جشن آزادی پوری قوم کو مبارک ہو مگر اس مبارک
موقع پر ذرا یہ بھی غور کر لیجئے کہ قوم کے جن محسنوں کی بدولت آج ہم آزادی
کا جشن منا رہے ہیں ، جنہوں نے اپنی پوری پوری زندگیوں اور زندگی کی ہر جمع
پونچی کو اس راہ میں قربان کر دیا اور ہمارے لیے آزادی کی شمع جلائی ،جنہوں
نے اس ملک کا تصور اور نام دیا ، کیا ہم نے ان کے ساتھ ایک مہذب اور باوقار
قوم جیسا سلوک کیا ؟
دنیا بھر کی قوموں نے اپنےان محسنوں کو جنہوں نے وطن اور آزادی دلانے میں
کردار ادا کیا تھا انہیں یاد رکھا ، انہیں عزت اور مقام دیا ۔لیکن ہم دنیا
کی وہ واحد قوم ہیں کہ جس محسن نے وطن کا تصور دیا ، و طن کا نام دیا اور
وطن کے لیے تحریک آزادی کی بنیاد رکھی اسے قبر کے لیے دو گز جگہ بھی نہ دے
سکے ۔جی ہاں !وہ عظیم محسن چوہدری رحمت علی ؒ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے
1915ءمیں بزم شبلی میں علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا اور پھر 1933ء میں اپنے
مشہور زمانہ اور تاریخی پمفلٹ Now or Never کے ذریعے پاکستان کے نام سے
علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا اور پاکسان نیشنل موومنٹ کے نام سے باقاعدہ
تحریک پاکستان کا آغاز بھی کیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب متحدہ ہندوستان میں مذہب
کی بنیاد پر علیحدہ وطن کا تصور بھی گناہ سمجھا جاتا تھا ۔ یہاں تک کہ
قائداعظم اور علامہ اقبال سمیت برصغیر کے کئی بڑے راہنما اس کے بہت بعد تک
بھی متحدہ ہندوستان کے حامی رہے ۔ لیکن چونکہ مغرب کی نقالی دور غلامی سے
ہی ہماری نفسیات میں رچ بس چکی ہے اس لیے ہم اسی بات کو سچ مانتے ہیں جس کا
آغاز مغرب سے ہوتا ہے ۔ اسی بنیاد پر پاکستان کی واضح تاریخ کوطرح طرح سے
مسخ کیا جاتارہا اور ان مسخ شدہ مغربی تصورات میں سے ایک بھی تھا کہ
پاکستان کا تصور علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد میں دیا ۔ جبکہ اس ضمن
میں پہلا سوال تو خود بخود پیدا ہوتاہے کہ علامہ اقبال نے اگر 1930ء میں
علیحدہ وطن کا تصور دیا تھا تو پھرگول میز کانفرنسز ( 1931ء تا 1933ء
)منعقدہ لندن میں متحدہ وفاق کے حمایتی کیوں رہے ؟ علامہ اقبال ان دنوں
پنجاب کونسل میں یونینسٹ پارٹی کے رکن تھے جو مسلم لیگ کی حمایتی تھی ، ایک
وفاق کی حامی تھی ،تقسیم کے سخت خلاف تھی اور اقبال خطبہ الہ آباد کے بعد
بھی یونینسٹ پارٹی کے رکن رہے ۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ علیحدہ ریاست اس وقت
تک نہ تو مسلم لیگ کا خوا ب تھا اور نہ ہی علامہ اقبال کا تصور تھا ۔ یہ
مسلم صوبوں کا مطالبہ تھا جو اس سے قبل 1927ء میں آل پارٹیزکانفرنس(جس کے
اقبال صدر رہے ) منعقدہ دہلی کی قراردادوں میں، 1928 میں نہرو کمیٹی کے رو
برو اور اسی سال یعنی 1928 میں ہی یونینسٹ پارٹی کے اخبار "انقلاب" میں
مرتضیٰ خاں میکش کے مضامین میں بھی پیش کیا جا چکا تھا ۔ علامہ اقبال نے
بھی اسی مطالبے کو الہ آباد میں دہرایا تھا ۔
خطبہ الہ آباد دسمبر 1930ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں دیا گیااور
اکتوبر 1931ء میں علامہ اقبال نے لندن کے مشہور انگریزی اخبار "دی ٹائمز "
