افغانستان میں وقو ع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کو اگر
حکومت ہند کی عینک سے دیکھا جائے تو مشہور فلم دوراستے کا نغمہ ’ جس کا ڈر
تھا بے دردی وہی بات ہوگئی ‘ یاد آتا ہے کیونکہ اب ریل گاڑی پٹری بدل رہی
ہے اور دوراستے الگ ہورہے ہیں ۔ ایک سے امریکہ جاچکا ہے اور دوسرے سے
طالبان تقریباً آچکے ہیں۔ اس تناظر میں امریکی وزیر خارجہ بلنکن کا
ہندوستانی دورہ اور نئی دہلی میں اپنے ہم منصب ڈاکٹر ایس جے شنکر و وزیر
اعظم نریندر مودی سے ملاقات غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے۔ اس موقع
پر بلنکن نے کمال صاف گوئی سے ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو میں بتایا کہ :
’پاکستان کا (افغانستان میں) اہم کردار ہے اور ہمیں یقین ہے کہ پاکستان
طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے گا کہ
وہ ملک پر طاقت کے ذریعہ قابض نہ ہوں۔‘ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ : ’ اس
(پاکستان) کواپنا اثر و رسوخ اور کردار ادا کرنا ہے اور ہم امید کرتے ہیں
کہ وہ اسے ادا کرے گا‘۔ ہند پاک تعلقات میں کشیدگی کے پیش نظر یہ بات
سفارتکاری کے خلاف تھی مگر حقائق کا انکار بھی تو ممکن نہیں ہے۔
بلنکن کی توقعات کا جواب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ازبکستان کے شہر
تاشقند میں منعقدہ کانفرنس بعنوان ’وسطی و جنوبی ایشیا 2021: علاقائی
رابطہ، چیلنجز اور مواقع‘میں دیا ۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں عمران خان نے
کہا: ’ہم افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک اور علاقائی و بین الاقوامی سٹیک
ہولڈرز پر زور دیتے ہیں کہ وہ افغانستان میں مذاکرات کے نتیجے میں مستحکم
حکومت کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔‘ انہوں نے یہ
بھی کہا کہ ’جو کچھ افغانستان میں ہورہا ہے وہ دو دہائیوں سے جاری تنازع
اور گہری تقسیم کی وجہ سے ہے اور بد قسمتی سے امریکہ اس مسئلے کو فوجی طاقت
کے بل پر حل کرنا چاہتا تھا جو کہ اس کا حل نہیں تھا۔ جب وہاں امریکی اور
نیٹو کے فوجی اور جدید اسلحہ موجود تھا تب طالبان کو مذاکرات کی میز پر
بلانے کا صحیح وقت تھا ، اب جب آپ نے اپنے انخلا کی تاریخ انہیں دے دی ہے
اور بہت ہی تھوڑے امریکی فوجی باقی رہ گئے ہیں تو پھر طالبان کیوں مذاکرات
کریں گے؟ وہ کیوں اب ہماری بات سنیں گے جبکہ انہیں اپنی فتح نظر آرہی ہے‘۔
پاکستان سے خیر کی توقعات باندھنے والے بلنکن تو ا فغانستان میں عوام کی
نمائندہ حکومت سازی کا مشورہ دے کر لوٹ گئے لیکن وہاں وقوع پذیر ہونے والی
تبدیلیاں ہندوستان کے لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں ۔ ہند افغان تعلقات
کتنے گہرے ہیں اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ایک پڑوسی ملک نیپال ہے
جہاں ہندوستان کا ایک سفارتخانہ اسی طرح پاکستان میں بھی ایک ہی ہے ۔ بنگلا
دیش سے دوستی کچھ زیادہ ہے اس لیے ایک سفارتخانے کے علاوہ دو قونصل خانے
بھی ہیں یہی حال روس اور چین کا بھی ہے۔ ان میں سے ایک قدیم ترین حلیف ہے
اور دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے ۔ برطانیہ کے دولت مشترکہ میں
شامل ہندوستان کے اس ملک میں سفارتخانہ اور دو قونصل خانے کے علاوہ ایک
اعزازی قونصل خانہ بھی ہے۔ جرمنی چونکہ دوممالک کے ضم ہونے کے سبب بن گیا
اس لیے سفارتخانے کے علاوہ تین قونصل خانے ہیں نیز وسیع و عریض امریکہ میں
سفارتخانے کی مدد کے لیے چار قونصل خانے ہیں اور اس کے بعد افغانستان کا
نمبر آتا ہے جہاں اپنے سفارتخانے کو چار عدد قونصل خانوں سے تعاون ملتا ہے
۔ کہاں امریکہ بہادر اور کہاں افغانستان لیکن اہمیت کے لحاظ سے بالکل قریب
، ہے تعجب کی بات!
ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر طویل خانہ جنگی سے لٹے پٹے افغانستان
کو اس قدر اہمیت کیونکر حاصل ہوگئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امریکی صدر جو
بائیڈن تو یہ اعلان کرسکتے ہیں کہ امریکہ وہاں پر قومی تعمیر کے لیے نہیں
گیا تھا لیکن مودی جی ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ افغانستان کے اندر
ہندوستانی سرمایہ کاری ۳ بلیں ڈالر یعنی 22 ہزار کروڈ روپیہ سے زیادہ ہے۔
اس میں کتنے صفر ہوتے ہیں ان کا شمار کرنا سمبت پترا تو دور میرے لیے بھی
مشکل ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کی سرکار کا جو عدالت عظمیٰ میں کوویڈ سے
مرنے والوں کے لواحقین کو نقصان بھرپائی دینے سے معذوری ظاہر کردے کسی مسلم
ملک میں اتنی کثیر رقم خرچ کردینا حیرت انگیز امرہے لیکن اس میں مودی جی کا
کوئی قصور نہیں ہے۔یہ چیز ان کو سابق وزیر اعظم منوہن سنگھ سے وراثت میں
ملی ہے۔ امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ نے اپنی گردن چھڑانے کے لیے
ہندوستان کو پھنسانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب ہوگئے۔ 2011 تک یہ
سرمایہ کاری 230 ہزار کرو ڈ ڈالر تک پہنچ چکی تھی جو اب تقریباایک تہائی
اور بڑھ چکی ہے۔ ویسے پاکستان کو مخالفت سمت سے گھیرنے کی خاطر یہ رقم بہت
زیادہ نہیں ہے۔
25؍ نومبر 2020 یعنی گزشتہ سال افغانستان پر ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد
ہوا۔ اس کو خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ ایس شنکر نے چوتھے مرحلے کے آغاز کا
فخریہ اعلان فرمایا۔ اس وقت انہوں نے کہا فی الحال افغانستان کا کوئی بھی
حصہ حکومت ہند کے تعمیری پروجیکٹس سے چھوٹا نہیں ہے۔ یہ 400 سے زیادہ
پروجیکٹس 34 صوبوں میں چل رہے ہیں نیز 65 ہزار افغانی طلبا ہندوستان میں
تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ اس وقت وزیر خارجہ نے پرجوش مطالبہ کیا تھا کہ افغان
حکومت اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان فوری طور پر جنگ بندی کی جائے۔کاش کے
ایس جئےشنکر دیوا پر لکھی اس تحریر کو پڑھ سکتے کہ جس کے تحت امریکہ کے
ساتھ طالبان کی گفت و شنید دوحہ قطر میں جاری تھی۔ آج وہی نام نہاد دہشت
گرد 85 فیصد افغانستان پر قابض ہوچکے ہیں۔ یعنی 40 میں سے 34 ضلع تو ان کے
قبضے میں جاچکے ہیں۔
ان فلاح و بہبود کے پروجیکٹس میں میں 20 لاکھ لوگوں کو محفوظ پانی کی
فراہمی کے لیے بنایا جانے والا شاہ توت بند بھی شامل ہے ۔ اس سال فروری میں
وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر اشرف غنی کی موجودگی میں ایک ورچول کانفرنس
میں اس کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس موقع پر اشرف غنی نے حکومت ہند کی
تعریف و توصیف کرتے ہوئے اسے زندگی تحفہ قراردیا۔ نیز 5 لاکھ کوویڈ ویکسین
مہیا کرنے کا بھی شکریہ ادا کیا ۔ یہ قابلِ تعریف ا قدام تھا کیونکہ جس وقت
