ٹویٹر اور ٹیوٹر

 ہمارے ہاں سیاست چمکانے کیلئے سانحات کاانتظاراوران کاراستہ ہموار کیاجاتا ہے،سانحہ رونماہونے کے بعد حکمران،سیاستدان بظاہرمتحرک ہوجاتے ہیں اورپھر چندروز بعد اگلے سانحہ تک خاموشی ہوجاتی ہے۔انفرادی اوراجتماعی" اصلاح" کیلئے کوئی حکمران "اصلاحات" کرنے کیلئے تیار نہیں۔معاشرے کامزاج بھی حکمرانوں اورسیاستدانوں سے مختلف نہیں ۔ جہاں تک معاشرے میں ہونیوالی مجرمانہ اورمتشددانہ سرگرمیوں کاتعلق ہے توہمارے تفتیشی آفیسرز اور منصف سے پہلے مٹھی بھر متعصب افرادنہ صرف حتمی نتیجہ پرپہنچ جاتے ہیں بلکہ فیصلہ بھی سنادیا جاتا ہے ۔ کسی بھی وقوعہ کاچالان تیاراورعدالت میں سماعت شروع ہونے سے قبل ملزمان کی تصاویرپبلک کردی جاتی ہیں اور انتہائی منظم انداز سے ان کا میڈیا ٹرائل کیاجاتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ بدعنوان طبقہ اپنی دمڑی اورچمڑی بچانے کیلئے ریاست اورریاستی اداروں پرکیچڑاچھالتا ہے۔ہمارے معاشرے میں افواہ ساز گروپس بہت منظم ، مستعد اوراپنے کام میں ماہرہیں۔سوشل میڈیا پرابوجہل کی باقیات کا راج ہے۔نوجوان طبقہ میں سوشل میڈیا پر"وائرل" یعنی "آوارہ " ہونے کے جنون سے ہماری روایات اور اخلاقیات کاجنازہ اٹھ گیاہے ۔ چندہزار چھورے اورچھوریاں انتہائی چھچھورے اوربھونڈے انداز سے ٹک ٹاک اوردوسری واہیات ایپس پرہمار ی قومی حمیت تار تار کررہے ہیں جبکہ ریاست کی حیثیت خاموش تماشائی سے زیادہ کچھ نہیں۔کسی داناکاکہنا ہے معمولی دشمنی اوربیماری کو پالنادانائی نہیں لہٰذاء حکومت مستند صحافیوں کے سوا شعبدہ بازوں اوراناڑیوں کے نام نہاد یوٹیوب نیوزچینل ، ٹک ٹاک اوراس جیسی واہیات ایپس فوری بند یاپھر اخلاق سوز واقعات پربازاری قسم کی بیان بازی بندکرے۔اگر حکومت نے بروقت راست اقدام نہ کیا توڈر ہے مینارپاکستان میں شہرت کی ہوس میں جو سٹنٹ کیاگیا وہ دوسروں کوبھی تاریک راہوں پرلے جائے گا ۔مینارپاکستان کے سبزہ زار میں ہونیوالے چیپ پبلسٹی سٹنٹ سمیت زیادہ ترناپسندیدہ واقعات کے سلسلہ میں سچائی تک رسائی یقینی بنائے بغیر رائے قائم کرلی جاتی ہے جبکہ حکمران موثر اقدامات اٹھانے سے زیادہ سطحی بیانات دینے پرزور لگاتے ہیں۔

اس گمراہ عورت کی اپنے چھچھورے نامحرم آشنا کے ساتھ بیسیوں نازیبا ویڈیوز منظرعام پرآنے کے باوجود حکمرانوں کوہوش نہیں آیا، عثمان بزدار نے لاہور پولیس کے فرض شناس ڈی آئی جی آپریشنز ساجد کیانی کواوایس ڈی جبکہ مستعد ایس ایس پی آپریشن سیّد ندیم عباس کو سی پی او ٹرانسفر کردیا۔ان دونوں انتھک آفیسرز نے لاہورمیں متعدد حساس مقامات ہوتے ہوئے یکم محرم سے یوم عاشور تک امن وامان برقراررکھنے کیلئے زوروشور سے کام کیااورکامیابی سے اپنا فرض منصبی انجام دیا۔14اگست کو پانچواں محرم تھااورلاہورپولیس نے اپنے دوراندیش کمانڈر غلام محمودڈوگر کی قیادت میں نفری کی ریکارڈقلت کے باوجود سردھڑ کی بازی لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ یکم محرم سے دسویں محرم کے دوران شہرکاپرامن رہنا لاہورپولیس کی شبانہ روز محنت،ٹیم ورک اورپیشہ ورانہ مہارت کاثمر ہے۔