امریکی میگزین دی ٹائمز نے سن 2001 اکتوبر کے شمارے کے
ٹائٹل پر ملاعمر کی تصویر لگا کر (The last day of the Taliban) کا عنوان
لگایا تھا ، آج بیس سال بعد ہمیں ستمبر 2021کے شمارے کا شدت سے انتظار ہے
کہ اب وہ کیا عنوان دے کر شمارہ شائع کریں گے۔
کابل کی فتح سے محض دو روز قبل ہی امریکی انٹیلی جنس نے یہ خبر دی تھی کہ
طالبان کو کابل پہنچتے پہنچتے نوے دن لگ جائیں گے، لیکن طالبان نے نوے دن
کا سفر محض چوبیس گھنٹوں میں طے کرکے امریکی انٹیلی جنس کی قابلیت کو چار
چاند لگا دیے۔
افغانستان نے پہلے بھی کئی یوم آزادی حاصل کیے لیکن پندرہ اگست 2021 کا یوم
آزادی پچھلے تمام سے نمایاں ، عبرتناک اور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، یہ بھی
اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ جو جتنی بڑی طاقت ہوتی ہے اللہ اسے اتنی ہی
عبرتناک اور ذلت آمیز شکست سے دوچار کرتا ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر کی
اسلامی تحریکوں، تنظیموں اور علمائے کرام کی طرف سے مبارک باد ی پیغامات کا
سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔
اس وقت فتح کابل کے بعد مکمل کنٹرول طالبان کے پاس ہے، سوائے کابل ایئرپورٹ
کے جہاں امریکی اور دیگر غیرملکی اپنے اپنے لوگوں کو نکالنے کے لیے موجود
ہیں، چونکہ گیارہ ستمبر تک معاہدے کی رو سے یہ افواج افغانستان میں رہ سکتی
ہیں اس لیے وہ یہاں موجود ہیں، اور اپنا بوریہ بستر اٹھانے کے لیے دن رات
کام کررہے ہیں۔اسی طرح ترکی جس نےاسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے
حقیر ملکی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے ہر صورت کابل ایئر پورٹ پر موجود
رہنے کا عندیہ دیا تھا جس کے بدلے میں کچھ رعایات امریکا سے حاصل کرنی
تھیں، لیکن صورت حال ایسی بدلی کہ اب ترکی نے بھی کابل ایئرپورٹ چھوڑنے کا
اعلان کردیا ہے۔
کابل ایئرپورٹ پر پچھلے دو دن سے بہت افراتفری کی صورتحال ہے، جسے مغربی
میڈیا طالبان کا خوف قرار دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ افغان
عوام افغانستان سے بھاگنا چاہتی ہے اسی لیے یہاں رش لگی ہوئی ہے۔ حقیقت حال
یہ ہے کہ ایئرپورٹ پر صرف ان لوگوں کا رش ہے جنہوں نے بیس سال تک افغانستان
میں امریکا کی خدمت کی، ان کے کسی بھی صورت(ترجمانی، جاسوسی،نوکری وغیرہ)
میں تعاون کیا تھا اور امریکا نے اس کے بدلے ان کو یقین دہانی کروائی تھی
کہ اگر حالات خراب ہوئے تو انہیں امریکا منتقل کردیا جائے گا، اور ایک بہت
بڑی تعداد کو پہلے سے ہی ویزے وغیرہ بھی دیے ہوئے تھے۔ اور یہی وہ لوگ تھے
جو بیس سال تک غیر ملکی افواج کے سہولت کاراور افغانستان میں امریکیوں کے
مددگار تھے، اگرچہ طالبان نے سب کے لیے عام معافی کا اعلان بھی کردیا تھا،
لیکن امریکا کو اپنا خدا سمجھنے والے کہاں یقین کرسکتے تھے کہ انہیں کچھ
نہیں کہا جائے گا، ایئرپورٹ کوئی پیرودھائی کا اڈا اور اس پر کھڑے جہاز
نیوخان کی بسیں نہیں کہ جس کا دل چاہے اندر داخل ہوجائے اور جہازوں میں
بھیڑبکریوں کی طرح سوار ہوجائےبلکہ ان تمام لوگوں کے پاس امریکی ویزےاور
جہاز کی ٹکٹیں موجود تھیں جوانہوں نے اپنا وطن بیچ کر حاصل کی تھیں۔یہ بیس
سال تک امریکا کی خدمت کرتے رہے اور اب پانی میں چھری نظر آنے کی وجہ سے ہر
صورت نکلنا چاہتے ہیں۔ لیکن چونکہ نوے دن کا سفر طالبان نے چوبیس گھنٹوں
میں طے کرلیا تھا اس لیے افراتفری پھیل گئی اور اڈے پر رش بن گئی۔
مختلف ممالک کے اعلانات
برطانیہ، یورپی ممالک، اور امریکا نے افغانستان سے اپنے اپنے سفارت کار
واپس بلانے اور سفارتی تعلق ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے نتیجے میں ان
ممالک کے اتحادی ممالک بھی ایسا ہی کررہے ہیں، جبکہ خطے کی اہم عسکری اور
معاشی طاقتوں میں سے روس، چین پاکستان نے طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو
نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ مزید تعاون کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
