یومِ آزادی کا جشن عام طور پر ایک دن بلکہ اس کے ابتدائی
چند گھنٹوں تک محدود رہتا ہے اور اس کے بعد تو وہ تعطیل میں بدل جاتا ہے ۔
اس بار وہ اتوار کے دن پڑ گیا جو ویسے ہی چھٹی کا دن تھا لیکن آزادی کی
75؍ ویں سالگرہ ہونے کے سبب اسے بہت خاص اہمیت دی گئی۔ وزیر اعظم نے مارچ
2021 کے اندر ہندستان کی آزادی کے 75 سال کی تکمیل کا جشن منانے کے لئے
گجرات کے سابرمتی آشرم (احمد آباد) سے 'آزادی کا امرت مہوتسو' شروع کرنے کا
اعلان کیا تھا اس لیے ان تقریبات کا سلسلہ ایک دن میں ختم نہیں ہوگا بلکہ
حکومت ہند کی ویب سائٹ کے مطابق 15؍ اگست 2023 تک جاری رہے گا۔ آزادی کا
جشن منانا اچھی بات ہے لیکن اسی کے ساتھ زمینی حقائق کو فراموش نہیں کرنا
چاہیے کیونکہ فی الحال ملک کا سوچنے سمجھنے والا طبقہ اس بابت خاصہ فکر مند
نظر آتا ہے ۔ اس کے لیے آزادی کی نیلم پری کا مستقبل ایک مجسم سوال بن کر
کھڑا ہوا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ حزب اختلاف کے سب سے اہم رہنما کا ٹوئٹر اکاونٹ بند
کروا کر اس کو اظہار رائے کی آزادی سے محروم کردیا جائے۔ فیس بک سے اس
پوسٹ ڈیلیٹ کروادی جائیں۔ سماج کے بااثر لوگوں کے موبائل فون میں پیگاسس
نامی سافٹ ویئر ڈال کر ان کی جاسوسی ہونے لگے۔ اس سنگین مسئلہ پر ایوان
پارلیمان میں مباحثے کے مطالبہ کو غیر سنجیدہ اور غیر ضروری قرار دے کر
مسترد کردیا جائے۔ یہ فکر مندی واجب دکھائی دیتی ہے۔ ایوان کے اندر ارکان
ایک دوسرے کے ساتھ قوم کے سلگتے ہوئے مسائل پر تبادلۂ خیال کرنے کے بجائے
دست و گریباں ہوں ۔ کسانوں کا احتجاج کو سات ماہ گزر جائیں لیکن حکومت اس
کی جانب توجہ دینا ضروری نہ سمجھے ۔ اسٹین سوامی جیسا بزرگ اور بے لوث
سماجی جہد کار عدالتی حراست میں دم توڑ دے مگر اربابِ اقتدار کی کان پر جوں
نہ رینگے ۔ سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کوفساد
برپاکرنے کے جھوٹے الزام میں پابندو سلاسل کردیا جائے اور یلغار پریشد کی
آڑ میں ملک کے بہترین دانشور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیئے جائیں تو
یوم آزادی کی تعطیل اور اس کی صبح لال قلعہ کی تقریب ایک رسم بن جاتی ہے۔
اظہار رائے یا اختلافِ رائے کی آزادی کے بغیر حریت کا تصور ناقص ہے۔ اظہار
رائے کی آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یوم آزادی کے دن کو ئی اعلان کردے
کہ قوم یہ 75 ویں سالگرہ وزیر اعظم کی بدولت منارہی ہے۔ وہ اگر نہ ہوتے تو
آزادی کی نبض 70 سے قبل رک جاتی اور قوم اس دن سالگرہ کے بجائے برسی مناتی
۔ وزیر اعظم کی مانند ہر کسی کو اپنے من کی بات عوام کے سامنے پیش کرنے کا
حق ہے لیکن یہ خودساختہ آقا اور اس کے احمق غلام کسی اور کے دل کا دکھ درد
سننے کے قائل نہیں ہیں۔ ویسے یہ بات بھی غلط ہے کہ یہ کسی کی نہیں سنتے ۔
یہ ان سے کیے جانے والے مطالبات کی ان سنی تو کردیتے ہیں لیکن مبینہ طور پر