کو ایک خط لکھا جو 12 اکتوبر 1931 ء کو اس اخبار کے صفحہ نمبر 8 پر
North-west India, Muslim Provinces کے عنوان سے شائع ہوا ۔ یہ خط آج بھی
ریکارڈ پر موجود ہے ۔ اس کھلے خط میں علامہ اقبال نے برطانیہ کے مشہور شاعر
ایڈورڈ تھامسن سے مخاطب ہو کر واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ اس نے (اسی اخبار
کی 3 اکتوبر 1931ء کی اشاعت میں ) علامہ کے خطبہ الہ آباد کو "پان اسلامک
سازش "ثابت کرنے لیے توڑ موڑ کر پیش کیا ہے ۔ علامہ نے ایڈورڈ تھامسن پر اس
کھلے خطے میں واضح کیا کہ :"میں نے خطبہ الہ آباد میں برطانوی سلطنت سے
باہر کسی مسلم ریاست کی بات نہیں کیتھی ۔ درحقیقت مسلم صوبوں کے حوالے سے
میری تجویز محض اس خیال کو آگے بڑھاتی ہےکہ ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پر
منظم مسلم صوبوں کا ایک سلسلہ ایشیا کے پہاڑی علاقوں کی بھوکی نسلوں کے
خلاف ہندوستان اور برطانوی سلطنت کے لیے ایک دفاعی مورچے کا کام کرے گا ۔"
یاد رہے کہ گول میز کانفرنسز کا آغاز 10 نومبر 1930ء کو ہوا اور ان
کانفرنسز میں کانگریس کا مطالبہ یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات وفاق کو
دیے جائیں جبکہ مسلم لیگ کا مطالبہ یہ تھا کہ جو متحدہ وفاق قائم ہو اس کے
تحت صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے جائیں تاکہ مسلم اکثریتی صوبوں
کو فائدہ حاصل ہو سکے ۔ اسی تناظر میں اگلے ماہ یعنی دسمبر 1930ء میں علامہ
اقبال نے خطبہ الہ آباد میں شمال مغربی ہندوستان میں علیحدہ صوبوں کی بات
کی تھی اور اسی بات کو انہوں نے 10 ماہ بعد یعنی اکتوبر 1931ء میں دی ٹائمز
کو لکھے اپنے کھلے خط میں بھی واضح کیا ۔
اس خط سے یہ بھی واضح ہو جاتاہے کہ سب سے پہلے مغربی میڈیا نے اس پروپیگنڈا
کو پھیلایا کہ خطبہ الہ آباد میں علیحدہ مسلم ریاست کا تصور دیا گیا تھا
اور اس جھوٹ کومعتبر بنانے کے لیے نامور انگریزی شاعر ڈاکٹر ایڈورڈ تھامسن
کا انتخاب کیا گیا تھا ۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے 1940ء کی قرارداد لاہور
کو انڈین میڈیا نے قرارداد پاکستان قرار دے دیا تھا ۔ بہرحال دی ٹائمز کو
لکھے اس خط میں علامہ اقبال نے مغربی میڈیا اور ایڈورڈ تھامسن پر واضح کر
دیا تھا کہ انہوں نے صرف مسلم صوبوں کی بات کی تھی ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ
مغربی میڈیا اس کے باوجو دبھی پروپیگنڈا پھیلانے سے باز نہیں آیا اور
ایڈورڈتھامسن نے بھی علامہ اقبال کی ایک کتاب کے تبصرہ میں اس جھوٹ کو سند
بخشنے کی ناکام کوشش کی ۔ اس کے بعد علامہ اقبال نے دو خطوط مزید لکھے جو
تاریخی حیثیت کے حامل ہیں ۔ ان میں سے پہلا خط علامہ اقبال نے 4 مارچ 1934ء
کو براہ راست ایڈورڈ تھامپسن کو لکھا۔ یہ خط بھی ریکارڈ پر موجود ہے اور اس
میں علامہ نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ علیحدہ مملکت پاکستان کی سکیم
چوہدری رحمت علی کی سکیم تھی اور جہاں تک خطبہ الہ آباد کا تعلق ہے تو وہ
انڈین کنفیڈریشن کے اندر مسلم صوبوں کی سکیم تھی۔
اس کے دو دن بعد یعنی 6مارچ 1934ء کو علامہ نے ایک اور خط علامہ راغب احسن
