سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے

اندور میں ہجومی تشدد کی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف شاعر عمران پرتاپ گڑھی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ایک ایسا تلخ سوال کردیا کہ اس سے چہار جانب سناٹا چھا گیا۔ انہوں نے شیو راج حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’’یہ ویڈیو افغانستان کا نہیں ہے بلکہ آج کے اندور کا ہے۔ شیو راج سنگھ جی کے خوابوں کے مدھیہ پردیش میں ایک چوڑی بیچنے والے مسلمان کا سامان لوٹ کر کھلے عام بھیڑ سے لنچنگ کروائی جاتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی جی کیا یہی ہندوستان بنانا چاہتے ہیں آپ؟ ان دہشت گردوں پر کارروائی کب (ہوگی)؟‘‘ یہ تبصرہ افغانستان سے متعلق جو اندیشے تھے اس پر تو صادق آتا ہے لیکن حالیہ زمینی صورتحال پر نہیں ۔

افغانستان فرار ہونے والوں کی ہیبت ناک تصاویر تو سوشیل میڈیا میں خوب گردش کررہی ہیں لیکن وہاں سے واپس آنے والوں نے صاف کہا ہے کہ انہیں طالبان نے کوئی تکلیف نہیں دی بلکہ بحفاظت ہوائی اڈے تک پہنچانے کے تعریف و توصیف ہی کی۔ تمل مجمدار اور دیگر حضرات کی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے۔ افغانستان کے اندر پنج شیر میں مسلح تصادم کی تصویریں بھی آرہی ہیں جہاں دونوں جانب سے گولیوں کا تبادلہ بھی ہورہا ہے۔ فوجی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں مگر عام لوگ اس میں شامل نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس اندور کی مانند کئی لوگوں کے کسی ایک نہتے پر فرد پر پل پڑے ہوں ایسی ویڈیو ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی۔ عمران پرتاپ گڑھی کو یہ فرق معلوم ہونا چاہیے کہ وہاں پر مجاہدین اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور غیر ملکی فوج اور ان کے آلۂ کار غلاموں سے مقابلہ کرتے ہیں اس کے برعکس یہاں ایک نہتے بے قصور پر کئی لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں۔

ایک فرق یہ بھی ہے کہ وہاں جب سکھوں کے اندر خوف پیدا ہوتا ہے اور وہ ازخود اپنا پرچم نشان صاحب گردوارے سے اتار لیتے ہیں تو طالبان کا نمائندہ ملاقات کرکے انہیں امن و سلامتی کی یقین دہانی کراتا ہے۔ یہاں پر متاثر فرد کے خلاف الٹا مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے اور صوبائی وزیر داخلہ نروتم مشرا مظلوم کے خلاف اوٹ پٹانگ بیانات دے کر اس پر ہونے والے ظلم کو حق بجانب ٹھہراتے ہیں۔ ایسا نہ افغانستان میں ہورہا ہے اور نہ دنیا کے کسی مہذب ملک میں ہوتا ہوگا۔ آج تک نیوز پورٹل پر تین دن قبل شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق تسلیم علی عرف بھورا نامی چوڑی فروش اتوار کو دوپہر دو بجے کے بعد گووند نگر کالونی میں چوڑی بیچ رہا تھا۔ اس دوران کچھ شر پسند عناصر نے اس کے ساتھ مار پیٹ کی اور پیسے بھی چھین لئے۔ تسلیم علی کے ساتھ یہ بدسلوکی اس کا نام پوچھنے اور مذہب جاننے کے بعد کی گئی۔

