یوم آزادی اورہماری ذمہ داریاں


آج کی میری اس تحریر کا مقصد یوم آزادی پر ہماری ذمہ داریاں کی نشان دہی کرنا ہے۔ ہر سال 14 اگست کو پوری قوم یوم آزادی پاکستان بھر پور جوش و جذبے کے ساتھ مناتی ہے بلاشبہ قوموں کو اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیئے بے شمار قربانیاں دینی پڑتی ہیں، ہمارے وطن کی آزادی شہداء کے خون کی مرہون منت ہے اور یہ سچ ہے کہ شہداء ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں اور ان کی قربانیاں ہمارے اوپر ان کا قرض ہے۔آزادی کے لیے ہمارے اجداد و بزرگوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر سو سبز پرچموں کی بہار ہے۔ہر کوئی اپنی استطاعت و توفیقات کے مطابق آزادی کا جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ گھروں، دفتروں اور گاڑیوں کو جھنڈوں اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایا جارہا ہے۔ہر طرف روشنیوں کا سماں ہے ۔ یوم آزادی بلاشبہ قوموں کی تاریخ میں اہمیت کا حامل دن ہوتا ہے۔ اس دن کو باشعور قومیں یوم عہد کے طور پر مناتی ہیں۔ اپنی شناخت اور حقوق ملی جوش و جذبے کے ساتھ پہچاننے کا یوم عہد۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں جشن آزادی ایک عجیب ڈھنگ سے منانے کی ریت پڑتی جارہی ہے۔ رنگ برنگے کپڑے پہنے جائیں گے، سینوں پر بڑے بیج لگائے جائیں گے، سر اور چہروں کو رنگا جائے گا، موٹر سائیکلوں سے سائلینسر اتار کر سارے شہر کا سکون غارت کیا جائے گا، ٹیلی ویژن پر دن بھر نشریات چلیں گی جن میں سارا دن ملی نغمے چلیں گے۔پھر یوں چودہ اگست کا دن گزر جائے گا۔ پھر جھنڈے چھتوں سے اتار دئیے جائیں گے، جھنڈیاں ہواؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جائیں گی۔ جذبات ٹھنڈے ہوجائیں گے ۔ اگر ون ویلنگ، لاؤڈ میوزک، ہلڑ بازی اور جشن کے نام پر سڑکیں بلاک کرنا ہی ہمارایوم عہد ہے تو ہمیں واقعی سوچنے کی ضرورت ہے۔جشن آزادی اور دیگر تقریبات پر قومی پرچم اور جھنڈیوں کے احترام کے سلسلے میں چند احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے جہاں قومی پرچم کے وقار و احترام اور اسکی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگا، وہاں ملک اور قوم بھی سر بلند و شاداں ہوگی ۔جشنِ آزادی کی تقریبات پر اعتراض نہیں مگر اسکے ساتھ ساتھ ان باتوں پر بھی توجہ دینی ہے جو آج کئی سال گزرنے کے باوجود بھی ہماری جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ہمیں ان وجوہات کے بارے میں سوچنا ہے جن کی وجہ سے آج تک ہم آزادی کی حقیقی روح کو نہیں پہچان پائے۔ اس آزادی کے دن کو صرف تفریح یا تہوار کے طور پر منانے والے وہ لوگ ہیں جنہیں آزادی کی قیمت کا احساس نہیں اور نہ انہوں نے کبھی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے کہ کس طرح یہ مملکت خداداد وجود میں آئی تھی کہ جس پر دشمن آج سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی دانت گاڑے بیٹھا ہے۔ آزادی جن قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی تھی ان دل دہلادینے والی داستانوں کو آج شاید ہم میں سے بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ آگ اور خون کے دریا کو عبور کرکے جب ہم نے یہ وطن حاصل کیا تھا۔ ہم اس عہد کو پورا نہ کرسکے جسکی خاطر ہماری ہزاروں ماؤں، بہنوں، بھائیوں اور بیٹوں نے اپنی حیات تک وار دی تھی۔ہماری آزادی تب تک ادھوری ہے جب تک ہم پاکستان میں سماجی مساوات، اسلامی اخوت، معاشی عدل اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بنا لیتے۔

