آزادی کا ایک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جاوداں سے
زندہ قومیں اپنی قومی تہواروں پر ماضی کی شمع روشن کرتے ہیں اور اس کی
روشنی میں اپنے مخدوش کردار کو مستحکم کرانے کی کو شش کرتیں ہیں۔ چودہ اگست
وہ عظیم دن ہیں جب وطن عزیز کو عالمی نقشہ پر ایک باوقار مقام ملا اور
مسلمانوں نے اپنے دیس کی مٹی کو چھوا باطل کا آسمان جھک گیا اور حق کو فتح
نصیب ہوئی۔
دماغ چشم گو کہ مقصد قیام پاکستان کو ڈھونڈنے میں ناکام ہیں لیکن بانیان
پاکستان کی لازوال اور بے نظیر قربانیاں اس المیے پر غوروفکر کی دعوت دیتی
ہیں۔تاریخ کے اوراق پلٹنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی یے کہ نظریہ پاکستان کے
پیچھے نہ چالباز ہندؤں کی کوئی ناپاک سازش تھی اور نہ ہی کوئی انگریزوں کی
چال۔ بلکہ اس کا مقصد صرف و صرف نعرہ تکبیر کو بلند کرنا اور مسلمانوں کو
مذہبی، اخلاقی، ثقافتی، تہزیبی، معاشی اور زہنی آبادی تھا۔ جیسا کہ 1857 کی
جنگ آزادی سے قیادت مسلمان پاش پاش ہوگی اور مسلم قوم کا شیرازہ بکھر گیا۔
یہ تاریکی کا وہ دور ثابت ہوا جسے سیاہ حروف سے لکھا جانا چاہیے۔ اس ارباب
تاریخ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ
جو تھا نہ خوب بتدریج وہی خوب ہوا۔
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اسی سوچ وفکر کے تحت 1930 کو خداداد علامہ اقبال جیسے دیداور کے ہاتھوں آلہ
آباد کے جم غفیر میں تصور پاکستان پیش کرنے کی توفیق عطا کی اور سونے پہ
سہاگا دس سال بعد قرارداد پاکستان محمد علی جناح جیسے عظیم قائد کی صدارت
میں پیش کی گئی جس میں ایک الگ وطن کے خواب کو اجاگر کر دیا جس نے مسلمانوں
کی روح کو ثراوت، ایمان کو سرور اور جذبات کو حرارت بخشی اور نعرہ آزادی ہر
دل کی دھڑکن بنا اور یہ نعرہ گلی گلی محلے محلے میں گونجنے لگا۔
لے کر رہینگے پاکستان
بن کے رہے گا پاکستان
یہ معنی خیز پہلو نعرہ انگریزوں اور بلخصوص ہندؤوں کے لئے خطرے کا الارم
ثابت ہوا اور بغاوت مسلمان نے بلکہ جدوجہد مسلمان نے باطل کو یہ باور
کروادیا کہ اب ہندوستان کے دروازوں پر ایک انقلاب عظیم دستک دے رہا ہے اور
مسلمانوں کا دریا لاوا بن کر ہندوستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دے گا۔
بلکہ وہ جان گئے کہ اس سیلاب کو کوئ بند نہیں روک سکتا۔ اور اس طغیانی میں
ان کے تمام غلیظ فکر و حرکات اور ناپاک عزائم بہ جائینگے۔ کیونکہ مسلمان
اللّٰہ کی تلوار ہیں اسے تمہاری طرح ان ہتھکنڈوں کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اسی وجہ سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور یہ وہ باب بنا جو تاریخ میں
سرخ خون سے لکھا گیا۔ چودہ اگست وہ داستان غم ہے جس کے دامن میں دکھوں اور
ٹیسوں کے بہتے دریا ہے۔ اس عظیم دھرتی کو پانے کے لئے نہ جانے کتنے پھول سے
طفلان والدین کے سائہ شفقت سے محروم ہوئے، کتنی سہاگنوں نے بیوگی کی کالی
چادریں اوڑھ لی۔ بے تہاشہ بنات آدم بے آبرو ہوئیں لاکھوں ابنان آدم کے جسم
کو ریزہ ریزہ کر دیا گیا۔ گوشت پوشت کو الگ کر دیا گیا۔ یہ حریت پسندی کی
انتہا تھی کہ دیدہ بینا نے وہ منظر دیکھا جسے زبان بیان نہیں کر سکتی۔ اور
قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ یہی خون و پسینہ سے ہی محنت اور لگن رنگ لائی اور
پاکستان معرض وجود میں آیا۔ مسلمان آگ و خون کا دریا کاٹ کر اس عظیم ملک کی
سرحدوں پر پہنچے اور سجدہ ریز ہو گئے اور ہواؤں نے بھی گن گائے کہ
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جلتے ہیں
قاریین! میرا سوال ہے خود سے اور آپ سب سے کہ ہم اس ملک کے ساتھ کیا کر رہے