اس سانحہ کے بعد عمران پرتاپ گڑھی نے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں چوڑی فروش سے فون پر بات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ وہ مالی نقصان کی بھرپائی اپنی جیب سے کریں گے لیکن سب سے بڑا نقصان اس کے ساتھ ہونے والا ظلم ہے اور ظالموں کو قرار واقعی سزا دلانے کا ہے۔ یہ انتظامیہ اور مہذب سماج کی اولین ذمہ داری ہے۔ عمران پرتاپ گڑھی نے پولیس پر اس معاملہ میں لیپا پوتی کا الزام لگا کر قانونی مدد کا بھی یقین دلایاہےجو قابلِ ستائش ہے۔ تسلیم علی کے معاملے میں اندور کے وانگانگ تھانہ کے افسران نے مارپیٹ کرنے والے تینوں اہم ملزم راکیش پوار، راجکمار بھٹناگر اور وویک ویاس کو 24 گھنٹے کے اندر گرفتار کرلیا ۔ ان میں سے ایک کو گوالیار سے دھر دبوچا گیا ۔ اس بابت ایس پی آشوتوش باگری نے یہ اچھی خبرسنائی کہ باقی ملزمین کی شناخت ہوگئی ہے اور انہیں بھی بہت جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہو جانے کے بعد پولس اپنی ذمہ داری مستعدی سے نبھا رہی تھی کہ درمیان سیاسی موڑ آگیا اور ایک تیرہ سال کی لڑکی کے ذریعہ چھیڑ چھاڑ کا فرضی مقدمہ درج کروا دیا گیا۔ اس طرح الٹا تسلیم علی کے خلاف پاکسو ایکٹ سمیت 9 سنگین دفعات میں معاملہ درج کرلیا گیا ۔ اس ایف آئی آر میں فرضی شناختی کارڈ اور نابالغ بچی کے ساتھ چھیڑ خانی کا الزام شامل ہے۔ اس کو کہتے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان بے بنیاد الزامات کی حمایت میں وزیر داخلہ میدان میں کود پڑےجبکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ پہلا آدھار کارڈ اس کے گھریلو نام بھورا پر بنایا گیا تھا اور دوسرا اصلی نام تسلیم علی پر بنا اس لیے فرق ہے مگر دونوں اصلی ہیں۔ وزیر داخلہ جیسے ذمہ دار کو آدمی کو بغیر تحقیق کہ ذرائع ابلاغ میں اپنی چونچ کھولنے سے پر ہیز کرنا چاہیے تھا مگر جس پارٹی میں لوگوں کی زبان قینچی کی مانند چلتی ہے اور دماغ چل گیا ہے اس سے آخر کیا توقع کی جائے؟
تعجب کی بات یہ ہے کہ اس شرمناک سانحہ پر گرفتار شدگان کی رہائی کے لیے شہر میں ہندو فرقہ پرستوں نے تین عدد مظاہرے کیے لیکن اس پر کسی نے اعتراض کرنے کی زحمت نہیں کی حالانکہ وہ مجرمین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے تھے مگر ان کو سزا دلوانے کی خاطر مسلمانوں نے احتجاج کیا تو اس کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا اور کوتوالی تھانے پر ہنگامہ کرنے کا الزام لگا تقریباً 30 لوگوں کے خلاف بھی ایف آئی آر کی گئی ۔ اندور کے دونوں وزرا ء اوشا ٹھاکر اور تلسی سلاوٹ اچانک سستی سیاست بازی کے لیے حرکت میں آگئے ۔ انہوں نے قصورواروں پر سخت کارروائی کے احکامات دےدیئے ۔ اس کے بعد انتظامیہ کی کارکردگی پر تنقید ہونے لگی ۔ پولیس پر قانون کو بالائے طاق رکھ کر حکومت کے اشارے پر کام کرنے اور شر پسند عناصر کی پشت پناہی کرنے کا بھی الزام بھی لگنے لگا۔
آج کل مسلمانوں کے ہر احتجاج کو ایس ڈی پی آئی اور پی ایف آئی سے جوڑ کر ماحول بگاڑنے کی کارروائی قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ اگر ماحول اچھا ہوتا تو ایسا واقعات رونما ہی کیوں ہوتے ؟ اسی کے ساتھ ایک طبقہ کو زیادتی کرنے والوں کے حق میں احتجاج کا حق دینا اور دوسرے کی حوصلہ شکنی اپنے آپ میں ایک جانبدارانہ حرکت ہے۔ اس معاملے میں وزیر آبی وسائل تلسی سلاوٹ کا بیان قابل تشویش ہے کہ جس میں انہوں نے ایک جائز احتجاج کو دہشت گرد تنظیموں کی حرکت قرار دے کر اس کو جڑ سے نیست ونابود کرنے کا اعلان کردیا ۔ وزیر سیاحت وثقافت اوشا ٹھاکر نے ان پر ملک سے غداری کا معاملہ چلانے کا مطالبہ کرکے اپنی تنگ ذہنیت ظاہر کردی ۔ بی جے پی والوں نے آج کل اپنے آپ کو ملک کا کرتا دھرتا سمجھ لیا ہے اور اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کو ملک مخالف غداری قرار دینے لگے ہیں۔
وطن عزیز میں ہجومی تشدد کی پہلی لہر گئوکشی کے نام پر آئی لیکن اب ہر ماب لنچنگ کو خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی چادر میں چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کانپور کے بعد اندور میں ایسا ہوا لیکن اجمیر کے رام گنج تھانہ علاقہ میں کچھ لوگوں کے ذریعہ ایک بھکاری کو پیٹنے کی ویڈیو منظر عام پر آ گئی جس سے کہا جارہا تھا ’’جا تو پاکستان چلے جا، وہاں ملے گی بھیک۔‘‘ کیا اس طرح کا معاملہ افغانستان تو دور افریقہ کے وحشی ملک میں بھی ہوتا ہوگا کہ جہاں کسی بے یارو مددگار مسکین پر لوگ اپنا رعب جمائیں اور خود کو عظیم ثابت کریں ؟ اس بابت پولیس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے مار پیٹ کرنے والے للت شرما سمیت 5 لوگوں کو دفعہ 151 کے تحت حراست میں لے کر کورٹ میں تو پیش کردیا مگر یہ ایک زبردست اخلاقی انحطاط کی جانب اشارہ ہے۔

