تحریک آزادی کشمیر کے تقاضے اور بیس کیمپ کی حالت

امام رومی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک صوفی دوران سفر ایک خانقاہ میں قیام پذیر ہوا اور اپنا گدھا اصطبل میں باندھ دیا اور اپنے ہاتھ سے چارہ کھلا کر اصطبل کے خادم کے حوالے کرکے خانقاہ کی طرف چل دیا اس خانقاہ پر ایسے صوفی درویشوں کا گروہ قابض تھا جنہیں نے فقراور فاقہ سے تنگ آکر خرفروشی شروع کررکھی تھی انہوں نے مہمان صوفی کا گدھا بھی فروخت کردیا او راس کے تواضع کیلئے کھانا لاکر سماع او رمستی کا انتظام کیا صوفی مہمان کی مہمان نوازی میں لگ گئے ،کوئی اس کے سامان کی گردجھاڑنے لگا ،کوئی اس کیلئے بستر بچھانے لگا اور کسی نے اس کے ہاتھ اور منہ پر بوسے دیئے اور کوئی اس کے ہاتھ پاﺅں دبا رہا تھا مہمان صوفی بہت خوش تھا کہ اس کی خوب تواضع ہورہی ہے ۔

کھاناکھانے کے بعدسماع شروع ہوا خانقاہ کی چھت تک دھوئیں اور گرد سے بھر گئی جب سماع جوبن پر آیا تو گویئے نے ایک مخصوص موثر گیت شروع کیا اور تقلید میں مہمان صوفی نے بھی بڑے رقت آمیز اندازمیں گانا
”خربرفت وخربرفت خربرفت وخربرفت “
شروع کردیا سماع کے ختم ہوتے ہوتے دن نکل آیا خانقاہ کے سارے درویش اپنے اپنے کام پرروانہ ہوگئے مہمان صوفی نے سامان باندھا اورسفر کی تیاری کی اصطبل پہنچا تو گدھا موجود نہ پایا سوچا خادم اسے پانی پلانے لے گیا ہوگا ،انتظار کیا ،خادم آیا تو اس سے دریافت کیا ۔خادم نے کہا اپنی داڑھی کا خیال کر دونوں میں جھگڑا شروع ہوگیا مہمان نے کہا کہ میں نے گدھاتیرے سپردکیا تھا ،واپس کر ورنہ قاضی کے ہاں دعویٰ کروں گا ، خادم نے بتایا کہ رات خانقاہ کے درویشوں نے حملہ کردیا اور زبردستی گدھا مجھ سے لے گئے میں جان کے خوف سے مزاحمت نہ کرسکا صوفی نے کہا کہ چلو یہ تو ٹھیک ہے مگر تم اسی وقت آکر مجھے بتادیتے میں ان کے خانقاہ سے نکلنے سے پہلے ان سے گدھا یا اس کی قیمت وصول کرلیتا خادم نے کہا کہ میں آپ کو بتانے آیا تھا مگر آپ تو جذب ومستی کے عالم میں وجد کی کیفیت میں گا رہے تھے کہ
”خربرفت وخربرفت خربرفت وخربرفت “
تو میں نے سمجھا کہ آپ کے علم میں ہے کہ ان درویشوں نے آپ کی اجازت سے آپ کا گدھا بیچا ہے ۔۔۔

قارئین 1947ءمیں جب قبائلی مجاہدین کے لشکر نے اپنے کشمیریوں بھائیوں کو ڈوگرہ سے آزادی دلانے کیلئے کشمیر میں جہاد آزادی کا آغاز کیا تو یہ مجاہدین سوفیصد اسلامی جذبے کے تحت کشمیر کی دھرتی پر آئے اور پونچھ ،مظفرآباد،پلندری ،میرپور اور دیگر علاقے آزادکرواتے ہوئے سری نگر کی جانب بڑھے اس موقع پرہمیشہ کی طرح چند غداروں نے اپنے مفادات کی خاطر مجاہدین کی پیٹھ پر چھرا گھونپا اور مجاہدین کی یلغار رک گئی اور آج تک تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ صرف ایک دن مجاہدین کو نہ روکا جاتا تو آج مقبوضہ کشمیر بھی آزادہوتا ۔

