افغانستان میں قیامِ امن کے لئے کوششیں جاری ہیں۰۰۰
طالبان جنہوں نے بیس سال بعد پھر ایک مرتبہ افغانستان کے اقتدار پر براجمان
ہونے والے ہیں۰۰۰ لیکن اب طالبان وہ نہیں رہے جیسے ان کے ماضی کے فیصلوں سے
سمجھا جارہا تھا۔ طالبان نے گذشتہ بیس سالہ افغانستان کے دورِ اقتدار میں
بہت کچھ سیکھا ہے اور انہیں سمجھ آگئی ہے کہ اب اگر سمجھداری اور مصلحت
پسندی سے کام نہ لیں گے تو اس کے نتائج انتہائی خراب نکل سکتے ہیں اور ملک
میں خانہ جنگی خطرناک موڑ اختیار کرسکتی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو
ممالک ہی نہیں بلکہ اس سے قبل برطانیہ، سویت یونین نے بھی افغانستان میں
ناکام رہے ہیں۰۰۰ طالبان کا بیس سال بعد افغانستان میں دوبارہ اقتدار پر
آنا اس با ت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ افغانستان کو حاصل کرنا یا اس پر
دیرپا حکومت کرنا کسی بھی غیر ملکی حکمرانوں کیلئے مشکل ترین کام ہے۰۰۰ اس
سلسلہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں
کہا کہ افغانستان گذشتہ 20سال سے بدامنی کا شکار رہا ہے، افغانستان بیس سال
جنگ و جدل و اندرونی خانہ جنگی کا شکار رہا۔انہوں افغان عوام سے کہا ہے کہ
وہ اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دیں۔ انکا کہنا ہیکہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ
حکومت سازی کا عمل جلد مکمل ہوجائے، افغان عوام کے لئے کابل ایئر پورٹ کا
راستہ مکمل طور پر بند ہے، غیر ملکی افراد افغانستان چھوڑنا چاہیں تو
ممانعت نہیں‘‘۔ ذبیح اﷲ مجاہد نے کہا ہیکہ خواتین کو شریعت اور اسلام کے
دائرے میں کام کرنے کی اجازت ہے، انکا کہنا تھاکہ خواتین تعلیم اور طب کے
شعبوں میں کام کریں، حکومت کے اعلان کے بعد بگڑا ہوا نظام ٹھیک کرینگے، ہم
آج بھی بنیادی خدمات لوگوں کو دے رہے ہیں۔ اس وقت ملک و قوم کی خدمت کرنے
والے ادارے فعال ہیں، تمام ہاسپتلس مکمل طور پرخدمات انجام دے رہے ہیں،
لوگوں کا علاج ہورہا ہے ، سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کی نشریات مسلسل چل رہی
ہے ، تمام بنکوں نے آزادی کے ساتھ کام شروع کردیاہے۔ذبیح اﷲ مجاہد نے کہاکہ
افغانستان نے غلامی سے آزادی حاصل کرلی ہے ، ہم دوسرے ملکوں سے اچھے تعلقات
کے خواہاں ہیں، ہم اپنی فوج کو پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں، بگڑی فوج میں
جو پیشہ ور اور ذہین لوگ تھے وہ متحدہوجائیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ
ہندوستان نے افغانستان کی تعمیر و ترقی میں گذشتہ چند برسوں کے درمیان جو
سرمایہ کاری کی ہے اس کا تخمینہ 3بلین ڈالرز سے زیادہ ہے۔ ہندوستان نے
افغانستان کی تعمیرنو کے لئے ایک اسٹرٹیجک شراکت داری کا معاہدہ 2011میں
کیا تھا ، اس امداد کا مقصدافغانستان میں اسکولوں ، ہاسپتلوں کے ساتھ اہم
سڑکوں ، ڈیموں ، بجلی کی ترسیل لائنوں اور سب اسٹیشنوں کی تعمیر میں فعال
کردار اداکرنا تھا۔کابل میں افغان پارلیمنٹ کو ہندوستان نے 90ملین ڈالر کی
لاگت سے تعمیر کیا جس کا کام 2015میں مکمل ہوگیا اور وزیر اعظم ہند نریندر
مودی نے اس عمارت کا افتتاح انجام دیا تھا۔اس طرح ہندوستان نے افغانستان
میں گذشتہ چند برسوں کے درمیان جو سرمایہ کاری کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے
ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان کاکہنا ہے کہ ہندوستانی حکومت افغانستان میں
اپنا کام جاری رکھ سکتی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندوستان نے 24؍ اگست منگل کو اقوام متحدہ کی انسانی
حقوق کونسل میں کہاکہ ہندوستان افغانستان میں ایک جامع حکومت کی توقع
کرتاہے ، جس میں تمام طبقات کی نمائندگی ہو۔ ہندوستانی مستقل نمائندے
اندرمانی پانڈے نے انسانی حقوق کونسل سے خطاب کے دوران کہاکہ وسیع نمائندگی
سے حکومت کو زیادہ قبولیت اور قانونی حیثیت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ افغان خواتین کی آواز، افغان بچوں کی امیدوں اور اقلیتی
برادری کے حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے، ساتھ ہی ہندوستان نے اس بات کو
واضح کیا کہ افغانستان میں استحکام کا براہِ راست تعلق خطے میں امن اور
سلامتی سے ہے۔ اس طرح ہندوستان چاہتا ہیکہ طالبان افغانستان میں ایک جامع
حکومت تشکیل دیں جس سے ملک و پڑوسی ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم
رہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ طالبان بھی چاہتے ہیں کہ ملک کی ترقی و
خوشحالی کے لئے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھیں۔ اسی لئے طالبان
ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد کاکہنا ہیکہ ’’کوشش کررہے ہیں کہ تمام مسائل کا حل
گفت و شنید سے نکالا جاسکے، غیر ملکی سفارت کاروں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ
افغانستان میں محفوظ ہیں، انہیں کوئی خطرہ نہیں، غیرملکی سفارت کاروں اور
سفارتخانوں کی مکمل سیکیورٹی کو یقینی بنایا گیا ہے‘‘۔ انہوں نے غیر ملکی
سفارت کاروں سے اس ایقان کا اظہار کیا کہ افغانستان میں وہ اپنی سرگرمیاں
معمول کے مطابق جاری رکھیں گے۔ البتہ امریکہ اور دیگر غیرملکی افواج جو
افغانستان میں موجود ہیں ان کے تعلق سے کہاکہ وہ وعدے کے مطابق مقررہ وقت
یعنی31؍ اگست 2021تک افغانستان سے مکمل انخلا کریں۔ انہوں نے امریکہ کوپھر
ایک مرتبہ پیغام دیتے ہوئے کہاکہ وہ مقررہ وقت پر اپنے تمام فوجی افغانستان
سے نکال لیں، 31؍ اگست تک انخلا مکمل نہ ہونے کی صورت میں امریکہ سے متعلق
اپنے نئے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ
افغانستان سے جو افغان شہری جانا چاہتے ہیں ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور
قابل ترین افراد بھی ہیں اس سلسلہ میں ذبیح اﷲ مجاہد نے امریکہ کو خبردار
کیا کہ وہ افغان ہنر مندوں اور انجینئرز وغیرہ کو ملک سے لے جانے سے گریز
کرے، انہوں نے کہا کہ امریکیوں کو افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے پر اکسانا
نہیں چاہیے، وہ ایسا کرنے سے گریز کریں۔ ان کا کہنا تھاکہ افغانستان میں
کسی صورت انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوگی، پرانی دشمنیوں کو ختم کرکے
مل کر امارات اسلامی افغانستان کیلئے کام کرنا ہے، افغان سرزمین کسی صورت
دہشت گرد مقاصد کیلئے استعمال کرنے نہیں دیں گے۔ذبیح اﷲ مجاہد نے کہا کہ ہم
نے شرعی نظام کے نفاذ کیلئے قربانیاں دی ہیں، افغانستان میں میڈیامکمل طور
پر آزاد ہے، غیر ملکی افواج کے مترجموں کی حفاظت کی انہوں نے یقین دہانی