چھپ چھپ کر جاسوسی کے ذریعہ نجی باتیں سن لیتے ہیں ۔ عام لوگوں کی نہ سہی
لیکن جن سے انہیں کوئی اندیشہ لاحق ہو ان کی ذاتی گفتگو بھی گرہ سے باندھ
لیتے ہیں تاکہ انہیں ڈرا ، دھمکا اور بلیک میل کرکے اپنا کام نکالا جاسکے ۔
اسی لیے غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی بھی جاسوسی کی جاتی ہے تا کہ ان پر
لگام لگا کر قابو میں رکھا جا سکے اور جو نہ آئے اس پر سی بی آئی اور ای
ڈی کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسے میں تصور آزادی پر ایک سوالیہ نشان تو لگ ہی
جاتا ہے؟
عوام کے من کی بات کو اس لیے نظر انداز نہیں کیا جاتا کہ وزیر اعظم کو
اظہار رائے کی آزادی کی اہمیت کا احساس نہیں ہے بلکہ اپنا عہدہ سنبھالنے
کے ایک ماہ بعد ایک خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہماری جمہوریت اس وقت تک
قائم نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم اظہار رائے کی آزادی کو یقینی نہ بنائیں ۔
جس شخص کو اس بات کا علم ہو اور پھر بھی اگر وہ عوام کا گلا گھونٹے تو یہی
مطلب ہوگا کہ اسے جمہوریت کی بقاء میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے
ایک مرتبہ یہ بھی کہا تھا کہ اظہار کی آزادی انسانی حقوق کی بنیاد ،
انسانی فطرت کی جڑ اور سچائی کی ماں ہے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ اگرکسی کے
تمام انسانی حقوق کو سلب کرنا ہو تو اس سے اظہار آزادی چھین لی جائے اس
لیے کہ ایسا کرنے سے بنیاد ہی ڈھے جائے گی ۔ اظہار رائے پر قدغن لگانے سے
اگر انسانی فطرت کی بیخ کنی ہوگی تو کون جانے کہ پھر اس کی جگہ حیوانی فطرت
لے یا شیطانی فطرت نمودار ہوجائے۔ وزیر اعظم نے مزید فرمایا تھاکہ اس کا
قتل انسانی حقوق کی توہین ، فطرت کو کچلنا اور سچائی کو دبانا ہے۔ اتنی
اونچی باتیں کرنے والا اگر خوداس پر عمل نہ کرے تو یہی مطلب ہے کہ اس نے
اسے سمجھا ہی نہیں اور کا مقصد صرف تالیاں بجواناتھا ۔ ان کا عمل کی دنیا
سے کوئی کوئی تعلق نہیں ہے۔
فرینک لا رئیو اقوام متحدہ کے روداد نویس اور معروف دانشورہیں ۔ ان کے
مطابق اظہار رائے کی آزادی نہ صرف ایک بنیادی حق ہے بلکہ دیگر حقوق بشمول
معاشی ، معاشرتی اور تہذیبی کی حصولیابی میں معاون بھی ہے۔ ان کے تحت تعلیم
کا حق، اور ثقافتی سرگرمیوں میں شرکت کا حق یا سائنسی ترقی سے استفادہ کا
حق بھی شامل ہے ۔ اسی کے ساتھ سماجی وسیاسی حقوق مثلاً تنظیم بنانے کی
آزادی اور اجتماعات کے انعقادکے حق کا بھی شمار ہوتاہے۔ اس جامع تعریف کا
مطلب یہ ہے کہ اس ایک حق کو سلب کرلینے سے باقی حقوق کی حصولیابی کا دروازہ
ازخود بند ہوجاتا ہے۔ اس تناظر میں اگر اختلافِ رائے کی آزادی اور حریت
فکرو عمل کے درمیان چولی دامن کا ساتھ نظر آتا ہے۔ یعنی جہاں آزادی نہ ہو
وہاں اختلاف کی گنجائش ازخود ختم ہوجاتی ہے اور جہاں لوگ کوئی اختلاف نہ
