رکنے سے پہلے میں نے سوچا کہ گاڑی میں پٹرول ڈلوا لیا
جائے۔ عام طور پر پہاڑی علاقوں کے پٹرول پمپ دکھائی دینے میں کچھ دکھی دکھی
نظر آتے ہیں مگر یہ بہت صاف ستھرا سا پٹرول پمپ تھا۔ میں نے پیسے دئیے اور
پٹرول ڈالنے کا کہا۔ پٹرول پمپ والے نے حسب روایت میٹر دیکھنے کا کہا۔ میں
نے میٹر پر نظر ڈالی تو ریٹ ایک سو انیس روپے اور کچھ پیسے درج تھا۔ میں نے
کہا بھائی پٹرول تو پورے پاکستان میں ایک سو تیرہ روپے کے لگ بھگ ہے تم
پانچ چھ روپے زیادہ کیوں لے رہے ہو۔ اوگرہ کے رولز کے مطابق پٹرول کمپنیاں
پورے ملک میں ایک ہی ریٹ پر پٹرول سپلائی کرتی ہیں جب کہ ٹرانسپورٹ کا خرچہ
جتنا بھی ہو کمپنی برداشت کرتی ہے۔پٹرول پمپ والے نے جواب دیا ، آپ کو پتہ
ہے آپ کتنی بلندی پر ہیں اتنی بلندی پر تو ہر چیز بلند ہو جاتی ہے، ہم نے
تو معمولی اضافہ کیا ہے۔ میں ہنسا اور پٹرول ڈلوا کر گاڑی آگے بڑھا دی۔
ساتھ بیٹھی میری بیگم نے کہا کہ اس کی شکایت کرنی چائیے۔ میں نے ہاتھ جوڑ
دئیے کہ نیک بخت ایسا سوچنا بھی نا۔اس لئے کہ حکومت نے اگر میری شکائت پر
نوٹس لے لیا تو پٹرول کی قیمت بلندیوں کی طرف محو پرواز ہو جائے گی اور اسے
کون روکے گا۔ یہ واقعہ جولائی کی گیارہ (11)یا بارہ(12) تاریخ کا ہے۔ سولہ
(16) تاریخ کو میں لاہور پہنچا تو حکومت کو جانے کیسے اس اضافے کا الہام
ہوا،حکومت نے پٹرول ایک سو انیس روپے اور کچھ پیسے کا کر دیا گیا۔اب شکایت
کی گنجائش ہی نہیں۔سوات کی وادی کالام سے کچھ پہلے واقع اس پٹرول پمپ والے
کو مبارک ہو اب وہ بلندیوں کا مکین پٹرول ایک سو پچیس روپے یا اس سے بھی
زیادہ میں بیچ سکے گا۔
میں گھر سے شمالی علاقہ جات کی سیر کو نکلا تھا۔اس سے پہلے بھی ستر، اسی
اور نوے کی دہائیوں میں ہم بارہا وہاں جا چکے ہیں،مگر پچھلے دس پندرہ سال
سے ادھر نہیں گئے۔ میری بیگم ان رستوں سے اب خائف تھی مگر میں نے یقین
دلایا کہ اب تبدیلی آ چکی ہے۔تبدیلی کا سن کر وہ چلنے کو تیار ہو گئی۔ ہم
اسلام آباد سے براستہ موٹر وے اور پھر ایکسپریس وے پر حویلیاں، ایبٹ آباد،
مانسہرہ اور اگی کے قریب سے گزرتے ہوئے بٹگرام جا پہنچے۔ یہاں تک سارا
راستہ انتہائی بہترین ہے ۔ پہاڑ کی لہلہاتی اور گھومتی جھومتی سڑکوں کی جگہ
ایک ہموار سڑک بن چکی ہے۔ اسے ہموار کرنے کے لئے چار پانچ سرنگیں پہاڑ کو
کاٹ کر بنائی گئی ہیں جن میں ایک دو تو انتہائی طویل ہیں۔بٹگرام سے آگے
یکدم تبدیلی منجمد نظر آئی۔ اس رات میں نے وہاں سے تقریباً تیس کلومیٹرآگے
شارع ریشم پر بشام کے علاقے میں رات گزاری۔CPEC پتہ نہیں کہاں تک پہنچا ہے
مگر بٹگرام سے آگے بشام تک کوئی تیس پینتس کلومیٹراس کا اثر نظر نہیں آیا۔
وہی ٹوٹی تنگ سڑک ۔ لوگوں کے بہت خوبصورت ہوٹل مگر ویران اور گاہکوں کے
انتظار میں پریشان، PTDC والوں کا ہوٹل بندش کا شکار، مگر کیوں؟سیاحت کا
فروغ جتنا کاغذوں میں ہے ، زمینی حقائق اس سے بڑے مختلف نظر آئے۔میری بیگم
کا مشورہ تھا کہ بجائے آگے جانے کے واپس چلا جائے کہ برسات شروع ہے اور کسی
