ڈگریاں، کمیٹیاں اور ریگولیشنز – کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کا دلچسپ ڈرامہ
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور میں کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی (KPCTA) ایک عرصے سے خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے۔ وجہ کوئی نیا سیاحتی منصوبہ نہیں بلکہ ایک سادہ سی درخواست ہے جو معلومات کے حق کے قانون (RTI) کے تحت جمع کرائی گئی۔ درخواست بھی ایسی کہ سن کر کسی بھی ادارے کے افسر کے پسینے چھوٹ جائیں۔
سوالات تھے: سابق ٹورازم کارپوریشن (TCKP) کے وہ ملازمین جو اب KPCTA میں ہیں، ان کی ڈگریاں اور تعلیمی قابلیت دکھا دیں۔ یہ ڈگریاں کس نے تصدیق کیں؟ کس ادارے نے چیک کیا؟ نتیجہ کیا نکلا؟ کہیں کوئی جعلی ڈگری تو نہیں نکلی؟ بورڈ آف ڈائریکٹرز (BOD) نے جو ریگولیشنز منظور کیے تھے، ان کی کاپی دکھا دیں۔ اگر بعد میں ترمیم ہوئی تو وہ بھی بتا دیں۔ اور آخر میں، وہ بھرتی پالیسی بھی سامنے لائیں جس کے تحت سابق TCKP کے ملازمین کو KPCTA میں ایڈجسٹ کیا گیا۔ ساتھ ہی آڈٹ رپورٹس بھی شیئر کر دیں، تاکہ پتہ تو چلے کہ معاملہ میرٹ پر ہے یا "دوستی پالیسی" پر۔ اب یہ سب سوالات اتھارٹی کے لیے ایسے ہیں جیسے کسی بچے سے پوچھا جائے: "پڑھائی کی تیاری کی یا نہیں؟" بچہ کہے گا: "جی، تیاری ہو رہی ہے۔" مگر تیاری کب مکمل ہوگی؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔
اصل کمال تو ڈگریوں کے سوال پر ہے۔ معلوم نہیں کیوں، لیکن سرکاری اداروں میں ڈگری کا ذکر ہوتے ہی سب کے چہروں پر ایک خاص مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ جیسے پوچھ لیا ہو کہ “جناب، آپ کا پسندیدہ میچ کس نے جتوایا تھا؟” ڈگریاں دکھانا اتنا ہی مشکل کام ہے جتنا دفتر میں پرانی فائل ڈھونڈنا۔ لگتا ہے ان ملازمین کی ڈگریاں یا تو کسی الماری میں بند ہیں، یا پھر وہی پرانی کہانی: “فائل لاہور گئی ہے۔”
پھر سوال آیا کہ ڈگریاں کس نے تصدیق کیں؟ اب یہاں دو ہی امکانات ہیں۔ یا تو واقعی کسی ادارے نے تصدیق کی، یا پھر یہ کام چائے کے ساتھ "جی بالکل سب ٹھیک ہے" والے اسٹامپ پر ختم ہو گیا۔ کمیٹی کا مطلب اکثر یہی ہوتا ہے کہ چند لوگ اکٹھے بیٹھے، بسکٹ کھائے، اور آخر میں ایک لائن لکھی: “سب کچھ قانون کے مطابق ہوا ہے۔”
اب بات کرتے ہیں بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ریگولیشنز کی۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان ریگولیشنز کی کاپی دکھا دیں۔ جواب ابھی تک نہیں آیا۔ لگتا ہے یہ ریگولیشنز بھی کسی خفیہ الماری میں ہیں، جس پر تالہ لگا ہوا ہے اور چابی چیئرمین کے ڈرائنگ روم میں رکھی ہے۔ عوام حیران ہیں کہ اگر یہ ریگولیشنز واقعی موجود ہیں تو ان کو چھپانے کی ضرورت کیوں ہے؟ یا پھر یہ ریگولیشنز بھی وہی “ڈرافٹ فار ایور” والے ہیں، جو سالوں تک فائل میں رہتے ہیں اور کبھی حتمی شکل نہیں پاتے۔
سب سے مزے کی چیز وہ سوال تھا جس میں پوچھا گیا کہ بھرتی کس پالیسی کے تحت ہوئی۔ یہ سوال ایسے ہے جیسے کسی سے پوچھ لیں: “سچی سچی بتائیں، بچپن میں نقل کی تھی یا نہیں؟” ظاہر ہے جواب کبھی صاف نہیں ملتا۔ آڈٹ رپورٹیں بھی مانگی گئیں، لیکن وہ تو شاید ابھی تک "حساس دستاویزات" کے طور پر درج ہیں۔
درخواست میں یہ بھی پوچھا گیا کہ عوام یا اسٹیک ہولڈرز سے کوئی مشاورت کی گئی تھی یا نہیں۔ اب یہ سوال ہی کتنا معصوم ہے۔ ہمارے ہاں مشاورت صرف فائل کے آخری صفحے پر لکھی ہوئی ایک لائن ہوتی ہے: “تمام متعلقہ فریقین سے مشاورت کی گئی ہے۔” حقیقت میں مشاورت شاید صرف ایک چائے کے کپ تک محدود رہتی ہے۔
یہ تمام سوالات 7 اپریل 2025 کو کیے گئے تھے۔ قانون کہتا ہے کہ مقررہ مدت میں جواب دینا لازمی ہے۔ مگر جواب ابھی تک ندارد۔ لگتا ہے کہ یا تو اتھارٹی یہ معلومات تیار کرنے میں مصروف ہے، یا پھر یہ سوچ رہی ہے کہ جواب دینا ہی سب سے بڑی مشکل ہے۔
آخر میں عوام یہی سوچ رہے ہیں کہ KPCTA کا مطلب کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی ہے یا "کلچر آف سائلنس اتھارٹی"۔ ڈگریوں کی تصدیق ہو یا بھرتیوں کی کہانی، سب کچھ اس قدر راز میں لپٹا ہوا ہے کہ اب تو یہ معاملہ ایک کامیڈی ڈرامے کا سین لگنے لگا ہے۔ |