افغان طالبان کا ملک کے اہم شہروں و علاقوں پر کنٹرول۰۰۰

افغانستان کے عوام کو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہوگا۰۰۰ ملک کا دفاع کرنا افغان فوج کی ہی ذمہ داری ہے۰۰۰یہ ہے افغانستان سے ناکام لوٹنے والے سوپر پاور امریکی صدرجوبائیڈن کے الفاظ ۰۰۰ جنہوں نے افغانستان میں امریکیوں کی ایک اور نسل کو 20سال کی جنگ میں دھکیلنا نہیں چاہتے۰۰۰ افغانستان میں افغان فورسز کی جانب سے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے یا طالبان کا بزور قوت قبضہ امریکہ اور دیگر عالمی ممالک کیلئے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ ویسے امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک کو اندازہ ہے کہ طالبان افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرلیں گے ، یہی وجہ ہیکہ امریکہ اپنی ناکامی کو محسوس کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ راتوں رات اپنی افواج کو افغانستان سے نکال لایا ہے کیونکہ وہ مزید اپنے سپاہیوں کو گنوانا نہیں چاہتا۔ افغان صدر اشرف غنی اور طالبان قیادت کے درمیان بات چیت کے ذریعہ مسئلہ حل ہوجائے تو ایک بڑے خون خرابے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے اور معیشت بھی متاثر ہونے سے بچ سکتی ہے۔امریکی صدر جوبائیڈن نے 10؍ اگست کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ افغان رہنماؤں کو متحدہونا ہوگا، افغان فوجیوں کی تعداد طالبان سے زیادہ ہے اور انہیں لڑنا چاہیے، انہوں نے افغان رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ملک کے لئے لڑیں، امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ افغان رہنماؤں اور افغان فوجیوں کو اپنے اور اپنی قوم کے لئے لڑنا ہوگا۔ امریکی صدر کو افغانستان سے انخلاء کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے ، ذرائع ابلاغ کے مطابق واشنگٹن نے گذشتہ بیس برسوں میں ایک ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں اور ہزاروں فوجیوں کو کھودیا ہے ۔ صدر نے مزید کہا کہ امریکہ افغان فورسز کو اہم فضائی مدد، خوراک، سامان اور تنخواہیں فراہم کرتا رہے گا۰۰۰یہاں یہ بات واضح رہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی نیٹو ممالک اپنی ناکامی کے بعد جس طرح خاموشی سے افغانستان خالی کرکے چلے گئے ہیں اور اب افغان فورسز، طالبان کے درمیان ہونے والی جنگ کو بڑھاوا دینے کیلئے امریکہ طالبان ٹھکانوں پر حملے کررہا ہے اور افغان فورسز اور افغان رہنماؤں کو طالبان سے لڑنے کے لئے کہہ رہا ہے جس سے افغان عوام کے لئے مزید سنگین اور خوفناک حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔افغان صدراشرف عنی حکومت اور طالبان کے درمیان جتنا جلد ممکن ہوسکے مذاکرات ہوجائیں تو یہ ہر دو کیلئے بہتر رہیں گے اور افغان عوام بھی چین و سکون کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق افغان سیکیوریٹی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی کی وجہ سے ہزاروں شہری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں اور کابل سمیت محفوظ علاقوں کا رخ کررہے ہیں۔ افغان طالبان اور افغان فورسز کے تعلق سے بعض ذرائع ابلاغ غلط پروپگنڈہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ افغان فورسز اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے جس طرح ممکن ہوسکے لڑرہے ہیں جبکہ بعض مقامات پر طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوچکے ہیں ، افغان فورسز میں بھی اسلامی اقدار کا پاس و لحاظ رکھنے والے متشرع اہلکار ہزاروں کی تعداد میں موجود ہونگے اور وہ لڑائی کے آغاز پر اﷲ اکبر کے نعروں کے ساتھ طالبان سے برسرِپیکار ہیں جبکہ طالبان بھی افغانستان میں اسلامی شرعی نظامِ حکومت لاگو کرنے کے لئے ملک میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان کے خلاف بھی کئی طرح کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک رپورٹ میں کہاگیاہیکہ شبرغان سے آنے والی ایک خاتون رحیمہ بھی ان سینکڑوں خاندانوں کے ساتھ کابل کے ایک پارک میں خیمہ زن ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’اگر کسی خاندان میں کوئی نوجوان لڑکی یا بیوہ موجود ہوتو وہ اس کو زبردستی لے جاتے ہیں، ہم اپنی عزت کی خاطر اپنا شہر چھوڑ کر آئے ہیں‘‘۔ اس خاتون کی بات میں کتنی صداقت ہے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ افغان طالبان اس قسم کی نیچ حرکت نہیں کرسکتے کیونکہ ماضی میں جب انکی افغانستان پر حکومت تھی وہ خود ملک میں خواتین کی عفت و عصمت کی حفاظت کیلئے وسیع تر احکامات جاری کئے تھے اور خواتین طالبان کے دورِ حکومت میں آزادی کے ساتھ حجاب میں گھوم پھر سکتی تھیں۔افغان صدر اشرف غنی نے بھی ماضی میں افغان عوام کی سلامتی کے لئے طالبان سے مذاکرات کی بات کی تھی اور ملک میں مکمل جنگ بندی کیلئے کہا تھا لیکن افغان طالبان نے اشرف غنی کو کٹھ پتلی حکومت قرار دے کر ان سے بات چیت کو نظر انداز کردیا تھا اگر اُس وقت طالبان اور اشرف غنی کے درمیان مذاکرات مثبت انداز میں ہوتے تو آج افغانستان میں حالات پرُسکون ہوتے لیکن دشمنانِ اسلام نہیں چاہتے تھے کہ افغان طالبان اور صدر اشرف غنی حکومت کے درمیان امن و سلامتی کی فضا بحال ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکی صدر افغان رہنماؤں اور افغان فورسز کو افغان طالبان کے خلاف لڑنے پر اکسارہے ہیں۔

