میں تجھے طارق بن زیاد کہوں یا صلاح الدین ایوبی ۔
مجھے تو ان دونوں عظیم مسلم ہیروز کی خوبیاں تمہاری ذات حصہ دکھائی دیتی
ہیں ‘ لوگ تمہیں ضیاء الحق کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن میں تمہیں اسلام کے
عظیم سپہ سالار کے نام سے پکارتا ہوں ‘ یہ میرے دل کی آواز ہے۔تاریخ کی
اوراق میں وہ واقعہ ابھی تک محفوظ ہے جب سوویت یونین کے سفیر اپنی حکومت کا
ایک دھمکی آمیز پیغام لے کر جنرل محمد ضیاء الحق کے پاس پہنچے اور کہا
سوویت یونین سفید ریچھ ہے یہ جہاں جاتاہے اپنے پنجے گاڑھ لیتا ہے پھر واپس
نہیں جاتا‘ ہمارے راستے کی دیوار مت بنو ورنہ یہیں تمہیں راکھ کا ڈھیر بنا
دیاجائے گا۔ ہماری منزل گرم پانیوں کے سمندر تک ہے۔جنرل ضیاء الحق نے
سفیرسے کہا میرا بھی پیغام اپنی حکومت کوپہنچاا دو ‘ میں یہیں بیٹھا ہوں
جوکرنا ہے کرگزرو ۔ عینی شاہدوں کے مطابق سفیرکے جانے کے بعد ضیاء الحق
سجدے میں گر کر اتنے روئے کہ ہچکی بندھ گئی ۔پھر دنیا نے دیکھا کہ سوویت
یونین کی فوجیں ہاتھ جوڑ کر واپسی کاراستہ مانگ رہی تھیں۔.... مجھے وہ
لمحات بھی یاد ہیں جب خانہ کعبہ میں نماز عشا کے لیے صفیں بند ھ چکی تھیں ‘
تکبیر پڑھی جاچکی تھی ‘ اچانک امام کعبہ اپنے مصلے سے پیچھے ہٹے اور جنرل
محمد ضیاء الحق کو امامت کے مصلے پر کھڑا کردیا ۔آپ ہچکچائے لیکن امام کعبہ
کے یہ الفاظ ذہنوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے ‘ کہ امت مسلمہ کے حقیقی
امام آپ ہیں‘ آپ ہی نماز پڑھائیں ۔ جب قرآن پاک کی قرات شروع کی تو آپ کی
آواز رند گئی ، آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ‘ زبان سے قرآن پاک کے الفاظ
کبھی نکلتے تو کبھی ٹھہر جاتے ‘ اقداء کرنے والے نمازیوں کی بھی یہی حالت
تھی‘ قریب تھا کہ وہ مصلے پر بے ہوش کر گر جاتے ‘ اﷲ کے حکم پر فرشتوں نے
انہیں تھام لیا۔. مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب غیرملکی دورے سے واپسی پر جہاز
کے پائلٹ کو جہاز کا رخ مدینہ منورہ کی جانب موڑنے کا حکم ملا ۔ جہاز مدینہ
منورہ ائیرپورٹ پر لینڈ کرگیا ۔آپ سیدھے مسجد نبوی پہنچے ‘ ریاض الجنہ میں
نوافل ادا کرنے کے بعد بطور خاص روضہ رسول ﷺ کا دروازہ آپ کے لیے کھولا گیا
۔وہاں کیا راز و نیاز کی باتیں ہوئیں اس کے بارے میں توضیاء الحق ہی جانتے
ہیں لیکن جو صحافی اس وقت انکے ساتھ تھے، ان کے بقول روضہ رسول ﷺ سے واپسی
کے بعد‘ جدہ ائیرپورٹ پر جہاز اترنے تک ضیاء الحق کے آنسو نہیں رکھ سکے ،وہ
زار و قطار رورہے تھے..... خوف خدا سے کانپنے والے اس عظیم شخص کے لیے نیک
سیرت افراد کے ہاتھوں نبی کریم ﷺ کے دو مرتبہ پیغامات موصول ہوئے ۔ان میں
ایک مفتی تقی عثمانی تو دوسرے جامعہ اشرفیہ کے ممتاز عالم دین تھے ۔پیغام
میں کیاتھا اس کے بارے میں مجھے تو علم نہیں لیکن پیغام سننے کے بعد جنرل
ضیاء الحق کتنی ہی دیر آنسو بہاتے رہے ....... ملک احمد سرور ایک کتاب میں
لکھتے ہیں کہ جن دنوں افغانستان میں سوویت یونین کی فوجوں اور مجاہدین کے