اس سانحہ پر حیدر آباد سے آئی ایم آئی ایم کےرکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ’’وراٹ ہندوتوادی خود کو وراٹ (عظیم) محسوس کروانے کے لیے کبھی کسی مسلمان فقیر کو مارتا ہے تو کبھی بھیڑ اکٹھا کر کے چوڑی فروش کو پیٹ دیتا ہے۔ یہ کم ظرفی اور کمتری گوڈسے کی ہندوتوادی سوچ کا نتیجہ ہے۔ اگر سماج اس سوچ کا مقابلہ نہیں کرے گا تو یہ کینسر کی طرح پھیلتی رہے گی۔‘‘ اسی طرح کا ایک واقعہ جھارکھنڈ کے اندر جسیم الدین کے ساتھ ر ات تین بجے ریل میں پیش آیا جب انہیں چلتی ٹرین سے پھینک دیا گیا اور اب وہ اسپتال میں زیر علاج ہیں ۔ اترپردیش کے بریلی میں بھی امان نامی ایک نوجوان کو موبائل چوری کے شک میں مارا پیٹا گیا۔ یہ واقعات تو صرف ایک وحشی معاشرے کو زیب دیتے ہیں۔

ان سانحات کے تناظر میں وزیر خارجہ جئے شنکر کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی حالیہ تقریر یاد آتی ہے جس میں انہوں نے افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد پہلی مرتبہ دہشت گردی پر ہندوستان کی تشویش سے واقف کروایا تھا ۔ جئے شنکر نے کہا تھا کہ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو وہ قابل مذمت ہے۔ اس مطلب تو یہ ہے کہ وہ افغانستان میں ہو یا ہندوستان میں اس پر لگام لگنی چاہیے۔ انہوں نے وضاحت کی تھی کہ ہندوستان اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ دہشت گردی کو کسی بھی مذہب ، قوم ، تہذیب یا نسلی گروپ سے نہیں جوڑا جاسکتا ۔ دنیا دہشت گردی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتی ۔ ہم میں سے کوئی بھی اُس وقت تک محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک کہ سب محفوظ نہ ہوں ۔ایک عالمی فورم پر دہشت گردی کے خلاف یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں مگر خود اپنے ملک کے اندر اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا نہایت سنگین اور شرمسار کرنے والی صورتحال ہے ۔ اس کے لیے وزیر خارجہ کے علاوہ وزارت داخلہ کو بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرکے ادا کرنے کی سعی کرنی پڑے گی ورنہ مجاز کا یہ شعر صادق آجائے گا؎
سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449687 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.