پاکستان اور روس نے اپنے اپنے سفارتخانہ بند نہ کرنے کا واضح اعلان کردیا
ہے۔اور چین کی وزارت خارجہ مسلسل یہ اعلان کررہی ہے کہ چین طالبان کے ساتھ
برادرانہ تعلقات رکھنے اور مختلف شعبوں میں کام کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ ایرانی
صدر نے بھی امریکا کی شکست، اور فتح کابل کو افغانستان میں آئندہ امن کی
نوید قرار دیا ہے۔
طالبان نے نہایت ہی فراخ دلانہ طریقے سے تمام دشمنوں کے لیے عام معافی کا
اعلان کرتے ہوئے میدان جنگ میں گرفتار کمانڈروں تک کوعزت و احترام دیتے
ہوئے اس امید پرمعاف کردیا ہےکہ وہ آئندہ کے لیے توبہ کریں گے اور ملک کی
سلامتی اور ترقی میں ان کا ساتھ دیں گے۔لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون
کون اس عبرتناک اور ذلت آمیز انجام سے نصیحت حاصل کرتا ہے۔ طالبان نے دنیا
کے تمام ممالک کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کا ملک کسی بھی دوسرے ملک کے
خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے گا اور ساتھ ساتھ اس امید کا بھی
اظہار کیا ہے کہ کوئی بھی ملک افغانستان کے خلاف بھی اپنی سرزمین استعمال
نہیں کرے گا۔ طالبان نے انڈیا کو بھی کہا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ
برادرانہ تعلقات رکھتے ہوئے افغانستان میں اپنے شروع کیے ہوئے ترقیاتی
منصوبے جاری رکھنا چاہے تو جاری رکھ سکتا ہے۔
میڈیا کا کردار
اس ساری صورت حال میں یورپی اور امریکی میڈیا کا کردار انتہائی گھناونا رہا
ہے، خاص طور پر بی بی سی، وائس آف امریکا اور ڈی ڈبلیو کی اردو سروسز کے
سوشل میڈیا اکاونٹس کے ذریعے طالبان کے خلاف جھوٹے اورمن گھڑٹ پروپیگنڈے کا
سلسلہ جاری ہے۔ چونکہ ان میڈیا ہاوسز کا مقصد محض خبر یا انفارمیشن دینا
نہیں بلکہ پروپیگنڈا وار کے ذریعے اپنی بنیاد پرستی، شدت پسندی اور لبرل
وسیکولر ازم مذہب کی ترویج ہے ، اور ان لوگوں کا مذہب یعنی لبرل ازم اور
سیکولر ازم انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کیا
اورکہا جاسکتا ہے اس لیے یہ لوگ سچ اور جھوٹ کو ملاکر پیش کرتے ہیں، میرا
جسم میری مرضی کے فلسفلے کے تحت ان کے ہاں اخلاقیات کا کوئی تصور نہیں،منفی
سوچ اور مایوسی کے عالم میں کھلاتضاداور صریح جھوٹ لکھتے ہوئے بھی ان کو
شرم نہیں آتی۔ لیکن طالبان نےسچ،نرمی، رحمدلی اور اعلیٰ اخلاق کی ایسی
عمارت کھڑی کردی ہے کہ ان کا سارا پروپیگنڈا اس کے سامنے ڈھیر ہوچکا ہے۔
وہ طالبان جنہوں نے اپنے پچھلے دور حکومت میں افیون کی کاشت پر مکمل پابندی
لگا افیون کی فصل کا افغانستان سے خاتمہ کردیا تھا،لیکن امریکا نے آکر اسے
نہ صرف دبارہ شروع کیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ اضافہ کردیا اور اسے باقاعدہ
ایک بزنس کا درجہ دے کر قومی سطح پر دنیا بھر میں افیون کی سمگلنگ کا
کاروبار کیا، اور بارہا پاکستانی بارڈر ایریا میں امریکا کے ایجنٹوں سے
سمگلنگ روکنے پر جھڑپیں بھی ہوئیں لیکن یہ میڈیا ہاوسز اسی غلاظت کو طالبان
کی آمدنی ظاہر کرتے رہے ہیں۔
میڈیا کی اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ
پاکستان اور افغانستان کو بھی اس طرف توجہ دیتے ہوئے ایک ایسا میڈیا چینل
شروع کرنا چاہیے جو عالمی سطح کی رپورٹنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور دنیا
کی تین چار بڑی زبانوں میں بھرپور طریقے سے کام کرے۔ دنیا بھر میں اسلام
اور اسلامی قوتوں کے خلاف جتنا بھی ہوا کھڑا کیا گیا وہ صرف اور صرف میڈیا
کے زور پر تھا اور اسی میڈیا کے زور پر لوگوں کے ذہنوں کو بدلا گیا۔ یہی
میڈیا تھا جس نے روس کے خلاف افغان مجاہدین کی کوششوں کو امریکی اسلحے اور
پیسے کے زور پر شکست کہا تھا، لیکن آج وقت نے ثابت کردیا کہ امریکی پیسہ،
امریکی اسلحہ،اور امریکی ٹریننگ یافتہ فوج ایمان اور مجاہدین کے سامنے
پندرہ دن بھی کھڑی نہ ہوسکی۔اس وقت روس کے خلاف امریکی حمایت محض اتنی ہی
تھی جتنی آج امریکا کے خلاف روس کی طالبان کے ساتھ ہے، تو کیا آج ہم یہ
کہیں گے کہ افغانستان میں امریکا کو شکست روس نے دی ہے؟
|