کے نام لکھا ۔ علامہ راغب احسن کا نام تاریخ میں کسی تعارف کا محتاج ہرگز
نہیں ۔ وہ محمد علی ثانی کہلاتے تھے اور محمد علی جوہر کے رسالہ " کامریڈ"
کے اعزازی مدیر بھی رہے ۔ ان دنوں وہ بطور صحافی "اسٹار آف انڈیا" کے ساتھ
منسلک تھے جب علامہ اقبال نے ان کو یہ خط لکھا ۔ مناسب ہوگا کہ اس خط کاوہ
حصہ ترجمے کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے جو موضوع سے متعلق ہے ۔
علامہ اقبال لکھتے ہیں :
" میں اس خط کے ساتھ اپنی کتاب کے بارے میں ایڈورڈ تھامسن کا تبصرہ ارسال
کر رہا ہوں ۔ ایڈورڈ تھامسن انگلستان کی مشہور ادبی شخصیت ہیں ۔ یہ تبصرہ
مختلف وجوہات کی بناء پر دلچسپ ہے اور شاید یہ تبصرہ آپ کے جریدہ میں اشاعت
کے لیے مناسب ہی رہے ۔ دوسری کاپی اسٹار آف انڈیا (کلکتہ) کو روانہ کر
دیجئے ۔ براہ کرم نوٹ فرما لیں کہ اس تبصرہ کا منصف اس مغالطے کا شکار ہے
کہ جیسے میری تجویز (خطبہ الہ آباد) پاکستان کی اسکیم سے تعلق رکھتی ہے ۔
جہاں تک میری تجویز کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ انڈین وفاق کے اندر ایک مسلم
صوبہ تخلیق کیا جائے جبکہ پاکستان سکیم کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے شمال
مغرب کے مسلم صوبوں کا ایک ایسا وفاق تشکیل دیا جائے جو انڈین فیڈریشن سے
علیحدہ ہو اور انگلستان سے براہ راستہ وابستہ ہو ۔ آپ اپنے تعارفی کلمات
میں اس نکتہ کی وضاحت کے ساتھ ساتھ " اسٹار آف انڈیا" کے مدیر کی توجہ بھی
اس نکتہ کی جانب منعطف کروادیجئے ۔"
علامہ اقبال کے اس قدر واضح موقف کے بعد مزید بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔
تاہم تصدیق کے لیےفرزند اقبال (جاوید اقبال ) کے مختلف ٹی وی چینلز کو دیے
گئے انٹرویوز بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں جن میں وہ اکثر یہ کہتے نظر آتے
ہیں :
" جہاں تک الہ آباد کے خطبے کا تعلق ہے اُس میں علیحدگی کا تصور ہی نہیں ہے
۔ خطبہ الہ آباد کا تصور بالکل وہی چیز ہے جو کیبننٹ مشن پلان کا تصور تھا
یعنی : Full autonomy within the Indian Union۔ یعنی انڈین یونین کے اندر
رہتے ہوئے خود مختاری ۔ ۔ ہمیں دنیائے اسلام کو چھوڑ دینا چاہیے ۔ ہمیں
اپنے ریجن میں یورپی یونین کی طرز پر ایک یونین بنانی چاہیے جو سارک ممالک
پر مشتمل ہو تو یہ ایک مثبت قدم ہو گا۔ ۔۔۔ یہی تصور خطبہ الہ آباد میں تھا
کہ ہندو مسلم مشترکہ آرمی ہو جو شمال مغرب کی حملہ آور قوتوں کے خلاف
ہندوستان کا دفاع کر سکے ۔ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ علامہ اقبال کا یہ خواب
پورا نہیں ہوا ۔ ۔۔ اب بھی یہ یونین بن سکتی ہے مگر ملاں نہیں بنانے دے گا
ٗ"
یہ فرزند اقبال کے الفاظ ہیں ۔ اب آپ علامہ اقبال کا اکتوبر 1931ء والا خط
دوبارہ پڑھیے ۔ا س میں بھی عین وہی موقف ہے جو جاوید اقبال کی وضاحت میں ہے
۔
Indeed, my suggestion regarding Muslim provinces merely carries forward
this idea. A series of contented and well-organized Muslim provinces on
the North-West Frontier of India would be the bulwark of India and of
the British Empire against the hungry generations of the Asiatic
highlands."