یوم آزادی کا دن درحقیقت ہمارے عہدوپیمان کی یاددہانی کادن ہے ۔جن لوگوں نے اس ملک کو قربانیاں دے کر حاصل کیا وہ اس کی قدروقیمت جانتے ہیں یا وہ طبقہ جنہوں نے انھیں قربانیاں دیتے دیکھا اس کے بعد سے اس جنریشن کاوہ دور شروع ہوتا ہے جسکو آزادی پلیٹ میں سجی ہوئی ملی تبھی انھیں جشن آزادی کی سیلیبریشن محض ناچ گانے میں ہی نظر آتی ہے۔جشن ازادی کے موقعہ پر بچے شوق سے گھروں پر قومی پرچم لہراتے اور پاکستانی جھنڈیوں سے سجاتے ہیں۔ تاہم جب تقریبات ختم ہو جائیں تواس پرچم کو لپیٹ کر احتیاط سے کہیں سنبھال کر رکھ لیا جائے،اور اسی طرح جھنڈیاں بھی اتار کر محفوظ کر لی جائیں۔گلیوں اور بازاروں میں بھی عوام کا یہی عمل ہونا چاہئے،غیر ذمہ داری کی وجہ سے عام طور پر جھنڈیاں پیروں تلے روندھی جاتی ہیں،جو قومی توہین کے مترادف ہیں۔بہتر ہے کہ جشن کی تقریبات ختم ہوتے ہی انہیں بھی اتار لیا جائے۔قومی سبز رنگ کے علاوہ اسے کسی اور رنگ میں نا چھاپا جائے۔اس کے حقیقی ڈیزائن اور سائزکو بھی مدنظر رکھا جائے۔عام طور پر قومی پرچم یا جھنڈیوں پر لوگ اپنے ہیروز کی تصاویر چھاپ دیتے ہیں، یہ امر قومی پرچم کی توہین کے زمرے میں اتا ہے،نیزقومی پرچم یا جھنڈیوں پرکچھ اور لکھا یا چھاپا نہیں جائے۔شہری انتظامیہ بینرز اور جھنڈیوں کے میعار، تحفظ اور تقدس کی ذمہ دار ہے۔لیکن خصوصی عملے کے ذریعہ یہ کام فوری طور پر ہونا چاہئیے تاکہ اس دوران بارش، آندھی یا تیز ہوا سے ٹوٹ کر سڑک پر نا گریں۔

اس سال جشن آزادی پھر دوسری مرتبہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران آئی ہے گو کہ اب اس وائرس کا زور کم ہوگیا ہے مگر جشن آزادی کی تقریبات مناتے وقت احتیاط کرنا ضروری ہے۔جشن آزادی پاکستان کی تیاری اور اہتمام ہر سال بہت منفرد اور خوبصورت انداز میں کیا جاتا ہے گذشتہ سال بھی یوم آزادی پاکستان کو یوم یکجہتی کشمیر سے منسوب کیا گیا اور اس سال بھی عوام پاکستانی پرچم کے ساتھ کشمیری پرچم کی خریداری کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔محض قائداعظم کے مزار پر پھولوں کی چادریں چڑھانے، یا بڑی بڑی مورتوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اخباری بیانات دینے سے آزادی وطن کا حقیقی مفہوم ہرگز پورا نہیں ہوگا۔جھنڈا کا احترام لازم ہے۔ ہر پاکستانی پاکستان کے جھنڈے کو سلام کرتا ہے۔پاک فوج اور کشمیر کا ہر مجاہد / ہر سپاہی زندگی میں جھنڈے گاڑنے کی کوشش کرتا ہے اور شہید ہونے کے بعد جھنڈے میں دفن ہوتا ہے۔ جب بھارت میں جھنڈے لہرائے جاتے ہیں تو اس دن پاکستان میں ہر گلی محلے میں پاکستان کے جھنڈے پاوں تلے روندے جاتے ہیں۔ جبکہ ہونا ایسا چاہیے کہ 14 اگست کو لگائے گئے جھنڈے کی عزت و تقریم میں کبھی بھی فرق نہ آئے۔ جشنِ آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ ہر چیز سے ہم آزاد ہو گئے جبکہ پاکستان اور پاکستانی جھنڈے کی عزت و حفاظت ہم سب کا ذمہ ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اتنی قلیل مدت میں یہ وہ پاکستان ہے جس نے74 سال کی عمر میں10 جنگیں لڑیں ۔تقسیم کے وقت1948 کشمیر کی جنگ، 1965 میں ہندستان کی مسلط کردہ جنگ، 1971 میں ہندوستان کی مسلط کردہ جنگ، 1999 میں کارگل کی جنگ، دنیا کی سپر پاور روس سے افغانستان میں جنگ، دنیاکی سب سے بڑی 50 لاکھ مہاجرت کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ پاکستان میں دہشت گردی سے جنگ ، اور پھر موجودہ سپر پاور امریکہ سے جنگ اس کے باوجود پاکستانیوں پاکستان زندہ بلکہ ایٹمی قوت بھی ہے۔پا کستان جیسی فوج کسی ملک کے پاس نہیں ہے۔پا کستان جیسی عوام کسی ملک کے پاس نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام کو چاہیے کہ پاک فوج کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔جس ملک کی فوج نہیں ہوتی وہ کبھی کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ہم سب کو آج پاکستان کی ترقی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے اور ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے۔ نوجوان نسل کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آج ہم آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں تو ان شہیدوں کی وجہ سے جنہوں نے اپنا کل ہمارے آج کے لئے قربان کیا۔ پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں شہداء کا خون شامل ہے۔ ایک آزاد مملکت کے لئے مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ تاریخ گواہ ہے بھارت سے آنے والی ٹرین مسلمانوں کی لاشوں سے بھری ہوئی لاہور پہنچی تو بھی یہاں کے مسلمانوں نے پاکستان میں رہنے والے ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا۔ پاکستان کی نوجوان نسل کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ مستقبل میں اس عظیم مملکت کی باگ ڈور انہوں نے سنبھالنی ہے۔ انہوں نے خود کو اقبال کے شاہین ثابت کرنا ہے۔انہیں قائد کے ایمان‘ اتحاد اور تنظیم کے درس کو ہر لمحہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی شور شرابے نہیں سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم نے اپنی آزادی کی حفاظت کس طرح کرنی ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر کس طرح گامزن کرنا ہے۔ ہم نے ثابت کرنا ہے کہ ہم ہجوم نہیں ایک باشعور اور عظیم قوم ہیں‘ جسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔14 اگست کے دن جھنڈیاں لگانے کے بجائے پودے لگائے جائیں۔اگر اس پر عمل ہو گیا تو پاکستانی پرچم بےحرمتی سے محفوظ ہو جائے گا۔آزادی کے دن کو دھوم دھام سے منانا پاکستانی قوم کا حق ہے مگر اس حق کا استعمال پر وقار انداز میں ہو نا چاہیے جو ہماری ذمہ داری ہے ہمیں اپنے قومی پرچم کا احترام مقدم ہونا چاہیے کیونکہ دنیا بھر میں ہماری پہچان ،شان،آن اسی پرچم سے وابستہ ہے ہمیں اپنی نئی نسل کو اس سلسلے میں مزید آگاہی دینی ہو گی۔ پاکستان زندہ باد


آج کی میری اس تحریر کا مقصد یوم آزادی پر ہماری ذمہ داریاں کی نشان دہی کرنا ہے۔ ہر سال 14 اگست کو پوری قوم یوم آزادی پاکستان بھر پور جوش و جذبے کے ساتھ مناتی ہے بلاشبہ قوموں کو اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیئے بے شمار قربانیاں دینی پڑتی ہیں، ہمارے وطن کی آزادی شہداء کے خون کی مرہون منت ہے اور یہ سچ ہے کہ شہداء ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں اور ان کی قربانیاں ہمارے اوپر ان کا قرض ہے۔آزادی کے لیے ہمارے اجداد و بزرگوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر سو سبز پرچموں کی بہار ہے۔ہر کوئی اپنی استطاعت و توفیقات کے مطابق آزادی کا جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ گھروں، دفتروں اور گاڑیوں کو جھنڈوں اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایا جارہا ہے۔ہر طرف روشنیوں کا سماں ہے ۔ یوم آزادی بلاشبہ قوموں کی تاریخ میں اہمیت کا حامل دن ہوتا ہے۔ اس دن کو باشعور قومیں یوم عہد کے طور پر مناتی ہیں۔ اپنی شناخت اور حقوق ملی جوش و جذبے کے ساتھ پہچاننے کا یوم عہد۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں جشن آزادی ایک عجیب ڈھنگ سے منانے کی ریت پڑتی جارہی ہے۔ رنگ برنگے کپڑے پہنے جائیں گے، سینوں پر بڑے بیج لگائے جائیں گے، سر اور چہروں کو رنگا جائے گا، موٹر سائیکلوں سے سائلینسر اتار کر سارے شہر کا سکون غارت کیا جائے گا، ٹیلی ویژن پر دن بھر نشریات چلیں گی جن میں سارا دن ملی نغمے چلیں گے۔پھر یوں چودہ اگست کا دن گزر جائے گا۔ پھر جھنڈے چھتوں سے اتار دئیے جائیں گے، جھنڈیاں ہواؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جائیں گی۔ جذبات ٹھنڈے ہوجائیں گے ۔ اگر ون ویلنگ، لاؤڈ میوزک، ہلڑ بازی اور جشن کے نام پر سڑکیں بلاک کرنا ہی ہمارایوم عہد ہے تو ہمیں واقعی سوچنے کی ضرورت ہے۔