کرائی ہے ، انہوں نے مترجموں سے کہا ہیکہ وہ ملک نہ چھوڑیں۰۰۰اسی طرح افغان
طالبان کے اہم رہنما خلیل الرحمن حقانی نے بھی کہا ہے کہ اب افغانستان میں
کوئی خونریزی نہیں ہوگی، انکا کہنا تھاکہ ’’ہمارا مقصد افغانستان کے لوگوں
کو پرُامن ماحول فراہم کرنا ہے، انہوں نے مختلف ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے
بات چیت کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی ہیکہ افغانستان اسلامی امارات تمام
سیاسی گرہوں اور مقامی برادریوں کی نمائندہ حکومت ہوگی۰۰۰ خلیل الرحمن
حقانی نے افغان شہریوں پر زور دیاہیکہ وہ ملک سے نہ جائیں اور جو لوگ پہلے
ہی جاچکے ہیں ان سے کہا کہ وہ واپس آئیں اور ملک کی ترقی میں اہم رول ادا
کریں۔ خلیل الرحمن حقانی نے کہا کہ افغانستان میں ایک جامع حکومت کی تشکیل
کیلئے مختلف رہنماؤں اور افغان کمیونٹیز کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کا
عمل جاری ہے ۔ انکا کہنا ہیکہ ہم نے سابق افغان صدر حامد کرزئی اور
افغانستان کے سابق چیف ایگزیکٹیو عبداﷲ عبداﷲ سے ملاقات کی اور انہیں یقین
دہانی کرائی کہ انکے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی اسی طرح
دیگر اہم شخصیات جن میں حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار، گل آغا
شیرزئی، مولانا شیر محمد اور حضرت عمر زخیلوال سے بھی ملاقات کی گئی ۔
افغان سابق صدر اشرف غنی، ان کے مشیران اور افغان مسلح افواج کے سربراہان
کے لئے بھی عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اپنی طرف سے
سب کو معاف کرتے ہیں اور اب ہر شخص کو اپنا فرض اور ذمہ داری ادا کرنی
چاہیے۔فی الحال طالبان نے کام کرنے والی افغان خواتین سے کہا ہیکہ وہ گھروں
میں رہیں جب تک کہ انکی حفاظت کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ ذبیح اﷲ مجاہد کے
مطابق ’’یہ ایک عارضی اقدام ہے، اور افغان خواتین پر پابندیاں بہت تھوڑے
عرصے کے لئے ہونگی۔ انہوں نے کہاکہ ہماری سیکیوریٹی فورسز کو پتا نہیں ہے
کہ حواتین کے ساتھ معاملات کیسے کرنے ہیں، خواتین سے بات کیسے کرنی ہے، جب
تک ہمارے پاس مکمل سیکیوریٹی نہیں ہے، ہم خواتین سے کہیں گے کہ وہ گھروں
میں رکیں‘۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہیکہ ذرائع ابلاغ کے مطابق جو خبریں گردش
کررہی ہیں ان میں کسی حد تک سچائی بھی ہے یعنی بعض مقامات پر طالبان
جنگجوؤں کی جانب سے خواتین و دیگر افغان عوام کو ہراساں کیا جارہا ہے ۔ بعض
مقامات پر پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کے سلسلہ طالبان رہنماؤں نے
انکوائری کروانے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ افغانستان
میں نئی حکومت کے سربراہ کون بنتے ہیں اور ملک میں شرعی نظام کے تحت کس طرح
حکومت کی جاتی ہے۔ سمجھا جارہا ہے کہ طالبان ماضی کے مقابلے میں موجودہ
حالات کو پیشِ نظر رکھ کر خواتین اور لڑکیوں کیلئے شریعت کے مطابق آزادی
دینگے۔ اب جبکہ طالبان نے اعلان کردیاہے کہ عام افغان عوام جو ملک سے باہر
جانا چاہتے ہیں انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے اور ہوائی اڈوں پر
خصوصی دستے تعینات کردیئے گئے ہیں تاکہ افغان عوام کو ملک سے فرار ہونے سے