یعنی مسلم صوبوں کی ایک ایسی سیریز جو وسط ایشیائی بھوکی نسلوں کے خلاف
ہندوستان کے لیے دفاعی مورچہ کا کردار ادا کریں ۔ یہ علامہ اقبال کے خطبہ
الہ آباد کا اصل تصور تھا ۔ اس کے برعکس چوہدری رحمت علی کا تصور پاکستان
کیا تھا ۔ آئیے خود ان کے اپنے الفاظ میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں :
’’اس لیے یہ کمانڈمنٹ کہ ’’مائنورٹی ازم ‘‘سے بچئے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ
ہمیں اپنی اقلیت کو ہندو علاقوں میں نہیں چھوڑنا چاہیے ، بے شک برٹش اور
ہندو انہیں نام نہاد دستوری تحفظات ہی کیوں نہ دیں ۔ کیونکہ کسی قسم کے
تحفظات بھی قومیت کانعم البدل نہیں ہوسکتے جو کہ ان کا پیدائشی حق ہے ۔۔۔اس
کا مطلب ان کو پشت در پشت ڈی نیشنلائز کرنے والی ’’ انڈین ازم ‘‘ کی (ہندو)
طاقتوں کے دوبدو رکھناہے ، جس کا مقصد ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ وہ
ہم سب کو اپنے اندر جذب کر لے ۔ ۔۔ ( اس کا مطلب ) اُس سانحہ کے نتائج کو
بھلا دینا ہے جس سے ہماری اقلیتوں کو گزرنا پڑا ، جنہیں ایسے وقت میں جو
ہمارے (مسلمانوں کے ) لیے آج سے زیادہ بہتر تھا اور جو گارنٹی اب ممکن ہے
اس سے بہتر گارنٹی(بھی) ۔۔۔ ہم نے سسلی ، اٹلی ، فرانس ، پرتگال ، سپین،
آسٹریلیا اور ہنگری میں چھوڑا ۔۔ وہ (مسلم)اقلیتیں اب کہاں ہیں ؟ ۔۔ اس
سوال کے پوچھنے پر جواب نہایت چبھتے ہوئے لہجے میں ہی مل سکتا ہے ۔ ۔۔ ان
حالات کی بناء پر ہمیں درج بالا صداقت کا ضرور خیال رکھنا چاہیے اور ’’
مائنورٹی ازم ‘‘ سے بچنا چاہیے ۔ چونکہ یہ تاریخ کا افضل ترین سبق ہے اور
اس کو بھلا دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اس راز کو بھلا دیا ہے جس میں
ہماری نجات ہے ، ہمارا ڈیفنس ہے اور ملت کی حیثیت میں ہماری تقدیر پوشیدہ
ہے‘‘۔ (The Millat of Islam and the Menance of Indianism, 1942)
آج بھارت پر مسلط انتہا پسند ہندو توا کی اسلام اور مسلمان دشمنی چوہدری
رحمت علیؒ کےخدشات کی تصدیق کر رہی ہے ۔ چوہدری رحمت علیؒ جانتے تھے کہ اگر
مسلمان ہندو اکثریت کے ہاتھوں مغلوب ہو گئے تو ان کا انجام وہی ہوگا جو
یورپ میں مسلم اقلیتوں کا ہوا۔ لہٰذا اسی لیے انہوں نے 1915ء میں ہی بزم
شبلی میں علیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر دیا تھا ۔ پھر جب گول میز
کانفرنسز میں متحدہ وفاق کے تحت اختیارات کی بندر بانٹ ہونے لگی تو اس وقت
چوہدری رحمت علی نے اپنے تاریخی پمفلٹ Now or Neverکے ذریعے مسلمانان
برصغیر کو یہ باور کرایا کہ اب اگر ہم نے اپنی آزادی کے لیے علیحدہ وطن کا
مطالبہ نہ کیا تو شاید کبھی نہ کر سکیں گے ۔ نہ صرف یہ بلکہ چوہدری رحمت
علی گول میز کانفرنسز کے دوران ہندوستانی مسلم لیڈر زکو اس بات پر قائل
کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کرتے رہے کہ ہمیں متحدہ وفاق کی بجائے علیحدہ وطن