ہیں۔ کیا ہم یہ سوچھ رہے ہیں کہ پاکستان ایک جزباتی فیصلہ تھا۔ یا اسے ہم
نے لوٹنے کے لئے بنایا ہے جہاں ہم گورے حکمرانوں کو کالے حکمرانوں میں بدل
ڈالیں اور جنگل کا قانون نافظ کر کہ وحشی جانوروں کی طرح ایک دوسرے کو نوچ
سکیں؟
نہیں! ہر گز نہیں پاکستان کا مقصد نظام خلافت کا قیام تھا۔ ایسی ریاست
بنانا مقصود تھا۔ جہاں صرف خدا کی حکمرانی ہو، اسلام کا دور دورہ ہو۔ یہ
بات میں اپنی ملانہ زہنیت کی بنیاد پر نہیں کر رہی بلکہ قائد اعظم کا فرمان
ہے کہ
ہم نے پاکستان اس لئے حاصل کیا ہے کہ اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنا سکے۔
اسی لئے ہمیں اپنی سوچ وفکر وعمل کو اصلاح دینی ہوگی۔ گھروں کی منڈیریں گلی
کوچے بازار جھنڈیوں سے سجا کر اور پرچم لہرا کر جشن نہیں منائے جاتے اور نہ
ہی اظہار حب الوطنی کا مؤثر طریقہ کار ہے۔ بلکہ ان دنوں کی یاد میں اپنے
کردار کی ڈوریں سنواریں جاتی ہیں۔ ہمیں اپنا یہ پہلو بدلنا ہوگا اور کچھ کر
دکھانے کی ٹھان لینی ہوگی اور ضرور کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہم لاکھوں
شہیدوں کے خون کے مقروض ہیں۔ ہمیں آزادی کے اس انمول تحفہ کی بہت بڑی قیمت
ادا کرنی ہے۔ ہمیں اس ملک کو توڑنے کی سزا بھگتنی ہے کیونکہ ابھی عرض
پاکستان کے سینے میں وہ خونی مناظر نقش ہے جب خاکی فرش نے سرخ رنگ اوڑھ لیا
تھا اور بنت ہوا کے تار تار ہوتے سبز آنچل کو دیکھ کر أسمان نے بھی نگاہیں
موڑ لیں۔ اسی لئے اس دن کی نوید آمد کے ساتھ فضا میں سوگواریت رچ جاتی ہے۔
میں اس تجدید عہد کے خاص دن اور موقع پر اپنے معزز ہم وطنوں سے گزارش
کرونگی کہ خدارا اپنے جزبات حریت کو جگائیں اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ اگر
قیامت کے روز اللّٰہ نے آپ کو پکار کر کہا کہ پاکستانیوں!! کیا تم نے
لااللہ الا اللہ کے مقصد قیام پر کاری ضرب نہیں لگائی۔ کیا تم نے محمد علی
جناح کی امانت میں خیانت نہیں کی۔ تو تم کیا منہ دکھاؤگے، کیا جواب دو گے،
کیا لب کشائی کروگے جب خدا کی عدالت میں قائد اعظم نے اپنی زندگی اپنی
دھرتی مٹی کے ساتھ کئے جانے والے مظالم کا جواب مانگا۔ وہ قبر میں ضرور
اپنی تڑپتی روح کی وجہ پوچھینگے۔ وہ ضرور وصال کے بعد کی صورتحال پر اشک
بار ہونگے۔
جان لو آج قائد اعظم تمھارے دروازے پر کھڑے اپنے چمن کی سلامتی کی بھیک
مانگ رہے ہیں وہ اپنی حریت چاہتے ہیں۔ وہ دامن پھیلائے اس گلشن کی سیرابی
کو ترس رہے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے خود کو بدل لو۔ اپنے افکار کو مسلمان بنا
لو۔ اپنے روح کو پاکستان کے سانچے میں ڈھال لو۔ سنت پیر کامل کو زندہ کر دو۔
روح قائد کو ثراوت بخش دو۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے ضمیر سے انصاف کرو۔ اقبال
جیسی صداقت پیدا کرو۔ قائد کی عدالت کو تجدید دو۔ جیسے مصور پاکستان اور
شاعر مشرق نے تمہیں کہا۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔
میں اپنی تحریر کا اختتام اس ارادے اور وعدے سے کرونگی کہ ہم سب کتاب و سنت
کی پیروی کرتے ہوئے اس ملک کی خدمت کرینگے۔ ریش روانی شیطان سے خود کو اپنے
ملک کو محفوظ رکھیں گے۔ دشمنوں کے خلاف تسبیح کے موتیوں کی طرح ایک لڑی میں
پرو کر لڑینگے اور اسلام کے مضبوط قلعے کی حفاظت کرینگے اور اس کے لئے اگر
ہمیں اپنی جان، مال اور گھر کو قربان کرنا پڑے تو ہم فراغ دلی سے کام لینگے۔
یہاں تک کہ سر کٹائیں گے لیکن اپنی آزادی و خود مختاری کو داؤ پر نہیں
لگائیں گے۔ خدا پاکستان کو قیامت کی سحر ہونے تک قائم و دائم رکھے۔ آمین۔
پاکستان زندہ آباد
|