لاہورپولیس کے پروفیشنل سی سی پی اوغلام محمودڈوگر ،زیرک ڈی آئی جی آپریشنز ساجدکیانی ،پرجوش ایس ایس پی آپریشنز سیّد ندیم عباس اورپرعزم ایس پی سٹی حسن جہانگیر سمیت دوسرے آفیسرزاوراہلکار ماہ محرم کی حساسیت کے پیش نظر منظم اورمستحسن انداز سے ایک ایک مجلس ،جلوس اورامام بارگاہ کی حفاظت یقینی بنا نے میں کامیاب رہے ، ا س کامیابی پرانہیں سراہاجانا تبدیلی سرکار کافرض اوراس پرقرض تھا لیکن مینارپاکستان واقعہ کوبنیادبناتے ہوئے ساجدکیانی،سیّد ندیم عباس اورحسن جہانگیرکو ان کے منصب سے ہٹادیا گیا تاہم عوام نے بزدار کے اس متنازعہ ترین اقدام کومسترد کردیا ہے۔ متنازعہ واقعہ کی تحقیقات منظرعام پرآنے سے قبل پولیس حکام کوانتقام کانشانہ بنانا اختیارات سے تجاوز اورپولیس کے معاملات میں بیجا مداخلت کے سواکچھ نہیں،اس سے پولیس فورس میں بدترین بددلی اوربداعتمادی پیدا ہوگی۔ جنت نظیرکشمیرکے باضمیر فرزند ساجدکیانی،سیّد ندیم عباس اورحسن جہانگیر کوعزت کے ساتھ ان کی حالیہ پوزیشن پربحال کیاجائے۔ ارباب اقتدار کانوں کے کچے ہیں ،مینارپاکستان والے معاملے میں حکمران طبقہ اپنا اپناکان دیکھے بغیر کتے کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔

شرم وحیاء سے محروم، فتنہ پرور اورگمراہ خاتون کو"قوم کی بیٹی" اورستم زدہ کہاجارہا ہے جبکہ میرے نزدیک وہ اوراس کے حواری ملعون،"قومی مجرم" اورقابل گرفت ہیں۔یہ شرم وحیاء سے عاری اورمکاری کی علمبردارخاتون ہرگزقوم کی بیٹی نہیں تاہم یہ ریاست ضرورہماری ماں ہے ۔جوکوئی بدکردار اپنے کسی بدبودار فعل سے ہمارے مادروطن کا تقدس تار تار کرے گاہم اسے ہرگز درگزر نہیں کریں گے ۔اس خاتون کابار بار کسی نامحرم کی بانہوں میں جھولنا ،فحش انداز سے اس کے چہرے کوبار بارچھونااورعوامی مقام پرناچنااسلامی معاشرے میں قابل قبول نہیں ۔جس طرح اس کوتاہ اندیش خاتون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنیوالے کرداروں کیلئے قانون کاشکنجہ تیار کیا جارہا ہے اس طرح اس خاتون اوراس کے نامحرم آشنا کامقام بھی زندان میں ہے،انہیں اس قسم کی بازاری ویڈیوزبنانے اوریوم آزادی والے دن اپنے گھٹیا فالوورز کو مینار پاکستان مدعو اوروہاں امن وامان کی صورتحال پیداکرنے کا حق کس نے دیا۔میرے نزدیک اس خاتون نے خوداپنے اوباش حواریوں کودعوت گناہ دی لہٰذاء اس قانون شکنی پر اسے قانون کی گرفت میں لیا اوراسے قرار واقعی سزا دی جائے ۔میں وثوق سے کہتا ہوں اگر یورپ میں بھی کوئی خاتون کسی عوامی مقام پراس طرح کے واہیات پروگرام کیلئے جاتی تواُس کے ساتھ اِس سے بھی بدترسلوک ہوتا۔اس فتنہ پرورخاتون کالباس کسی نے نہیں پھاڑا تاہم اس کے ساتھ تصاویراورویڈیوز بناتے ہوئے دھکم پیل ضرورہوئی اورجس شخص نے اس صورتحال کافائدہ اٹھایا اورخاتون کو اپنے بازوؤں میں بھرا وہ اس کااپنا نامحرم پارٹنر ہے ۔ اس ملعون خاتون اوراس کے حواریوں کے گھٹیا پن سے ہماری ریاست کاوقارمجروح ہوا جبکہ قومی حمیت کاجنازہ اٹھ گیا ،پاکستانیوں کی بدعا ہے ان کے جنازے بھی اٹھیں اورہماری ریاست کو اس طرح کی نجاست سے نجات ملے ۔قوم کی بیٹیاں باوفا ،باصفا ، باحیاء اور ارفعٰ کریم جیسی ہوتی ہیں ، یہ ملعون خاتون اوراس کے حواری توریاست اورمعاشرت پربوجھ ہیں۔اب مخصوص لوگ مینار پاکستان میں ہجوم کے رویوں پرانگلیاں اٹھارہے ہیں ، میں معاشرے کوبھی شریک مجرم سمجھتا ہوں کیونکہ ہم نے اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ اخلاقیات کی تربیت دینا چھوڑدی ۔ انہیں سیاستدان ، بریگیڈئیر ، ڈاکٹر ،انجینئر اورایڈووکیٹ بنانا ہمارا ہدف ہے لیکن ہم انہیں اسلامیت ،انسانیت اورپاکستانیت سے دورلے جارہے ہیں۔