روکا جاسکے۔ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد عالمی بینک نے ملک میں
صورتحال انتہائی تشویشناک بتاتے ہوئے افغانستان کی امداد بند کرنے کا اعلان
کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق عالمی بینک کی جانب سے کہا گیا ہیکہ
افغانستان میں ورلڈ بینک کے دو درجن سے زائد ترقیاتی منصوبے جاری ہیں، اس
وقت صورتحال کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔ امریکہ نے پہلے افغانستان کے اثاثہ
جات ، اکاؤنٹس منجمد کرنے کا اعلان کیا تھاالبتہ چین نے افغانستان کو مالی
امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔مختلف ممالک سے امداد بند ہونے کے بعد چین نے
اشارہ دیا ہے کہ وہ جنگ سے متاثر ملک کی مدد کرنے میں مثبت کردار ادا کرے
گا ، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے 23؍ اگست پیر کے روز ایک
پریس کانفرنس میں کہا۔ انہوں نے افغان بحران کے لئے امریکہ کو ذمہ دار
ٹھہراتے ہوئے اسے ’’اہم گنہگار‘‘ کہا۔ چین کا کہنا ہیکہ افغانستان کی تعمیر
نو کے لئے کچھ کئے بغیر ایسے حال میں چھوڑکر نہیں جاسکتا۔ طالبان نے عالمی
برادری سے توقع ظاہر کی ہے کہ افغانستان پر انکے ’’جائز نمائندے‘‘ کی
حکمرانی کو بین الاقوامی پذیرائی حاصل ہوگی اور انکی سفارتی سرگرمیوں سے
عالمی سلامتی کو فروغ اور افغان عوام کے ان مصائب کو کم کرنے میں مدد ملے
گی جن کا سامنا کئی عشروں کی جنگوں کے نتیجے میں انہیں کرنا پڑرہا ہے۔اس
وقت 34میں سے 33صوبوں پر طالبان کا کنٹرول ہے اور پنجشیر میں احمد مسعود
اور امراﷲ صالح نائب صدر افغانستان طالبان سے نبرد آزما ہیں اب دیکھنا ہے
کہ طالبان پنجشیر کو حاصل کرنے میں کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں ویسے
سننے میں آرہا ہے کہ احمد مسعود کا بیٹا طالبان قبضہ میں ہے ۔ یہ بھی بعض
ذرائع ابلاغ سے اطلاعات موصول ہورہی ہے کہ اسرائیل و دیگر ممالک احمد مسعود
اور امراﷲ صالح کو امداد پہنچا رہے ہیں تاکہ وہ طالبان کے آگے ڈٹ کر مقابلہ
کریں ۔
طالبان نے وزیردفاع اور مرکزی بینک کے سربراہ سمیت دیگر اہم عہدوں پر
تعیناتیاں کردی ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان نے حاجی محمد ادریس
المعروف ملا عبدالقہار کو افغانستان کے مرکزی بینک کا قائم مقام سربراہ
مقرر کردیا ہے۔ نئے سربراہ نے عملے کو فوری طور ملازمتوں پر واپسی کی ہدایت
کی ہے۔ ہمت اخوندزادہ کو قائم مقام وزیرِ تعلیم مقرر کیا گیاہے۔ نئے وزیر
تعلیم کا کہنا ہے کہ شرعی قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم
کیلئے پْرعزم ہیں۔الجزیرہ ٹی وی کے مطابق ملا عبدالقیوم ذاکر کو وزیردفاع
مقرر کیا گیاہے،ملا عبدالقیوم ذاکر افغانستان میں امریکہ کی آمد کے بعد کئی
سال گوانتامو بے جیل میں بھی قید رہے۔ مزید ذمہ داریاں جلد ہی اہم شخصیات
کو تفویض کرنے کے امکانات ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے انخلا آپریشن کو جلدمکمل کرنے کا
عندیہ دے دیا ہے۔انہو ں نے اس سلسلہ میں اپنے ایک خطاب میں کہا ہیکہ
افغانستان سے انخلا کا عمل جتنی جلد مکمل ہوسکتا ہے اتنا بہتر ہے ،
جوبائیڈن نے داعش کے حملے کا امکان بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہمیں معلوم ہے
کہ داعش کابل ایئر پورٹ ، امریکی اور اتحادی افواج پر حملے کرنے کی تاک میں
