ایک سوال قائدین سے؟

ہمارا سوال ان مسلم تنظیموں اور قائدین سے ہے جو آزادی کے75 سال بعد بھی مسلسل سیکولرزم کے نام پر چوٹ کھانے، سیکولر سیاست کے نام پر دھوکہ کھانے اور سیکولرزم کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے نام پر مسلمانوں کو دھوکہ دیا، مسلمانوں کے وجود کو کھوکھلا کیا اور مسلمانوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈالاتھا اب وہ کیا کرینگے؟ جب راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے احاطے میں رام کی مورتیاں نصب کی تو مسلمان خاموش رہے اور راجیو گاندھی کو ہی اپنا قائد تسلیم کیا، اسکے بعد 1992 کو پی وی نرسمہا راؤ کی موجودگی میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا پھر بھی مسلمانوں کے لئے کانگریس ہی مجبوری رہی ۔ اسکے بعد من موہن سنگھ کا دور رہا اس میں بھی مسلم قائدین نے کانگریس کو اپنا مذہب بنالیا اور ہر بار یہی کہا گیا کہ اگر مسلمان کانگریس کو ووٹ نہیں دینگے تو بی جے پی آجائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ ملک بھر میں آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں نے کانگریس کو ہی ووٹ دیا ہے تو باربار بی جے پی کیسے آرہی ہے؟کرناٹک میں ایک تنظیم بنام کرناٹکا مسلم متحدہ محاذ کے نام سے موجود ہے، اسکا کام یہ ہے کہ وہ الیکشن سے کچھ دن پہلے کانگریس کے بڑے لیڈروں سے ملاقات کرتی ہے اسکے بعد ریاست بھر میں گھوم پھر کر کانگریس کی حمایت میں ووٹ دینے کی بات کرتی ہے اسکے علاوہ دو۔تین سیٹیں ایسی ہوتی ہیں جہاں پر کانگریس کا گدھا کمزور ہوتا ہے اور جے ڈی یس کا خچر مضبوط ہوتاہے ان مقامات پر گدھے کے بجائے خچر کو ووٹ دینے کی بات کرتے ہیں ۔ انکے علاوہ اگر کوئی مسلمان مضبوط دعویدار ہو تب بھی وہ اسکا ساتھ نہیں دیتے کیونکہ محاذ کی نظر میں کانگریس ہی سیکولر ہے باقی اگر آزاد امیدوار جو مسلم ہو وہ کمیونل بن جاتا ہے یا پھر وہ بی جے پی کو جتانے کے کھڑا ہوجاتا ہے۔ ایسے میں پانچ سالوں تک کانگریس بچاؤ۔ بی جے پی ہٹاؤ کا نعرہ بلند کرنے والی محاذ اب ایسے موقت میں جب کانگریس پارٹی کے کارکنان مسلمانوں کے جذبات اور دیب سے جڑی ہوئی بابری مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر ہونے پر جشن منارہے ہوں تو کیوں اسکی مخالفت نہیں کررہے ہیں۔ کیوں اخباری بیان جاری کرتے ہوئے کانگریس کے دوغلی پالیسی کے تعلق سے برہمی کا اظہار نہیں کررہے ہیں۔ اب تک کانگریس کو سیکولر ہونے کا سرٹیفکیٹ دینے والے مسلمانوں کے کنٹراکٹرس اخلاقی ذمہ داری لے کر محاذ کو تحلیل نہیں کررہے ہیں ۔ کیا اب بھی محاذ کو بھروسہ ہے کہ کانگریس سیکولر پارٹی ہے ۔ جن جن لوگوں کو ووٹ دینے کے لئے محاذ کی جانب سے فتویٰ دیا گیا تھا اس میں سے ایک درجن اراکین اسمبلی کانگریس اور جے ڈی یس چھوڑ کربی جے پی میں چلے گئے ہیں ۔ اب محاذ کے ذمہ داران کیسے ان بہروپی سیکولر لیڈروں کی مخالفت کرینگے۔ حالانکہ انکا دعویٰ ہے کہ محاذ رضاکارانہ طور پر کام کرتی ہے، کسی سے پیسے نہیں لیتی، اپنے ذاتی اخراجات سے ریاست کا دورہ کرتے ہوئے وہ سیکولر پارٹیوں کی تائید کرتی ہے، اس میں دانشوروں کی بڑی ٹیم ہے وغیرہ ۔۔ ٹھیک ہے سب مان لیں گے لیکن کیا اپنا پیسہ خرچ کرکے دوسروں کے گھروں میں چراغاں کرنا اچھا ہے یا اپنے پیسے کا استعمال اپنے گھر کو روشن کرنے کے لئے کیا جائے؟. دانشوروں کی ٹیم موجود ہے تو کیونکر ریاست میں مسلمانوں کی طاقت بنانے کے لئے دانشمندی سے کام نہیں لیا جاتا؟جو دھوکہ مسلمانوں کو کانگریس کرتی آئی ہے اس کانگریس کو سبق سکھانے کے لئے یا ان پر دباؤ ڈالنے کے لئے لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ہماری قائد قیادت سے زیادہ اپنے اپنے مفادات کی تکمیل اور اپنے وجود کی بقاء کے لئے کام کرتے رہے ہیں، یہ حالات صرف محاذ کے ذمہ داروں کی نہیں بلکہ ملک کے بیشتر علاقوں میں مختلف سیاسی جماعتوں سے جڑے ہوئے مسلم لیڈروں کی ہے، ان کے سامنے بھلے ہی امت مسلمہ کا خاتمہ ہو لیکن وہ اپنے عہدوں، اپنی پارٹیوں اور تنظیموں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، چھوڑنے کی بات تو دور سخت الفاظ میں مذمت کرنا بھی انکے لئے گنوارا نہیں جسکی تازہ مثال آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا انگریزی والاٹوئٹ ہے جس میں پہلے مسجد کی شہادت، رام مندر کی تعمیر اور عدالت کے فیصلے کی مذمت کی گئی پھر اس پیغام کو مصلحت کا حوالہ دیتے ہوئے ڈیلیٹ کردیا گیا۔۔ واضح ہوکہ مسلمانوں کی تاریخ بہادروں،ہمت والوں، شہیدوں اور غازیوں سے بھری پڑی ہے نہ کہ موجودہ وقت بزدل قائدوں کی طرح ماضی میں مثالیں ملتی ہیں ۔ اب امت مسلمہ کو بھی چاہئے کہ وہ دلالوں، قوم کے کنٹراکٹروں، بزدل لیڈروں، پیمنٹ پر کام کرنے والے علماء اور راتوں رات بکنے والے میڈیا کے صحافیوں کا دامن تھامنے کے بجائے خالص امت کا درد اور جذبہ رکھنے والوں کے ساتھ چلیں اور ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر نکالیں اور انہیں اپنا قائد تسلیم کریں ۔اردو کے مشہور شاعر سید ابوبکر مالکی کا ایک شعر ہے۔
مصلحت کا دور ہے، مدمقابل ہے مفاد
کچھ ادھر خاموش ہیں، کچھ ادھر خاموش ہیں

بالکل حالات قوم میں اسی طرح سے پیدا ہو چکے ہیں، مصلحت کی باتیں تو سب کررہے ہیں لیکن انکے مقابل میں جو طاقتیں ہیں وہ اپنے مفادات کو قربان کرتے ہوئے انکے قومی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں اور ہمارے قائدین یہاں بھی خاموش ہیں اور وہاں بھی خاموش ہیں۔


 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197687 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.