شندور فیسٹیول 2025 – معلومات کی تلاش، انتظامات کے راز


30 جون کو کلچرل اینڈ ٹورازم اتھارٹی کو ایک درخواست دی گئی۔ مقصد بڑا سادہ سا تھا: شندور فیسٹیول 2025 کے بارے میں معلومات چاہیے۔ لیکن جیسے ہی درخواست فائل میں پڑی، حکام کے چہروں پر وہی پرانی مسکراہٹ آ گئی: "صاحب! یہ تو بڑی لمبی لسٹ ہے، ذرا وقت تو دیں۔"درخواست میں سب سے پہلا سوال تھا: فیسٹیول کب اور کہاں ہوا؟ اب یہ سوال بظاہر بچوں والا لگتا ہے، مگر دراصل بڑا خطرناک ہے۔ کیوں کہ تاریخیں بتا دیں تو پھر انتظامات اور خرچے بھی کھل جائیں گے۔ اور اگر انتظامات کمزور نکل آئے تو عوام پوچھے گی: "صاحب، پھر باقی بجٹ کہاں گیا؟" چنانچہ جواب دینے کے بجائے بہتر یہی سمجھا گیا کہ سوال ہی نظر انداز کر دیا جائے۔

اصل مزہ بجٹ والے سوال میں ہے۔ پوچھا گیا کہ شندور فیسٹیول پر کتنا بجٹ رکھا گیا اور کہاں کہاں خرچ ہوا۔ اب یہ سوال ایسا ہے جیسے کسی سے پوچھ لیں: "تنخواہ کتنی ہے اور خرچہ کہاں ہوتا ہے؟" جواب ہمیشہ ادھورا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بجٹ تو بہت رکھا گیا تھا مگر وہی روایتی کہانی: "آدھا سڑک پر لگ گیا، باقی سڑک کنارے والے دکانداروں پر۔"سٹیج، آرٹس، سیکیورٹی، رہائش، مہمانداری، تشہیر – یہ سب بڑے لفظ ہیں، لیکن ان پر اخراجات کی تفصیل اکثر ایسی نکلتی ہے کہ بندہ سوچے، "یہاں تو ایک سٹیج بھی کھڑا نہیں تھا، پھر یہ پیسے کہاں گئے؟"

مزے کی بات یہ ہے کہ پوچھا گیا: فیسٹیول میں کون کون شامل تھا؟ سرکاری ادارے، غیر سرکاری تنظیمیں یا اسپانسرز؟ اب یہاں جواب دینا اور بھی مشکل ہے۔ اگر اسپانسرز بتا دیے گئے تو عوام پوچھے گی کہ پھر حکومت نے الگ بجٹ کیوں رکھا؟ اور اگر محکمے بتا دیے تو سوال اٹھے گا کہ فلاں محکمہ تو وہاں تھا ہی نہیں، پھر فائل میں اس کا نام کیوں ڈالا گیا؟شندور میں کتنے کھلاڑی اور مہمان آئے، یہ بھی پوچھا گیا۔ یہ سوال بھی بظاہر آسان لگتا ہے لیکن بڑا خطرناک ہے۔ اگر کہہ دیا کہ "سو غیر ملکی آئے"، تو ثبوت مانگا جائے گا کہ وہ کہاں گئے؟ اگر کہا کہ "ہزاروں مقامی آئے"، تو کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ اتنے لوگوں کے لیے بیت الخلا کہاں تھے؟

اب آتے ہیں اصل میلے کے مزے پر: سیکیورٹی اور سہولتوں کی کہانی۔ درخواست میں پوچھا گیا کہ سیکیورٹی کس نے دی؟ ٹرانسپورٹ، رہائش، صفائی اور طبی امداد کا انتظام کس نے کیا؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب اکثر "بہترین انتظامات کیے گئے" والے ایک لائن بیان میں چھپا دیے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ کہ اکثر عوام خود اپنا کمبل، اپنی سواری اور اپنا فرسٹ ایڈ ساتھ لے آتی ہے۔ باقی رہ گیا صفائی کا انتظام تو وہ ہمیشہ فیسٹیول ختم ہونے کے بعد "قدرتی ہوا" کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

یہ سب سوالات صرف ایک مقصد کے لیے تھے: شفافیت۔ لیکن شفافیت ہمارے ہاں وہی ہے جو کسی میلے کے بعد خالی بوتلوں میں نظر آتی ہے۔ سب کچھ صاف دکھائی دیتا ہے، بس اندر کچھ نہیں ہوتا۔ شندور فیسٹیول کو دنیا کا سب سے اونچا پولو گراونڈ کہا جاتا ہے، لیکن لگتا ہے وہاں کے حساب کتاب بھی پہاڑوں کی بلندیوں پر جا بیٹھے ہیں، جن تک عام آدمی کی رسائی ممکن ہی نہیں۔

اطلاعات کے حق کا قانون تو کہتا ہے کہ شہری کو بروقت معلومات دینا ضروری ہے۔ مگر حقیقت میں یہ قانون اکثر ایک "شو پیس" بن کے رہ گیا ہے۔ فیسٹیول کے رنگ ڈھنگ تو دنیا نے دیکھ لیے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کاغذی دنیا کے رنگ کب عوام کے سامنے آتے ہیں۔ فی الحال تو شندور فیسٹیول کا بجٹ اور انتظامات ایک ایسے ڈھول کی مانند ہیں جسے بجایا تو گیا، لیکن اندر سے کھوکھلا ہی نکلا۔
#kikxnow #musarratullahjan #shandoor #festival #rti #cta

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 749 Articles with 617538 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More