کے لئے تیار ہیں؟ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ نہ تو قومی یا سرکاری سطح پر اس
طوفان کی شدت کا بھرپور احساس ہے اور نہ ہی اس کے حوالے سے کوئی منصوبہ
بندی کی گئی ہے۔
یہ سلسلہ پچھلے چالیس سالوں سے جاری ہے۔ 1979 کے اواخر میں جب سویت یونین،
افغانستان پر چڑھ دوڑا اور اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومتیں بنانے، توڑنے لگا
تو پاکستان میں جمہوری حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ جنرل محمد ضیا الحق
حکمران تھے۔ نہ پارلیمنٹ تھی نہ کوئی جمہوری ادارہ۔ یعنی عوام کی نمائندگی
یا ترجمانی کا کوئی نظام موجود نہ تھا۔ ایسے میں جنرل ضیا الحق نے فیصلہ
کیا کہ ہم مذہبی، اخلاقی اور ہمسائیگی کی بنیادوں پر اپنے افغان بھائیوں کا
ساتھ دیں گے۔ پاکستان میں کوئی قوت اس فیصلے کو چیلنج کرنے والی نہ تھی۔
چونکہ یہ فوج کے سربراہ کا فیصلہ تھا اس لئے اسے فوج کے فیصلے کا درجہ حاصل
ہو گیا۔ فوج اس وقت اقتدار پر بھی قابض تھی اس لئے یہ حکومت پاکستان کا
فیصلہ بن گیا۔ کوئی آواز ایسی نہ اٹھی کہ ہمیں خود کو اس آگ سے دور رکھنا
چاہیے۔ اگر اٹھی بھی تو اسے کوئی اہمیت نہ دی گئی۔ روس کے مقابلے میں افغان
بھائیوں کا ساتھ دینا ایک مقبول فیصلہ تھا اس لئے ایک اسلامی جذبے کے حوالے
سے پاکستانی عوام نے بھی اس فیصلے کو دل و جان سے قبول کر لیا۔ یہاں سے
جہاد افغانستان کا آغاز ہوا۔ امریکہ کو روس کے قرض چکانے کا موقع مل گیا
لہذا اس نے دل کھول کر پاکستان کی حمایت کی۔ کئی مغربی ممالک بھی اس ـ"جہاد"
میں شامل ہو گئے۔
پاکستان عملی طور پر جہاد افغانستان کا بیس کیمپ(base camp) بن گیا۔ اسلحہ
کے ڈھیر لگنے لگے۔ ڈالروں سے بھری بوریاں آنے لگیں۔ پاکستان اس جہاد کا ہر
اول دستہ بن گیا۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اگر سرخ ریچھ، افغانستان پر
قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اگلی باری ہماری ہو گی۔ جہاد کے جذبے نے
پاکستان میں بھی کئی جہادی گروپ پیدا کر دئیے۔ ان جہادی گروپس کی سرکاری
طور پر سرپرستی کی گئی۔ امریکہ اور مغربی ممالک بھی " اسلامی جہاد " کے
زبردست حامی بن گئے۔ انہوں نے نہ صرف افغانستان میں روسیوں سے لڑنے والے
مجاہدین کو ہر طرح کے وسائل فراہم کئے بلکہ پاکستانی مجاہدین کے سرپرست بھی
بن گئے۔ معاملہ یہیں تک نہ رکا۔ دنیا بھر سے جہاد کا جذبہ اور تڑپ رکھنے
والے نوجوان، افغانستان کا رخ کرنے لگے۔ یہ جہاد بیس سال جاری رہا۔ روس کو
شکست ہوئی۔ مجاہدین کی تنظیمیں معاملات کو نہ سنبھال سکیں تو باگ ڈور
نوجوان مجاہدین نے سنبھال لی، جو طالبان کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان طالبان
نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔
ایک بڑی فتح حاصل کرنے کے بعد، طالبان دنیا کے ساتھ اچھے رابطے نہ رکھ سکے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان نے طالبان کی حکومت کو فورا تسلیم
کر لیا۔ لیکن بات زیادہ آگے نہ بڑھی۔ امریکہ اور مغرب کی سرپرستی میں شروع
ہونے ولا جہاد، اب نئے ٹھکانے تلاش کرنے لگا۔ نتیجہ یہ کہ طالبان کی حکومت
کو گرانا ، ایک بڑی ترجیح بننے لگی۔
2001 میں، نائن الیون ہوا تو اس وقت بھی پاکستان میں نہ جمہوریت تھی، نہ