وطن عزیز کے اندر ویکسین کی تنگی تھی وزیر اعظم نریندر مودی کمال کشادگی کا
مظاہرہ کررہے تھے۔ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی نے افغانستان کے اندر
بڑھتے ہوئے تشدد اور شہریوں ، صحافیوں اور محنت کشوں پر دہشت گردانہ حملوں
پر فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے اسے بزدلانہ حرکت قرار دیا تھا ۔ نیز اس
خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنے پر زور دیا تھا۔
اب اگر طالبان اترپردیش کے پنچایتی انتخاب میں ہونے والے تشدد ، خواتین کی
بدسلوکی ، کیمرے کے سامنے اغوا، بی جے پی کارکنان کے ذریعہ ایس پی کو کھلے
عام تھپڑ اور صحافیوں کی پٹائی کی ویڈیو مودی جی کوبھیج دیں تو کیا وہ یوگی
کو دی جانے والی مبارکباد واپس لے لیں گے۔ فی الحال آسام اور میزورم کی
سرحد پر بھی بالکل خانہ جنگی کی صورتحال بن گئی ہے۔ آسام کے لوگ میزورم کی
جانب جانے والے سبزی وغیرہ کی لاریاں بھی روک کر میزو سرکار سے معافی
مانگنے کے لیے کہہ رہے ہیں ۔ مودی جی اس حقیقت کو بھول گئے کہ جن کے مکان
شیشے کے ہوتے ہیں وہ پردہ چڑھا کر لباس تبدیل کرتے ہیں۔ امریکی فوجی صدر
اشرف غنی کو بے یارو مددگار چھوڑ کر فرار ہوچکے ہیں۔ اس کے پیش نظر حکومت
ہند نے قندھار کے قونصل خانے سے ہندوستانی عملہ کو نکال لیا ہے۔ ہندو اخبار
کے مطابق 50 سفارتکار اور سکیورٹی اہلکاروں کو انڈین ایئرفورس کی ایک پرواز
کے ذریعے واپس لایا جا چکا ہے۔
حکومت ہند نے اسے عارضی اور احتیاطی فیصلہ قرار دیا ہے۔ اس سے قبل اپریل
2020 میں حکومت ہند نے جلال آباد اور ہرات میں قونصل خانوں پر کام ملتوی
کرتے ہوئے اپنا عملہ واپس بلوا لیا تھا۔ مزار شریف کا قونصل خانہ ہنوز بند
نہیں ہوا مگر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان کی پیش قدمی اسی طرح
جاری رہی تو کابل کا سفارت خانہ بھی غیر محفوظ ہوجائے گا ۔ کہاں تو پورے
افغانستان کو نام نہاد دہشت گردی سے پاک کرنے کاعزم اور کہاں اپنے قونصل
خانے کے عملے کا انخلا؟ اسی کو کہتے ہیں ’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟‘
ہندوستان کے اندر افغانستان کے سفیر فرید ماموندزئی نے میڈیا سے بات چیت
کرتے ہوئے کہا تھا کہ:’افغان حکومت نہیں چاہتی کہ کوئی بھی قونصل خانہ یا
سفارت خانہ بند ہو مگر ہم اپنے سفارتی عملے کوواپس بلوانے والے ممالک کی
تشویش سمجھتے ہیں‘۔وزیر خارجہ ان خطرات سے ایک سال قبل آگاہ ہوکرامریکہ کی
مانند طالبان سے تعلقات بحال کرلیتے تو آج یہ نوبت نہیں آتی ۔ طالبان کی
پیش قدمی کو دہشت گردی قرار دیتے وقت وزیر اعظم نریندر مودی اگر سوچتے کہ
کل کو وہ افغانستان میں وہ غالب آگئے تو ان سے تعلقات استوارکرنے میں کتنی
دشواری ہو گی تو آج یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی ؟ بقول جواد شیخ ؎
جو ہو رہا ہے وہ ہوتا چلا گیا تو پھر؟
جو ہونے کو ہے وہی ہو گیا تو کیا ہوگا
|