لینڈ سلائنڈنگ کے نتیجے میں عید پہاڑوں پر ہی منانی پڑے گی۔ایک تو ٹھیک
مشورہ تھا اور سونے پہ سہاگہ کہ مشورہ بیگم کا تھا۔ فوری عمل کے نتیجے میں
ہمارا راستہ بدل گیا۔
بشام سوات کی شانگلہ ڈویژن کا حصہ ہے۔بشام سے ستر (70)کلومیٹر لمبا راستہ
شارع ریشم کو خوازہ خیلہ سوات سے ملاتا ہے۔ یہ سارا راستہ شانگلہ کے
خوبصورت علاقے سے گزرتا ہے۔ راستے میں بارش ہو رہی تھی۔ جھرنوں سے بھری اس
وادی میں بارش کے دوران گزرنا انتہائی خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔ایک جگہ
لینڈ سلائیڈنگ سے دو تین دکانیں نالے میں بہہ گئیں چند افراد بھی زخمی ہوئے
اور راستہ بند ہو گیا۔ہمیں ان رکاوٹوں کے دور ہونے تک کوئی ایک گھنٹہ سے
کچھ زیادہ دیر رکنا پڑا۔اس دوران وہاں کی مستعد انتظامیہ نے وہ راستہ کلیر
کرا دیا۔ اس خوبصورت وادی پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔خیبر پختونخواہ کی سب سے
پسماندہ اور پاکستان کی اس دوسری پسماندہ ترین آبادی میں لٹریسی ریٹ 15
فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کا کل رقبہ 1586 مربع کلومیٹر ہے۔ 1995 تک یہ ضلع
سوات کا حصہ تھا مگر 1995 میں اسے ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کی تین
تحصیلیں، الپوری، پران اور بشام ہیں۔ اس کی کل آبادی تقریباً ساڑھے سات
لاکھ لوگوں پر مشتمل ہے۔ بڑے نامور لوگ یہاں سے منتخب ہو کر ایوانوں میں
پہنچے مگر سیاستدان ہونے کے ناطے عقل وفہم سے عاری یا بے حس ہوتے ہیں اس
لئے اس علاقے کی حالت بدل نہیں سکی۔یہاں اگر توجہ دی جائے تو بہت سے نئے
ٹورسٹ پوائنٹ بنائے جا سکتے ہیں جس سے سوات میں مالم جبہ اور کالام پر بے
ہنگم یلغار کم ہو سکتی ہے۔
خوازہ خیلہ سے کالام تک 72 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ہم کالام کے ایک
خوبصورت ہوٹل میں شور مچاتے دریائے سوات کے کنارے دو دن مقیم رہے۔کالام تک
کا یہ سارا راستہ وہی پرانی گزرگاہ ہے ساتھ ساتھ شہر اور مسلسل آبادی کے
باعث ٹریفک عموماً جام رہتی ہے۔ کالام کے قیام کے دوران روز رات کوزور دار
بارش ہوتی اور اس وقت دریا کا چنگاڑنا اور ڈھارنا اپنے جوبن پر ہوتا۔ہم دیر
تک دریا کنارے محفوظ جگہ بیٹھے اس نظارے سے محظوظ ہوتے۔اس وقت قدرتی حسن سے
مالا مال یہ وادی دیکھنے والے پر اک ایساسحر طاری کر دیتی ہے کہ جس میں
مدتوں آدمی کھویا رہتا ہے۔لیکن یہ سارا علاقہ نئے محفوظ راستوں اور بہتر
سہولیات کے لئے حکومت کی توجہ کا محتاج ہے ۔امید ہے اس سلسلے میں حکومت جلد
بہت سے مثبت اقدام کرے گی۔ اس علاقے میں سیاحت کے ساتھ ساتھ تعلیم ، صحت
اور راستوں کی بہتری کے اقدامات بھی فوری طور پر انتہائی ضروری ہیں کہ اس
علاقے میں سیاحت کو فروغ اور علاقے کے لوگوں کی خوشحالی کا سامان ہو۔سیاحوں
کی آمد اس علاقے کی پسماندگی دور کرنے نوید ہے۔ حکومت اگر شانگلہ جیسے
خوبصورت علاقے کے کچھ مقامات سیاحوں کے لئے کھول دے تو یہ ایک انتہائی احسن
اقدام ہو گا۔
|