مابین جنگ زوروں پر تھی تو میں افغانستان کے صوبہ پکتیا میں خوست کی جانب
جارہا تھا ۔میرے ساتھ ایک مجاہد بھی تھا ہم ایک پہاڑ کے دامن سے گزرے تو اس
مجاہدنے بتایا کہ جنرل محمد ضیاء الحق بھی یہاں آئے تھے۔وہ دورہ انتہائی
خفیہ تھا وہ سادہ کپڑوں میں ملبوث تھے‘ سر پر خاکستری رنگ کی افغانی ٹوپی
پہنی ہوئی تھی ان کے ساتھ مجاہدین کے چند بڑے کمانڈر تھے، وہ یثرا کی طرف
سے رغ بیلی کے پہاڑ کے قریب گھوڑے سے اترکر پیدل ہی پہاڑ پر چڑھے اور پہاڑ
کی چوٹی پر کھڑے ہوئے دور بین سے خوست کے محاذ کا جائزہ لیا اور مجاہدین
کمانڈروں کو ہدایات دے کر واپس پاکستان چلے گئے۔ ......مجھے وہ لمحات بھی
یاد ہیں جب بھارت نے سندھ کو پاکستان سے الگ کرنے اور آزادکشمیر پر قبضہ
کرنے کی تیاری کرلی تھی ‘حملے کے لیے بھارتی فوجیں سرحدوں پرتیارتھیں‘ ان
اعصاب شکن حالات میں جنرل ضیا ء الحق بن بلائے مہمان بن کے کرکٹ میچ دیکھنے
کے لیے دہلی جاپہنچے ۔کچھ وقت سٹیڈیم میں گزار کر جب واپس آنے کے لیے دہلی
ائیرپورٹ پر پہنچے تو بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی وہاں موجود تھے ۔ راجیو
گاندھی سے الوداعی معانقہ کرنے کے بعدکان میں کہا بھارت کے پاس کتنے ایٹم
بم ہوں گے ۔ نہ جانے راجیو کی زبان سے کیا الفاظ ادا ہوئے ۔ ضیاء الحق نے
کہا پاکستان کے پاس بھی اتنے ہی ایٹم بم ہیں، اگر تم نے پاکستان پر حملہ
کیا تو میں دنیا سے ہندووں کانام و نشان مٹا دوں گا ۔ یہ کہتے ہوئے وہ جہاز
میں جا بیٹھے اور جہاز چند لمحوں میں فضا میں بلند ہوگیا ۔ بھارتی وزارت
خارجہ کے افسروں کے بقول راجیو گاندھی کافی دیر تک سکتے کی حالت میں وہیں
کھڑے رہے ۔حواس بحال ہوتے ہی سب سے پہلا حکم انڈین آرمی کو سرحدوں سے واپس
بلانے کا انہوں نے جاری کیا۔ تاریخ طارق بن زیادکو اس لیے یاد کرتی ہے کہ
انہوں نے اندلس فتح کیا ‘ صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کیا لیکن
ضیاء الحق نے ایک جانب سوویت یونین جیسی دنیا کی عظیم سپرطاقت کو نہ صرف
شکست سے ہمکنار کیا بلکہ بھارت کو اس کی اوقات یاد دلا دی۔ یہ تھے وہ جنر ل
محمد ضیاء الحق جنہوں نے الذولفقار تنظیم اور امریکہ کی سازشوں اور ملی
بھگت کی بدولت ایک فضا ئی حادثے کی شکل میں 17اگست 1988ء کو تین بج کر پچاس
منٹ پر دریائے ستلج کے کنارے بستی لال کمال کے قریب جام شہادت نوش کیا ۔آج
جب بھارت نے وادی کشمیر میں ظلم و استبداد کی آگ جلا رکھی ہے تو مجھے جنرل
محمد ضیاء الحق جیسے اسلام کے عظیم سپہ سالار کی یادستاتی ہے جس نے دنیا کی
دوسری عسکری سپرطاقت سوویت یونین کو تگنی کا ناچ نچانے کے ساتھ ساتھ ٹکڑے
ٹکڑے بھی کردیا۔ اگر وہ اس دور میں زندہ ہوتے تو بھارت کی ایسی درگت بناتے
کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگانے لگتے ۔اگر میں یہ کہو ں تو غلط نہ ہوگا کہ وہ
دور حاضر کے طارق بن زیاد بھی تھے اور صلاح الدین ایوبی بھی ۔تاریخ انہیں
اسلام کے ایک عظیم سپہ سالار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔ان شاء اﷲ
|