افغانستان کے لئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے 10؍ اگست کو قطر پہنچ کر افغان طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کرکے طالبان سے جنگی کارروائیاں بند کرنے اور سیاسی طور پر معاملات حل کرنے کا مطالبہ کرنے کی کوشش کئے ہیں جو شاید ناکام ہی ثابت ہوئی۔تین روزہ اجلاس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس کے مطابق شرکا نے جنگ کے فریقین پر مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے زور دیا ہے۔ شرکاء نے افغانستان میں تشدد کے واقعات اور شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ افغان طالبان سے افغانستان کے شہروں اور صوبائی دارالحکومتوں پر حملے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اعلامیہ کے مطابق فریقین اعتماد سازی اور فوری جنگ بندی کے لئے اقدامات کریں جبکہ دونوں فریقوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد سیاسی تصفیہ اور جامع جنگ بندی تک پہنچنے کیلئے اقدامات کریں۔ شرکاء نے دوبارہ اس بات کی تصدیق کی کہ وہ افغانستان میں کسی ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے جو طاقت کے استعمال سے مسلط کی گئی ہو۔سوال پیدا ہوتا ہیکہ اگر افغانستان میں طالبان بزور طاقت مستقبل قریب یا دیر میں اقتدار حاصل کرلیتے ہیں تو کیا واقعی پاکستان، امریکہ، برطانیہ، چین، ازبکستان، قطر، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے خصوصی نمائندے جنہوں نے اس اجلاس میں شرکت کی ہے وہ ممالک طالبان کے اقتدار کو تسلیم نہیں کریں گے؟خیر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد اجلاس ناکام ہی سمجھا جائے گا۰۰۰

امریکہ پھر ایک مرتبہ افغان طالبان کو نشانہ بنانے کے نام پر ملک کے بعض حصوں پر حملے کررہا ہے۔ملک میں پھر ایک مرتبہ صورتحال خطرناک رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی حکام کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ امریکی فوج افغان افواج کی مدد کیلئے اے سی 130گن شپ ہیلی کاپٹر اور ڈرونز کے علاوہ بی 52بمبار طیارے اور ایف 18جنگی طیارے بھی روانہ کررہی ہے۔ یہ کارروائیاں 31؍ اگست تک تو جاری رہ سکتی ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہیکہ اس کے بعد کیا امریکہ افغان فوج کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرتا رہے گا۔؟ پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے اس سلسلہ میں کہا ہیکہ اس بارے میں حتمی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں امریکہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ فضائی حملے صرف انسداد ِ دہشت گردی آپریشن کی مد میں کرینگے۔ویسے امریکی صدر جوبائیڈن اور پینٹاگون ترجمان جان کربی کے بیانات کے بعد صاف ظاہر ہوتا ہیکہ امریکہ افغانستان میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان ہونے والی کارروائیوں کے خلاف جتنا ممکن ہوسکے خاموشی اختیار کرنے کی کوشش کرے گا۔ کیونکہ امریکی صدر جوبائیڈن نے واضح الفاظ میں کہا ہیکہ طالبان کے خلاف دفاع افغان افواج کی ہی ذمہ داری ہے ، جبکہ پینٹاگون ترجمان جان کربی سے سوال کیا گیا کہ افغانستان کی فوج کی جانب سے مناسب دفاع نہ کئے جانے کی صورت میں امریکی فوج کیا کرے گی تو انکا کہنا تھا کہ ’’زیادہ کچھ نہیں‘‘۔ البتہ امریکی انتظامیہ نے طالبان کو تنبیہ کی ہیکہ اگر انہو ں نے طاقت کے زور پر قبضہ کیا تو انکو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ طالبان کو کون تسلیم کرے گا اور کون نہیں ۰۰۰ فی الحال طالبان کا قبضہ افغانستان کے بیشترعلاقوں میں بڑھتا جارہا ہے اور افغان فورسز طالبان کے سامنے ناکام ثابت ہورہی ہے۰۰۰ جس پر امریکہ کو تشویش لاحق ہے لیکن امریکہ کا کہنا ہے کہ افغان فوج کے پاس طالبان سے جنگ کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ اب یہ سمجھ سے بالاتر ہیکہ پھر افغانستان میں طالبان اتنا جلد کیسے آگے بڑھتے جارہے ہیں ۔

افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کا سلسلہ لگاتار جاری ہے ۔ملک کے دوسرے بڑے شہر قندھار پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔طالبان کی اس کامیابی کے بعد افغان حکومت کے لئے اب تک کا یہ سب سے بڑا دھچکا قرار دیا جارہا ہے۔ مزارِ شریف اور پلِ خمری کے نواح میں بھی شدید لڑائی کی اطلاعات ہیں۔ افغان طالبان نے قندھار پر قبضہ کرنے سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے شمال مشرقی صوبہ بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد پر قبضہ کرلیا ہے ۔ بتایاجاتا ہے کہ اگر طالبان کا دعویٰ سچ مان لیا جائے تو یہ ایک ہفتے میں ان کے قبضے میں آنے والا 9واں شہر تھا۔ اس سے قبل طالبان نے صوبہ سمنگان کے دارالحکومت ایبک پر بھی قبضہ کیا، سمنگان کے نائب گورنر صفت اﷲ سمنگانی نے ـذرائع ابلاغ کے ذریعہ تصدیق کی کہ صوبے کا دارالحکومت ایبک طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے۔ دوسری جانب دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے الجزیرہ ٹی وی کو بتایاکہ ان کی تنظیم دوحہ میں مذاکرات کے لئے پرعزم ہے اور مذاکرات کے مرحلے کا خاتمہ نہیں چاہتی۔ افغان حکومت کے ترجمان نے بھی اس موقع پر الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہیکہ افغان حکومت چاہتی ہے کہ ان مذاکرات میں ایک ثالث بھی ہو تاکہ فریقین کی سنجیدگی کا تعین کیا جاسکے۔طالبان ہلمند صوبے کے دارالخلافہ لشکر گاہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اگر اس پر قبضہ ہوگیا تو جنوبی افغانستان پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہوجائے گا۔ مزارشریف پر قبضہ حاصل کرنے کیلئے بھی سخت لڑائی جاری ہے اگر یہاں پر بھی طالبان قبضہ حاصل کرلیتے ہیں تو کابل حکومت کیلئے یہ ایک سخت دھکا ہوگا ۔ طالبان اور افغان فورسز کے درمیان تاحال لڑائی جاری ہے اور یہ سلسلہ شاید طالبان کی افغانستان میں حکومت قائم کرنے تک جاری رہے گا۰۰۰

حرم کرین مقدمے کا حتمی فیصلہ: بن لادن گروپ الزام سے بری
مکہ مکرمہ میں اپیل کورٹ نے الحرم کرین کے مقدمے کا حتمی فیصلہ جاری کردیا۔ بن لادن گروپ کو الزام سے بری کردیا گیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حرم کرین گرنے کے سلسلے میں بن لادن گروپ کی کوئی کوتاہی ثابت نہیں ہوئی۔عدالتی بنچ نے فیصلہ کیا کہ بن لادن گروپ پر الحرم کرین گرنے کی ذمہ داری کا الزام ثابت نہیں ہوا۔ الزام لگایا گیا تھا کہ گروپ کی لاپروائی اور کوتاہی کی وجہ سے کرین گرنے کا حادثہ پیش آیا تھا۔ عدالت نے پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے بن لادن گروپ کو حرمین کرین گرنے سے ہلاک ہونے والوں کی دیت، نقصانات کے معاوضے کا پابند بنانے کی بھی درخواست کی تھی جس کی بابت عدالت نے غیر متعلقہ معاملہ ہونے پر کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ عدالت سے تعمیرات کی جگہ سلامتی ضوابط کی پابندی نہ کرنے پر 13 ملزمان کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ عدالت نے ان میں سے کسی کو بھی مجرم قرار نہیں دیا۔ عدالت نے موقف اختیار کیا کہ بن لادن گروپ کو الزام سے بری کرنے کا باعث یہ ہے کہ گروپ کی غلطی ثابت نہیں ہوئی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ بن لا دین نے جس طرح حرمین شریفین کی وسیع و عریض عمارتوں کے لئے خدمات انجام دیں ہے وہ قابلِ ستائش ہے ، بن لا دین گروپ کی حرمین شریفین میں توسیع منصوبہ کے لئے خدمات ناقابلِ فراموش رہینگی ۔ہوسکتا ہے شاہی حکومت دوبارہ بن لا دین گروپ سے خدمات حاصل کریں۰۰۰
ٌٌٌ***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.