اس وقت کی سب سے بڑی ریاست مانی جانے والی اترپردیش میں
اسمبلی انتخابات کی تیاریاں ہورہی ہیں اور ہر سیاسی پارٹی اپنے اپنے طو رپر
تیاری کررہی ہے۔ہر قوم ،ذات اور طبقہ اپنی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے
سیاسی پارٹیوں کے ساتھ معاہدے کررہے ہیں۔سب کی کوشش ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں
کے ساتھ اپنے مطالبات پورے کروائیں اور جو بھی حکومت اقتدارمیںآئے وہ ان
کی ضرورتوں کوپورا کرے۔یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی ریاست کی سیاسی جماعت عوام
کےمطالبات کو کس حد تک پور اکرتی رہی ہے،کیونکہ الیکشن گیا تو بات گئی کے
مترادف بھارت میں کام ہوتاہے۔ممکن ہے کہ چند ایک سیاسی جماعتیں اپنے مذاہب
کے لوگوں کو یا پھر اپنے ووٹ بینک کوخوش کرنے کیلئے ان کے مطالبات میں سے
کچھ مطالبات کرتے ہوں۔معمولی سی مثال یہ بھی ہے کہ صرف رام مندرکو بنیاد
بناکر بی جے پی نے پچھلے60 سالوں سے اسے انتخابی مدعہ بنایااور الیکشن میں
کامیابی حاصل کررہے تھے۔پورے60 سال کے بعد انہوں نے رام مندرکے وعدے کو
پورا کرتے ہوئے بابری مسجدکی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنا شروع کیا۔بھارت
میں ہر قوم کے پاس ایک مقصد ہے،دلتوں کے پاس نوکری حاصل کرنااور اونچی ذات
سےچھٹکارا حاصل کرنے کامقصدہے،پسماندہ طبقات کے پاس اچھی زندگی
گذارانا،نوکریاں حاصل کرنااور ریزرویشن کابھرپور فائدہ اٹھانے کا
مقصدہے،اونچی ذات کے پاس نچھلی ذات کو دبا کر رکھنا،نچھلی ذاتوں کو ملنے
والے مراعات یعنی سہولتوں میں کٹوتی کرنا،عیسائیوں کے پاس ان کی قوم کو
آگے لے جانا،تعلیم سے آراستہ کرنااور ان کے مذہب کی تبلیغ کرنے کامقصد
ہے،سکھوں کے پاس مارنے ومرنے کاجذبہ ،غیروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلنا،اپنی
کھیتی وملک سے محبت کرنا ایک اہم مقصد ہے۔لیکن ان تمام سے ہٹ کر اگر
مسلمانوں کودیکھا جائے تو مسلمان بے مقصد زندگی گذاررہے ہیں۔مسلمان ویسے تو
دعاکرتے ہیں کہ "اے اللہ ہمیں دنیا وآخرت میں کامران فرما اور ہمیں بہترین
جزاء عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے بچا"۔یہ دعاتو بہترین ومعنی خیز ہےلیکن
مسلمانوں کی زندگی معنی خیز وبامقصد نہیں ہورہی ہے۔نہ مسلمان دین میں کامل
طریقے سے کامیاب ہونا چاہ رہے ہیں اور نہ ہی دنیاکے معاملات میں ان کی
کامیابی نظرآرہی ہے۔ان کے پاس مقاصد ہی صاف نہیں ہیں،مطالبات بھی ٹھوس
نہیں ہیں اور نہ ہی فکر دور اندیشی کی ہے۔اکثر دیکھا گیاہے کہ جب کوئی
سیاسی جماعت یا حکومت مسلمانوں سے پوچھتی ہے کہ آپ کو حکومت سے کیا چاہیے
تو ان کا سیدھا جواب یہی ہوتاہے کہ انہیں قبرستان کیلئے زمین دی
جائے،مزاروں کیلئے فنڈس دئیے جائیں،جھنڈے کے پیڑوں کیلئے فنڈس دئیے
جائیں،قبرستان کی دیوار تعمیر کی جائے یا پھر قبرستان میں بجلی کے بلب
لگائے جائیں،یہی مسلمانوں کا مطالبہ رہاہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ مسلمان
اپنی زندہ دلی اور زندہ ہونے کا احساس دلانے کیلئے زندوں کیلئے کچھ
مانگتے،تعلیم کے شعبوں کیلئے کچھ مانگتے،روزگارکے مواقعوں کا مطالبہ
کرتے،اسکول و کالجوں کی تعمیر کیلئے حکومتوں پر دبائوڈالتے،اردو زبان کی
ترقی کیلئے مطالبہ کرتے،اسپتالوں کی تعمیر کیلئے مطالبہ کرتے،لیکن نہیں
،مسلمانوں کو قبرستان کی ترقی چاہیے۔سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان پیدا ہوتے ہی
مرجاتے ہیں جو باربار قبرستانوں کی فرمائش لیکر سیاستدانوں کے پاس پہنچتے
ہیں،ملک میں سب سے زیادہ زمینیں تو مسلمانوں کے پاس ہیں،مسلمانوںکے اوقافی
اداروں کے پاس جتنی زمینیں ہیں وہ مسلمانوں کی قبروں کیلئے کیا وہاں تو بڑی
بڑی مزاروں کیلئے بھی گنجائش ہے۔مگر حالات،مسائل،مستقبل اور حال سے نا واقف
قوم کے رہبر اپنی سیاست چمکانے کی خاطر قبرستانوں کو پیٹھ لگائے بیٹھے ہیں
اور ایک ہی مطالبہ کرتے ہیں کہ قبرستانوں کیلئے جگہ دیں۔ویسے بھی اسلام میں
نئے نئے قبرستانوں کا رواج نہیں ہے،پرانی قبروں کودوبارہ استعمال کرنے
کیلئے شریعت میں گنجائش ہے تو پھر کیوں مسلمان قبرستانوںکے پیچھے پڑے ہوئے
ہیں۔جو قبرستان پہلے سے موجودہیں اُن پر تو خود مسلمانوں نے تحفظ کے نام پر
قبضہ کررکھاہے یا پھر قوم کےنام پر انہیں اینٹھنے کی کوشش کی ہے۔ضرورت اس
بات کی ہے کہ بھارت کے مسلمان مرے ہوئے لوگوں کیلئے قبرستانوں کا مطالبہ
کرنے کے بجائے زندہ انسانوں کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے پیش رفت کریں،تب
جاکر قوم میں کچھ ترقی آسکتی ہے۔
|