کا مطالبہ کرناچاہیے ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس وقت ہر کسی نے آپ کی
مخالفت کی اور یہاں تک کہا گیا کہ یہ بچوں کی سکیم ہے ۔ مسلم لیگ 1937ء تک
چوہدری رحمت علی ؒ کی پاکستان اسکیم کو اعلانیہ ناقابل عمل کہتی رہی ۔ پھر
جب 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی اور وہ کسی بھی صوبے میں
حکومت نہ بنا سکی تو اسے احساس ہو اکہ وہ خود کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت
کیسے ثابت کرے ۔ اسی نظریہ ضرورت نے مسلم لیگ کے اندر یہ احساس اجاگر کیا
کہ کیوں نہ چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم کو کام میں لایا جائے ۔
کیونکہ اس وقت تک پاکستان کا نام ہر مسلمان کی زبان پر آچکا تھا اور 1937ء
میں کانگریس کی حکومت سازی نے بھی ہندو اکثریت کی متعصبانہ ذہنیت اور مسلم
دشمنی کو سب پر عیاں کر دیا تھا ۔ چنانچہ مسلم لیگ کے پاس اب سنہری موقع
تھا کہ وہ خود مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ثابت کرنے اور کانگریس پر دباؤ
بڑھانے کے لیے چوہدری رحمت علی کے پاکستان کے مطالبے کو کام میں لائے ۔
اسی دوران 21اپریل 1938ء کو علامہ اقبال انتقال کر گئے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ
کا دسمبر 1938ء کا سالانہ اجلاس تعزیتی اجلاس کی شکل اختیار کر گیا ۔ اجلاس
میں ایک قرارداد کے ذریعےعلامہ اقبال کو مندرجہ ذیل الفاظ میں خراج تحسین
پیش کیا گیا۔
"آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس سرمحمد اقبال مرحوم کے اسلام کا ایک فلسفی
صوفی و قومی شاعر ھونے کی حیثیت سے ان کی خدمات کی تحسین کرتا ہے۔ مسلمانوں
کو انہوں نے یہ پیغام پہنچایا تھا کہ وہ اپنے ماضی کی روایات سے اپنے
مستقبل کو بنائیں،،۔
اگر علامہ اقبال نے علیحدہ وطن کا کوئی تصور پیش کیا ہوتا تو مسلم لیگ کی
اس قرارداد میں اس کا ذکر لازمی ہوتا ۔
نواب سر محمد یامین خان جو قائداعظم کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگ کے سینیئر
رہنما تھے ان کی کتاب ’نامۂ اعمال‘ میں لکھا ہے کہ :
"یکم مارچ 1939ءکو ’ڈاکٹر ضیاء الدین نے مجھے، مسٹر جناح، مسٹر ظفراللہ
خان، سید محمد حسین کو الہ آباد بلایا۔ دوپہر کے کھانے پر سید محمد حسین نے
چیخ چیخ کر، جیسے ان کی عادت ہے، کہنا شروع کر دیا کہ چوہدری رحمت علی کی
سکیم کہ پنجاب، کشمیر، صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان کو ملا کر بقیہ ہندوستان
سے علیحدہ کر دیے جائیں۔ ان سے پاکستان اس طرح بنتا ہے کہ پ سے پنجاب، الف
سے افغانیہ یعنی صوبہ سرحد، ک سے کشمیر، س سے سندھ اور تان بلوچستان کا
اخیر ہے۔ چونکہ سید محمد حسین زور زور سے بول رہے تھے اس لیے مسٹرظفر اللہ
خان نے آہستہ سے مجھ سے کہا کہ ’اس شخص کا حلق بڑا ہے مگر دماغ چھوٹا ہے۔‘