آزادی حاصل کرنے والے علاقے کو 1947ءمیں آزادی کابیس کیمپ قرار دے کر یہاں آزادکشمیر حکومت اس عزم اور جذبے کے ساتھ قائم کی گئی کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غلامی میں ظلم سہنے والے بہن بھائیوں کو آزادکروانے کیلئے یہ علاقہ بیس کیمپ کا کام کرے گا یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیس کیمپ کے حکمرانوں ،سیاستدانوں اور امام رومی ؒ کی حکایت میں بیان کردہ ٹھگ درویشوں جیسے لوگوں نے اپنے ذاتی مقاصد کیلئے زبان سے تو آزادی کے نعرے لگائے مگر درپردہ یہ لوگ اپنے اپنے مفادات کے غلام بن گئے ،کشمیر بنے گا پاکستان ،کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس جیسے کئی اور نعرے لگا لگا کر لاکھوں کشمیریوں سے چندے اکھٹے کیے گئے ،حکومت پاکستان سے لے پوری دنیا سے کشمیر کے نام پر نوسربازی کرتے ہوئے شہداءکی قربانیوں کوبیچتے ہوئے ان ٹھگوں نے کروڑوں اربوں روپے اپنی تجوریوں میں بھر لیے اور تحریک آزادی کشمیر کو فروخت کردیا مقبوضہ کشمیرمیں لاکھوں کشمیری شہید ہوگئے ،لاکھوں عورتیں بیوہ ہوگئیں ،لاکھوں بچے یتیم ہوگئے ان گنت ماﺅں بہنوں کی بے حرمتی کی گئی اور لاکھوں نوجوانوں کو معذور کردیا گیا اور آزادی کے بیس کیمپ کے ٹھگ
””خربرفت وخربرفت خربرفت وخربرفت “
کی طرح تحریک آزادی کشمیر کے جھوٹے نعرے لگاتے رہے ۔۔۔

آج 63سال بعد تاریخ ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے ،جون کے آخری ہفتے یا جولائی کے پہلے ہفتہ میں الیکشن 2011ءکشمیر ی عوام کی دہلیز پر ہوگا اور لٹنے والے صوفی کی طرح کشمیری بھی گزشتہ 63سالوں کی لوٹ مار کا حساب اپنے ووٹ کی طاقت سے لیں گے پاکستان مسلم لیگ ن ،مسلم کانفرنس اور پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ جماعت اسلامی ،لبریشن لیگ اور دیگر کئی جماعتیں زور وشور سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرچکی ہیں اور ایجنڈا ز ،مینوفیسٹو او رمنشور بنائے جارہے ہیں اور لوگوں تک پہنچائے جارہے ہیں آج تک ہر الیکشن میں برادری ،قبیلے ،علاقے اور دیگر تعصبات کو استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کو آپس میں لڑوایا گیا اور تقسیم کیا گیا لیکن 2011ءکا الیکشن تاریخ کا مختلف ترین الیکشن ثابت ہوگا پہلی مرتبہ مظفرآبادسے لے میرپور تک اور ہٹیاں بالا سے کر کوٹلی تک اور راولاکوٹ سے لے چکوٹھی تک پورے آزادکشمیر میں لاکھوں کشمیری عوام ووٹ مانگنے والے لوگوں سے حساب مانگ رہے ہیں اور اُن سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کی سابقہ کارکردگی کیا ہے ۔۔۔؟

مسلم کانفرنس اپنی تمام تر غلطیوں کی وجہ سے شدیدترین مشکلات کا شکار ہے اور اس کی ساٹھ فیصد سے زائد صف اول او رصف دوم کی قیادت کے ساتھ ساتھ عام کارکنان کی غالب اکثریت مسلم لیگ ن میں شامل ہوچکی ہے او رعبرت کامقام ہے کہ مسلم کانفرنس کے پاس آزادکشمیر کے اکثر حلقوں میں ایک بھی امیدوارموجو دنہیں ہے جو الیکشن باعزت طریقے سے لڑ سکے سیاسی ماہرین نے دلائل کے زریعے ثابت کردیا ہے کہ الیکشن 2011ءمیں مسلم کانفرنس جو 2006ءکے انتخابات میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی اب وہ محض تین سے پانچ سیٹوں تک محدودہوجائے گی ۔۔۔
دیکھو مجھے جو دیدہ عبر ت نگاہ ہو۔۔۔