تعلیم تجارت بن گئی جہاں تربیت کاکوئی تصور نہیں، سہل پسند اساتذہ نے تعلیم کو سمارٹ فون پرمنتقل کردیا جوایک فتنہ ہے ۔ہر گلی اور بازار میں موجود موبائل شاپ پر پچاس روپے میں فحش مواد سے موبائل بھردیا جاتا ہے۔دوتین دہائیاں قبل ہماری نانیاں دادیاں ہمارے بچوں کی تربیت کیا کرتی تھیں اب ہمارے بچے موبائل فون کے رحم وکرم پر ہیں۔ موبائل کمپنیوں کے ارزاں پیکیجز نے ہماری انمول نسلیں برباد کردیں۔سادگی اورآسودگی والے دورمیں ایک یادوبیڈروم میں پورا خاندان سماجاتا تھا ،اس سانجھ میں روحانیت اورطمانیت تھی پھر ہم نے بچوں کو پرائیویسی کے نام پر تنہا کردیا اورتنہا ئی میں شیطان کیلئے انسان کوگمراہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

ہمارانادان حکمران اورمفادپرست سیاستدان طبقہ اس ملعون خاتون کے ساتھ ہمدردی کا ڈھونگ کرتے کرتے بند گلی میں جاپہنچا ، مینارپاکستان کے سایہ میں جوسٹنٹ ہوااس پروزیراعظم عمران خان کے بیان نے مقامی نیوز کوعالمی نیوزبنادیا ، مجھے معلوم نہیں وزیراعظم کاہرصوبائی اورمقامی معاملے میں کودنا کیوں ضروری ہے۔وزیراعظم عمران خان کو"ٹویٹر" نہیں بلکہ کسی سلجھے ہوئے سیاسی" ٹیوٹر" کی ضرورت ہے ،اگر عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم پالیسی بیانات بھی ٹوئیٹ کرنے ہیں توپھر وزارت اطلاعات کس مرض کی دوا ہے۔ارباب اقتدار واختیار کی اس ایشو پرپوائنٹ سکورنگ اوراس گمراہ خاتون کے ساتھ اظہار ہمدردی کیلئے آنیاں جانیاں قومی حمیت پرشب خون مارے کے مترادف تھیں ۔ متمدن ملکوں میں حکمرانوں کی زبانیں نہیں چلتیں بلکہ ان کاکام بولتا ہے ۔ مینار پاکستان والے ایشوپر اناڑی حکمرانوں کی عجلت اورمجرمانہ غفلت نے ریاست کی ساکھ کوراکھ کاڈھیر بنادیا ۔ واقعہ کی حقیقت جانے بغیر حکمرانوں کے عاقبت نااندیشانہ بیانات اورسطحی اقدامات پاکستان کوکٹہرے میں لے آئے ۔ میں وثوق سے کہتا ہوں پاکستان خواتین کیلئے پوری طرح محفوظ ہے اورچاروں صوبوں میں مقیم اقلیتیں بھی خوش ہیں۔ مینار پاکستان کے سبزہ زاراورلاہورقلعہ میں رنجیت سنگھ کے مجسمہ کے ساتھ پیش آنیوالے دومختلف واقعات میں مٹھی بھرافراد ملوث ہیں جو قانون کاسامناکریں گے جبکہ پاکستان 22کروڑانسانوں کاملک ہے ۔ معاشرے کے سنجیدہ طبقات نے مینار پاکستان واقعہ کی مرکزی کردار کاموقف مسترد کردیا ۔ واقعہ کی وائرل ہونیوالی ویڈیوز اورچشم دید گواہان کی شہادت اوردوسرے شواہد کی بنیادپر سچائی تک رسائی یقینی بنائی اوراس واقعہ پر بیان بازی بندکی جائے ۔مینار پاکستان کے سبزہ زارمیں ہونیوالے افسوسناک واقعہ کو نادان حکمرانوں نے پوائنٹ سکورنگ کرتے ہوئے مزید شرمناک بنادیا۔پاکستان میں بھی "معقول" نہیں "مقبول" سیاست کارواج ہے ، حکمرانوں اورسیاستدانوں کولگتا ہے ہرواقعہ پربیان نہ دیا توان کی سیاست کاجنازہ اٹھ جائے گا۔ کپتان وضاحت کریں انہیں مقامی ایشوکوبین الاقوامی ایشو بنا کرکیا حاصل ہوا ۔بدقسمتی سے پاکستان کے نام نہاد حکمران،سیاستدان اورشعبدہ بازیوٹیوبر ہمارے مادروطن کو انتظامی طورپرناکام اورعالمی سطح پربدنام کررہے ہیں۔ ایک مادرپدرآزاد "بیٹی " کے ساتھ ہمدردی کی آڑ میں 22کروڑپاکستانیوں کی" ماں" یعنی ریاست کی عزت داؤپرلگانیوالے کردارو ں کوبھی کیفر کردارتک پہنچاناہوگا ۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90411 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.