مسٹر ظفر اللہ خان ان کی مخالفت کر رہے تھے کہ یہ ناقابل عمل ہے، مسٹر جناح
دونوں کے دلائل غور سے سنتے رہے اور پھر مجھ سے بولے کہ ’کیوں نہ ہم اس کو
اپنا لیں اور اس کو مسلم لیگ کا نعرہ بنا لیں۔ ابھی تک ہماری عوام میں کوئی
خاص مقبولیت نہیں ہے۔ اگر ہم اس کو اٹھائیں تو ہماری کانگریس سے مصالحت ہو
سکے گی ورنہ وہ نہیں مانیں گے۔ "
اس اہم میٹنگ نےمسلم لیگ کے آنے والے سالانہ اجلاس کے خدو خال پہلے سے طے
کر دیے تھے جس میں 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور پیش کی گئی جسے انڈین
میڈیا نے قرارداد پاکستان کا نام دیا ۔ اس قرارداد کا مسودہ ابتدائی طور پر
پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلیٰ سرسکندر حیات خان نے تیار کیا ۔ یونینسٹ پارٹی
تقسیم ہند کے سخت خلاف تھی اور اب تک مسلم لیگ کی اتحادی تھی اور سکندر
حیات خان مسلم لیگ پنجاب کے صدر بھی تھے ۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ مسلم لیگ
ابھی تک علیحدہ وطن کی حامی ہر گز نہیں تھی ورنہ سرسکندر حیات خان اور
یونینسٹ پارٹی مسلم لیگ سے الگ ہوجاتے ۔ ایک اور اہم بات نوٹ کیجئے ۔ اس
اجلاس میں پہلے چوہدری رحمت علی ؒ کو بھی مدعو کیا گیا اور وہ شرکت کے لیے
آرہے تھے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سرسکندر حیات خان نے انہیں آنے سے روک دیا اور
جواز خاکسار تحریک کے متوقع ہنگاموں کو بنایا ۔ سوال یہ ہے کہ خاکسار تحریک
(جو تقسیم ہند کی مخالف تھی) سے صرف چوہدری رحمت علی ؒ کو ہی خطر ہ کیوں
تھا ؟ قائداعظم سمیت جتنے راہنما اجلاس میں شریک ہوئے ان کو خطرہ نہیں تھا
؟اصل بات یہ تھی کہ چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم واضح تھی ۔اگر وہ
شرکت کر تے تو مبہم قرارداد لاہور واضح قرارداد ِ پاکستان میں بدل جاتی۔
جبکہ تقسیم اس وقت تک نہ تو مسلم لیگ کا ایجنڈا تھا اور نہ ہی یونینسٹ وزیر
اعلیٰ سر سکندر حیات اس کو برداشت کرسکتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ سر سکندر
حیات خان نے قرارداد کا جو مسودہ تیار کیا اس میں بر صغیر میں ایک مرکزی
حکومت کی بنیاد پر کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم
لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائد اعظم نے خود اس مسودہ میں
واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔اس پر سرسکندر حیات خان سخت ناراض
ہوئے اور اسی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے 11 مارچ 1941ء کو پنجاب
اسمبلی میں کھڑے ہو کر یہ کہا کہ:" میں ہندوستان میں ایک طرف ہندو راج اور
دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ہوں اور ہم (یونینسٹ
پارٹی ) ایسی تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے"۔
یہ تاریخی حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلم لیگ نے چوہدری رحمت علی کی