قارئین اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کا اگر جائزہ لیا جائے تو ظاہری طور پر تو اس جماعت میں دوسابق وزرائے اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور سرداریعقوب خان سمیت بہت بڑی تعدادمیں مختلف جماعتوں کے قائدین او رکارکنان شامل ہوئے ہیں لیکن پاکستانی وفاقی حکومت کے ”پانچ پیارے “جس طرح میڈیا میں مشہوررہے ہیں اسی طرح آزادکشمیر میں بھی پیپلز پارٹی کے ”پانچ بڑے “آپس میں دست وگریباں ہیں اور کئی نشستوں پر ایک دوسرے کو ہرانے کیلئے یہ قائدین ”ڈمی آزادامیدوار “کھڑے کررہے ہیں تاکہ ووٹ بنک کو تقسیم کرکے وزارت عظمی ٰ کے یہ پانچ امیدوار ایک دوسرے کو اسمبلی میں ہی پہنچنے سے روک دیں ۔پیپلز پارٹی کی یہ تقسیم اور لڑائی تو اپنی جگہ جماعت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور کارکنا ن کو دلبرداشتہ کررہی ہے اس سے بھی بڑھ کر ستم ظریفی پاکستانی وفاقی حکومت کا قلمدان سنبھالے پاکستان پیپلز پارٹی کی داخلہ اور خارجہ محاذوں پر انتہائی ناقص کارکردگی ہے ،آٹا ،چینی ،بجلی ،گیس ،پیٹرول سے لے زندہ رہنے کی ہر ضرورت 18کروڑ پاکستانیوں کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے اور حکومت آرام فرما رہی ہے یا یورپ اور امریکہ کے چکر لگا رہی ہے ،ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والا ظلم ہر پاکستانی کو خون کے آنسو رلارہا ہے اور ریمنڈ ڈیوس نامی قاتل جاسوس کو ”دباﺅوالی دیت “کے تحت ایک سازش کرتے ہوئے امریکہ کے حوالے کردیا گیا ہے اور اس ظلم پر پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے کارکنان سمیت پورا پاکستان غصے اور صدمے سے چیخ رہا ہے اور یہ تما م باتیں آزادکشمیر کے انتخابات پر اثر انداز ہوگی اور کوئی مانے یا مانے پاکستان پیپلز پارٹی کو اس کانقصان ہوگا ۔بقول غالب ۔۔۔
ابنِ مریم ہُوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دواکرے کوئی
شرع وآئین پر مدارسہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اورسُنا کرے کوئی
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر سے ؟
اب کسے رہنما کرے کوئی
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

قارئین اس وقت آزادکشمیر میں پاکستان مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی انتخابی اتحاد کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جماعت اسلامی آزادکشمیر کے امیر عبدالرشید ترابی نے ایک ریڈیو سٹیشن پر انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ الیکشن 2011ءمیں اس بات کا قوی امکان ہے کہ انکی جماعت مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے اگر ایسا ہوا تو دس سے زائد نشستوں پر ایسے اثرات مرتب ہوں گے کہ مسلم لیگ ن آئندہ انتخابات کے بعد حکومت بنانے کو پوزیشن میں آسکتی ہے اگر پاکستان پیپلز پارٹی واقعی الیکشن جیتنا چاہتی ہے تو سابق وزیر اعظم بیرسٹرسلطان محمود چوہدری او رموجود اپوزیشن لیڈر چوہدری عبدالمجید کے درمیان پائے جانے والے غیر ضروری اختلافات کو ختم کرنا ضروری ہوگا ۔

قارئین یہ بات یاد رکھی جائے کہ میرپو رڈویثرن میں ”متاثرین منگلا ڈیم سکینڈل “اور مظفرآباد ڈویثرن میں ”متاثرین زلزلہ سکینڈل “پورے آزادکشمیر کے انتخابات پر اثر انداز ہونگے اور ماضی کے سواداعظم جماعت مسلم کانفرنس کے صدر اور موجودہ وزیر اعظم سردارعتیق احمد کچھ بھی کہتے رہیں یہ مسائل انہی کی وجہ سے پیدا ہوئے اور ان کا نقصان بھی سب سے زیادہ انہی کو ہو گا ۔

آخرمیں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے کہ
ایک انتخابی مہم کے دوران ایک امیدوار تقریر کرنے کیلئے ایک علاقے کی طرف جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے ان کے سیکرٹری نے انہیں کہا ”جناب آ پ کو دوسرے علاقے میں پہلے جاناچاہیے وہاں آپ کے بارے میں جھوٹ بولا جارہا ہے “
امیدوار نے اطمینان سے جواب دیا
”لیکن جہاں میںجارہا ہوں وہاں اس لیے پہلے جانا ضروری ہے کہ وہاں میرے بارے میں سچ بولا جارہا ہے “

قارئین 2011ءکے الیکشن میں آزادکشمیرکے ہر حلقے میں سچ بولا جائے گا ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374536 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More