جشن آزادی اور دیگر تقریبات پر قومی پرچم اور جھنڈیوں کے احترام کے سلسلے میں چند احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے جہاں قومی پرچم کے وقار و احترام اور اسکی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگا، وہاں ملک اور قوم بھی سر بلند و شاداں ہوگی ۔جشنِ آزادی کی تقریبات پر اعتراض نہیں مگر اسکے ساتھ ساتھ ان باتوں پر بھی توجہ دینی ہے جو آج کئی سال گزرنے کے باوجود بھی ہماری جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ہمیں ان وجوہات کے بارے میں سوچنا ہے جن کی وجہ سے آج تک ہم آزادی کی حقیقی روح کو نہیں پہچان پائے۔ اس آزادی کے دن کو صرف تفریح یا تہوار کے طور پر منانے والے وہ لوگ ہیں جنہیں آزادی کی قیمت کا احساس نہیں اور نہ انہوں نے کبھی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے کہ کس طرح یہ مملکت خداداد وجود میں آئی تھی کہ جس پر دشمن آج سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی دانت گاڑے بیٹھا ہے۔ آزادی جن قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی تھی ان دل دہلادینے والی داستانوں کو آج شاید ہم میں سے بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ آگ اور خون کے دریا کو عبور کرکے جب ہم نے یہ وطن حاصل کیا تھا۔ ہم اس عہد کو پورا نہ کرسکے جسکی خاطر ہماری ہزاروں ماؤں، بہنوں، بھائیوں اور بیٹوں نے اپنی حیات تک وار دی تھی۔ہماری آزادی تب تک ادھوری ہے جب تک ہم پاکستان میں سماجی مساوات، اسلامی اخوت، معاشی عدل اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بنا لیتے۔

یوم آزادی کا دن درحقیقت ہمارے عہدوپیمان کی یاددہانی کادن ہے ۔جن لوگوں نے اس ملک کو قربانیاں دے کر حاصل کیا وہ اس کی قدروقیمت جانتے ہیں یا وہ طبقہ جنہوں نے انھیں قربانیاں دیتے دیکھا اس کے بعد سے اس جنریشن کاوہ دور شروع ہوتا ہے جسکو آزادی پلیٹ میں سجی ہوئی ملی تبھی انھیں جشن آزادی کی سیلیبریشن محض ناچ گانے میں ہی نظر آتی ہے۔جشن ازادی کے موقعہ پر بچے شوق سے گھروں پر قومی پرچم لہراتے اور پاکستانی جھنڈیوں سے سجاتے ہیں۔ تاہم جب تقریبات ختم ہو جائیں تواس پرچم کو لپیٹ کر احتیاط سے کہیں سنبھال کر رکھ لیا جائے،اور اسی طرح جھنڈیاں بھی اتار کر محفوظ کر لی جائیں۔گلیوں اور بازاروں میں بھی عوام کا یہی عمل ہونا چاہئے،غیر ذمہ داری کی وجہ سے عام طور پر جھنڈیاں پیروں تلے روندھی جاتی ہیں،جو قومی توہین کے مترادف ہیں۔بہتر ہے کہ جشن کی تقریبات ختم ہوتے ہی انہیں بھی اتار لیا جائے۔قومی سبز رنگ کے علاوہ اسے کسی اور رنگ میں نا چھاپا جائے۔اس کے حقیقی ڈیزائن اور سائزکو بھی مدنظر رکھا جائے۔عام طور پر قومی پرچم یا جھنڈیوں پر لوگ اپنے ہیروز کی تصاویر چھاپ دیتے ہیں، یہ امر قومی پرچم کی توہین کے زمرے میں اتا ہے،نیزقومی پرچم یا جھنڈیوں پرکچھ اور لکھا یا چھاپا نہیں جائے۔شہری انتظامیہ بینرز اور جھنڈیوں کے میعار، تحفظ اور تقدس کی ذمہ دار ہے۔لیکن خصوصی عملے کے ذریعہ یہ کام فوری طور پر ہونا چاہئیے تاکہ اس دوران بارش، آندھی یا تیز ہوا سے ٹوٹ کر سڑک پر نا گریں۔

اس سال جشن آزادی پھر دوسری مرتبہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران آئی ہے گو کہ اب اس وائرس کا زور کم ہوگیا ہے مگر جشن آزادی کی تقریبات مناتے وقت احتیاط کرنا ضروری ہے۔جشن آزادی پاکستان کی تیاری اور اہتمام ہر سال بہت منفرد اور خوبصورت انداز میں کیا جاتا ہے گذشتہ سال بھی یوم آزادی پاکستان کو یوم یکجہتی کشمیر سے منسوب کیا گیا اور اس سال بھی عوام پاکستانی پرچم کے ساتھ کشمیری پرچم کی خریداری کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔محض قائداعظم کے مزار پر پھولوں کی چادریں چڑھانے، یا بڑی بڑی مورتوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اخباری بیانات دینے سے آزادی وطن کا حقیقی مفہوم ہرگز پورا نہیں ہوگا۔