کوئی اسمبلی ، نہ عوام کی نمائندگی کا کوئی فورم جہاں یہ بحث ہوتی کہ
پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف، ضیا الحق کی نسبت کمزور ثابت
ہوئے۔ انہوں نے امریکی مطالبات من و عن تسلیم کر لئے۔ 1980 کی دہائی کے
برعکس، اب پاکستان نے افغانوں کے ساتھ مل کر بیرونی حملہ آوروں کے خلاف
لڑنے کے بجائے، مشرف نے یہ فیصلہ کیا کہ اب پاکستان، بیرونی حملہ آور (امریکہ)
کے ساتھ مل کر، افغانوں کے خلاف لڑے گا۔ یہ ایک عجیب و غریب فیصلہ تھا۔ اگر
ہم میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ افغانوں کا ساتھ دیتے اور حملہ آوروں کے
خلاف لڑتے تو کم از کم اتنا ہی کر لیتے کہ اس آگ میں نہ کودتے لیکن امریکہ
کی دھمکی نے ہمیں ڈرا دیا۔ ہمیں باور کرایا گیا کہ پاکستان نے امریکہ
کاساتھ نہ دیا تو اسے پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا جائے گا۔ مشرف کے اس
فیصلے کو عوامی تائید حاصل نہ ہوئی۔ امریکہ کے ساتھ مل کر افغان بھائیوں کو
مارنا کسی کے لئے بھی قابل قبول نہ تھا لیکن ڈکٹیٹڑ شپ اسی کا نام ہے۔
آمروں کے منہ سے نکلنے والا فیصلہ ہی قوم کی تقدیر بن جاتا ہے۔ ایک ڈکٹیٹر
نے کہا کہ افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر حملہ آوروں کو مارنا، ہماری مذہبی
اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ دوسرے ڈکٹیٹر نے کہا کہ حملہ آوروں کے ساتھ مل کر
افغان بھائیوں کو مارنا وسیع تر قومی مفاد میں ہے۔ سو ہمیں ایک ایسی جنگ
میں الجھا دیا گیا جو کسی طرح بھی ہماری نہ تھی۔
بیس سال اپنے مہلک تریں ہتھیاروں کے استعمال کے باوجود دنیا کی سپر پاور (روس)
عبرتناک شکست کھا کر واپس چلی گئی۔ اگلے بیس سال دنیا کی ایک اور سپر پاور
(امریکہ) شرم ناک شکست کھا کر افغانستان چھوڑ گئی۔ نہ روسی اپنے مقاصد حاصل
کر سکے، نہ امریکی۔ رہا پاکستان تو ہمیں آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ہمارے
مقاصد کیا تھے اور ہم نے چالیس سال اپنے آپ کو پرائی جنگوں میں ملوث رکھ کے
کیا کمایا۔ حال یہ ہے کہ آج نہ امریکہ ہمارا دوست ہے، نہ مغرب ہماری خدمات
کا اعتراف کرتا ہے، نہ روس کو ہم خوش رکھ سکے، نہ افغان حکمران ہماری طرف
دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور نہ ہی طالبان ہم سے راضی ہیں۔ لاکھوں
مہاجرین مستقل طور پر یہاں آن بسے ہیں۔ ہتھیاروں کا کلچر ہمیں تحفے میں ملا
ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں نے ملک کو خون میں نہلا دیا۔ ستر ہزار سے زیادہ
جانیں اس جنگ کی نذر ہو گئیں۔ اربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ جن تنظیموں
کو ہم نے افغان جہاد کے لئے پالا پوسا تھا آج ہم انہیں کالعدم قرار دے رہے
ہیں۔ دہشت گردی کی وارداتیں پھر سے شروع ہو گئی ہیں۔
جب عوام کے منتخب نمائندوں کے بجائے، فیصلے ڈکٹیٹروں کے ہاتھ میں چلے جائیں
تو وہ قوم اور ملک کے بجائے اپنے مفاد کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ آج
ہم آمروں کی بوئی فصل کاٹنے پر مجبور ہیں۔ افغانستان میں خانہ جنگی کی آگ،
الاو میں تبدیل ہو رہی ہے لیکن پاکستانی قوم کو کچھ خبر نہیں کہ ہمارے
صاحبان اقتدار کیا سوچ رہے ہیں اور ہم پر کیا گزرنے والی ہے۔ |