کریں اور ہر بات کو آنکھ موند کر تسلیم کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ
انہوں نے اپنی آزادی کو رہن رکھ دیا ۔ مختلف افراد کے درمیان اتفاق و
اختلاف چونکہ فطری شئے ہے اس لیےبندوں کے درمیان ایسا تعلق اندھی تقلید
کہلاتا ہے ۔
آزادی کے ۷۴ سال بعد یہ سوال بہتوں کو پریشان کرتا ہوگا کہ آخر وہ خواب
کیا ہوئے کہ جن کی خاطر یہ جنگ لڑی گئی تھی اور بے شمار قربانیاں پیش کی
گئی تھیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے ۔اس لیے
ایک معروضی خود احتسابی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ کے دن
انگریز ی سامراج سے تو نجات مل گئی لیکن اس کے باوجود مغربی نظریات کی
غلامی ختم نہیں ہوئی ۔ یعنی ہاتھ بدل گئے مگر نظام نہیں بدلا اس لیے شدت
میں کمی کے باوجود استحصال اپنے نئے انداز میں جاری رہا ۔ عالمی سطح پر وہ
سرد جنگ کا زمانہ تھا ۔ ساری دنیا کے ممالک دائیں اور بائیں بازو والوں میں
منقسم تھی۔ نہرو ، ناصر اور ٹیٹو نے غیر جانبدار ممالک کا درمیانی الحاق
بنایا لیکن اس کا بھی واضح جھکاو دائیں جانب تھا۔ وطن عزیز میں ساری سیاسی
جماعتیں مغربی نظریات کی حامی تھیں ۔ کوئی اشتراکیت کا دیوانہ تو کوئی
سرمایہ داری کا دلدادہ تھا۔ مغرب کی نظریاتی مخالفت کا دم بھرنے والے سنگھ
پریوار نے مغرب کی فسطائیت کو اپنے لیے نمونہ بنارکھا تھا۔
پنڈت نہرو کا جھکاو سوشلزم کی جانب تھا اور اس سے ابتدا میں غریب عوام کا
کسی قدر فائدہ ہوا مگر فطرت سے ٹکراو کے سبب وہ نظریہ عالمی پیمانے پر
ناکام ہوگیا۔ اس کے بعد نرسمھا راو نے سرمایہ داری کو درآمد کیا ۔ اٹل جی
نے اس کو پروان چڑھایا ۔ منموہن تو خیر اسی کے پروردہ تھے مگر مودی نے اس
کو کرونی یعنی غالی سرمایہ داری میں بدل دیا۔ اس نظام کے اندر سرمایہ دار
اور سرکار کے درمیان ایک یارانہ ہوجاتا ہے اور دونوں مل کر عوام کا استحصال
کرتے ہیں۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں تو کسی حد تک حکومت عوام کو سرمایہ
دار کے استحصال سے بچاتی ہے مگر یہاں بازی الٹ جاتی ہے۔ عوام کو نعروں سے
بہلایا جاتا ہے اور سرمایہ داروں کی پشت پناہی کی جاتی ہے ۔ کسان بل اس کا
سب سے بڑا ثبوت ہے۔ یہاں سوچنے والی بات یہ ہے جو نظریات مغربی ممالک سے
تفریق و امتیاز اور عوام کا استحصال ختم نہیں کرسکے وہ ہندوستان میں یہ کام
کیسے کرسکیں گے؟ ان سارے نظریات میں خدا بیزاری اور انسانوں کی غلامی مشترک
ہے۔ جمہوریت میں کہنے کو حکمراں عوام کا غلام ہوتا ہے مگر حقیقت میں عوام
حکمرانوں کے غلام ہوتے ہیں۔ انسان جب تک اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نکل
کر اللہ کی بندگی میں نہیں آجاتا اس وقت تک حقیقی آزادی کا سورج طلوع
نہیں ہوگا اورفیض کو کہنا پڑے گا؎
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
|