پاکستان اسکیم کو گانگریس پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا تھا ورنہ عملی
طور پر تقسیم ہند مسلم لیگ کے ایجنڈے میں شامل نہ تھی ۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ اپنی کتاب ’فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ‘ میں بھی لکھتی
ہیں کہ "اکثر مسلمانوں کے نزدیک پاکستان ایک تصور تھا حقیقت نہ تھی۔ بڑے
بڑے مسلمان لیڈروں کا بھی یہ خیال تھا کہ کسی قسم کا باہمی سمجھوتہ ہو جائے
گا اور وہ متحدہ ہندوستان کے اندر اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھ سکیں گے۔
قائد اعظم کا بھی یہی خیال تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار اکتوبر 1941
میں ان سے ملی تو انہوں نے کہا کہ کینیڈا کا آئین ہمارے لیے مسائل کا
بہترین حل ہے۔ قرار داد پاکستان کے سات سال بعد تک ایک طرف برطانوی حکومت
اور دوسری طرف کانگریس سے وہ باہمی سمجھوتے کی بات کرتے رہے اور اس دوران
میں ایک سے زائد بار تقریباً سمجھوتہ ہو بھی گیا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے
کہ وہ دو ٹوک بٹوارہ نہیں چاہتے تھے۔ باہمی سمجھوتے میں ناکامی ہوئی تو اس
کی ذمہ داری قائد اعظم پر نہیں کانگریسی لیڈروں کی تنگ دلی اور تعصب پر
تھی۔"
تمام تاریخی حقائق سے یہ بات ثا بت شدہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک
علیحدہ وطن مسلم لیگ کے ایجنڈے میں شامل نہ تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ قرارداد
لاہور میں نہ ہی پاکستان کا لفظ استعمال ہوا اور نہ ہی کوئی نقشہ پیش کیا
گیا ۔ جنگ عظیم دوم کے اختتام تک برطانیہ اور امریکہ کو روس کا خطرہ محسوس
ہوا تو انہیں پاکستان کی ضرورت بھی محسوس ہوئی اور اس طرح 7اپریل 1946ء کو
دہلی کے تین روزہ کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبیننٹ مشن کے سامنے
پاکستان کا نقشہ پہلی بار مسلم لیگ نے قرارداد کی صورت میں پیش کیاجس میں
پنجاب ، سرحد ، سندھ ، بلوچستان ، بنگال اور آسام شامل تھے ۔ حیرت کی بات
ہے کہ اس میں کشمیر شامل نہ تھا ۔ حالانکہ چوہدری رحمت علی کی سکیم میں
کشمیر شامل تھا ۔ اسی طرح چوہدری رحمت علی کی پاکستان سکیم میں بنگال اور
پاکستان کو علیحدہ مملکتیں شمار کیا گیا تھا ۔ جیسا کہ 1971ء میں ہو کر رہا
۔
ان تمام تاریخی حقائق کی روشنی میں اب میری پوری پاکستان قوم اور پاکستان
کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت سے یہ سوال کہ کیا ہم بحیثیت قوم جشن آزادی
منانے کے اہل ہو سکتے جبکہ جس نے سب سے پہلے وطن کا تصور دیا ، وطن کا نام
رکھا اور وطن کے لیے پاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے تحریک کی بنیاد رکھی
اس کا جسد خاکی 70 سال سے غیر ملک میں امانتاً دفن ہے ؟کیا یہ ایک زندہ اور
عزتمند قوموں کا وطیرہ ہو سکتا ہے ؟
|