جھنڈا کا احترام لازم ہے۔ ہر پاکستانی پاکستان کے جھنڈے کو سلام کرتا ہے۔پاک فوج اور کشمیر کا ہر مجاہد / ہر سپاہی زندگی میں جھنڈے گاڑنے کی کوشش کرتا ہے اور شہید ہونے کے بعد جھنڈے میں دفن ہوتا ہے۔ جب بھارت میں جھنڈے لہرائے جاتے ہیں تو اس دن پاکستان میں ہر گلی محلے میں پاکستان کے جھنڈے پاوں تلے روندے جاتے ہیں۔ جبکہ ہونا ایسا چاہیے کہ 14 اگست کو لگائے گئے جھنڈے کی عزت و تقریم میں کبھی بھی فرق نہ آئے۔ جشنِ آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ ہر چیز سے ہم آزاد ہو گئے جبکہ پاکستان اور پاکستانی جھنڈے کی عزت و حفاظت ہم سب کا ذمہ ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اتنی قلیل مدت میں یہ وہ پاکستان ہے جس نے74 سال کی عمر میں10 جنگیں لڑیں ۔تقسیم کے وقت1948 کشمیر کی جنگ، 1965 میں ہندستان کی مسلط کردہ جنگ، 1971 میں ہندوستان کی مسلط کردہ جنگ، 1999 میں کارگل کی جنگ، دنیا کی سپر پاور روس سے افغانستان میں جنگ، دنیاکی سب سے بڑی 50 لاکھ مہاجرت کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ پاکستان میں دہشت گردی سے جنگ ، اور پھر موجودہ سپر پاور امریکہ سے جنگ اس کے باوجود پاکستانیوں پاکستان زندہ بلکہ ایٹمی قوت بھی ہے۔پا کستان جیسی فوج کسی ملک کے پاس نہیں ہے۔پا کستان جیسی عوام کسی ملک کے پاس نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام کو چاہیے کہ پاک فوج کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔جس ملک کی فوج نہیں ہوتی وہ کبھی کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ہم سب کو آج پاکستان کی ترقی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے اور ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے۔ نوجوان نسل کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آج ہم آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں تو ان شہیدوں کی وجہ سے جنہوں نے اپنا کل ہمارے آج کے لئے قربان کیا۔ پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں شہداء کا خون شامل ہے۔ ایک آزاد مملکت کے لئے مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ تاریخ گواہ ہے بھارت سے آنے والی ٹرین مسلمانوں کی لاشوں سے بھری ہوئی لاہور پہنچی تو بھی یہاں کے مسلمانوں نے پاکستان میں رہنے والے ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا۔ پاکستان کی نوجوان نسل کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ مستقبل میں اس عظیم مملکت کی باگ ڈور انہوں نے سنبھالنی ہے۔ انہوں نے خود کو اقبال کے شاہین ثابت کرنا ہے۔انہیں قائد کے ایمان‘ اتحاد اور تنظیم کے درس کو ہر لمحہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی شور شرابے نہیں سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم نے اپنی آزادی کی حفاظت کس طرح کرنی ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر کس طرح گامزن کرنا ہے۔ ہم نے ثابت کرنا ہے کہ ہم ہجوم نہیں ایک باشعور اور عظیم قوم ہیں‘ جسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔14 اگست کے دن جھنڈیاں لگانے کے بجائے پودے لگائے جائیں۔اگر اس پر عمل ہو گیا تو پاکستانی پرچم بےحرمتی سے محفوظ ہو جائے گا۔آزادی کے دن کو دھوم دھام سے منانا پاکستانی قوم کا حق ہے مگر اس حق کا استعمال پر وقار انداز میں ہو نا چاہیے جو ہماری ذمہ داری ہے ہمیں اپنے قومی پرچم کا احترام مقدم ہونا چاہیے کیونکہ دنیا بھر میں ہماری پہچان ،شان،آن اسی پرچم سے وابستہ ہے ہمیں اپنی نئی نسل کو اس سلسلے میں مزید آگاہی دینی ہو گی۔ پاکستان زندہ باد
 

راجہ منیب
About the Author: راجہ منیب Read More Articles by راجہ منیب : 21 Articles with 25670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.