ہے، ہم دس روز میں 70ہزار 700افراد کو افغانستان سے نکالنے میں کامیاب ہوئے
ہیں اس رفتار سے مکمل انخلا 31؍ اگست تک ہوجائے گا۔امریکی صدر نے مزید کہا
ہیکہ G-7ممالک اور دیگر اتحادی، طالبان کے بارے میں ایک ہی رائے رکھتے ہیں
کہ افغانستان کے چیلنجز کا مل کر مقابلہ کرنا ہے۔ انکا کہنا ہیکہ ہم میں سے
کسی کو بھی طالبان کی باتوں پر یقین نہیں ہے، امریکی صدر کے مطابق ’’اپنے
اداروں سے کہا ہیکہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کا پلان بناکر رکھیں، ہم سب مل
کر طالبان کے طرز عمل کو دیکھیں گے‘‘۔صدر جوبائیڈن کے ان الفاظ سے ظاہر
ہوتا ہیکہ طالبان کی جانب سے دی گئی یقین دہانی پر عالمی برادری کو بھروسا
نہیں ہے یا پھر وہ نہیں چاہتے کہ افغانستان میں قیامِ امن ہو کیونکہ اگر
طالبان کے بجائے ملک میں کسی اور دہشت گرد تنظیم یا افراد کی جانب سے دہشت
گردانہ کارروائیاں انجام دی جائینگی تو اس کے خلاف طالبان کو ذمہ دار بناکر
حملہ کیا جاسکتا ہے۰۰۰
***
‘کابل ایئر پورٹ پر حملہ داعش یا کسی اور کی دہشت گردانہ و ظالمانہ
کارروائی
کابل ایئر پورٹ پر جس کسی نے بھی خودکش حملہ کیا ہے یا کروایا ہے قابلِ
مذمت ہے۔ پہلے ہی کئی معصوم اور بے قصور افرادخوف و ہراس کے ماحول میں
افغانستان سے نکلنا چاہ رہے ہیں وہ طالبان کی جانب سے افغانستان پر قبضے سے
پریشا ن ہیں انہیں طالبان کی بیس سال قبل حکومت میں جو شدت پسند فیصلے کئے
تھے اس کا ڈرو خوف ستائے جارہا ہے اور اسی کے پیشِ نظر وہ جلد سے جلد
افغانستان چھوڑنا چاہ رہے ہیں لیکن طالبان رہنماؤں نے افغان عوام اور دیگر
ممالک کے سفارتکاروں سے کہا ہے کہ وہ ملک میں بے خوف و خطر رہ سکتے ہیں
انکی سیکیوریٹی کی ذمہ داری اب ان پر یعنی طالبان پر عائد ہوتی ہے اور انکی
حفاظت میں کوئی فکر کرنے کی بات نہیں ہے۔ لیکن یہ کیا؟ امریکہ ، فرانس و
برطانیہ کی جانب سے چند گھنٹے قبل وارننگ دی گئی تھی کہ کابل ایئر پورٹ پر
کبھی بھی اور کسی بھی وقت دہشت گردانہ کارروائی ہوسکتی ہے ۔ ان ممالک کی
سیکیوریٹی ایجنسیوں نے اس حملہ کیلئے الرٹ کردیا تھا تو پھر امریکہ اور
دیگر ممالک کی جانب سے سخت سیکیوریٹی انتظامات کئے جانے تھے او راس المناک
واقعہ کو روکنے کی بھرپور کوشش کی جانی چاہیے تھی۔ بجائے اس کے عوام کو
یہاں نکل جانے کیلئے کہا گیاتھا۔اس دہشت گردانہ واقعہ میں 90سے زائد افراد
بشمول 28طالبان جنگجو اور 13امریکی فوجیوں کی ہلاکت بتائی جارہی ہے اس میں
بچے بھی شامل ہیں۔ جبکہ 150سے زائد افراد زخمی بتائے جارہے ہیں ان میں بھی
کئی افرادکی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی حکام کی
جانب سے کہا گیا ہے کہ اس میں طالبان ملوث نہیں ہے بلکہ یہ حملے داعش کی
جانب سے کیا گیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے دولت اسلامیہ خراسان کے خلاف
کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے 31؍ اگست
تک اپنی تمام افواج کو افغانستان سے نکال لینے کا عندیہ دے دیا تھا اور اسی
کے تحت امریکی فوج کے انخلا کا عمل جاری ہے ۔ طالبان کی جانب سے امریکہ
سمیت تمام غیر ملکی افواج کو 31؍ اگست تک ملک خالی کرنے کی ڈیڈ لائن دی گئی
ہے۔ایسے میں کابل ایئر پورٹ پر خودکش حملہ کئی سوالات کھڑے کرتاہے۰۰۰
|