ایک بار پھر سے تاریخ نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی
دعویدار بھارتی حکومت کا چہرہ بے نقاب کردیاہے، بھارت میں موجودریاست
ہریانہ میں تاریخی مسجد بلال کو غیر منصفانہ اور جبری انداز میں اسے غیر
قانونی قرار دیکر شہید کردیا ہے،یہ اپنے آپ کو سیکولر ریاست کہنے والی وہ
حکومت ہے جس نے گائے کے گوشت کو لیکر اب تک ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ
اتار دیاہے،جب سے نریند ر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے ہندو انتہا پسندوں کی
باچھیں کھل گئی ہیں ، آر ایس ایس اور وی ایچ پی جیسی پر تشدد ہندو تنظیمیں
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیرکے لیئے پہلے سے بڑھ کر متحرک ہوگئی
ہیں، جنونی ہندو انتہا پسندوں نے موجودہ بھارتی حکومت سے رام مندرکی تعمیر
کے لیئے اس لیئے بھی بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں کہ یہی بی جے پی تھی
جس نے 1991میں ریاست اتر پردیش میں اقتدار سنبھالا اور ایک سال بعد اپنی
سرپرستی میں بابری مسجد شہید کروا دی تھی، اس ہی طرح 2002ریاست گجرات میں
پانچ ہزار مسلح ہندوں نے مسلمانوں کی آبادی پر حملے کر کہ انہیں بھاری جانی
ومالی نقصان پہنچایا، اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی (موجودہ
بھارتی وزیراعظم) نے مسلمانوں کے قتل عام پر کہا تھا کہ یہ سب گودھراواقعہ
کا فطری ردعمل ہے ۔بھارت میں انتہا پسندی کی تاریخ اب بہت پرانی ہوچکی ہے
1925میں آر ایس ایس یعنی راشٹر سیوک سنگھ کی بنیاد رکھی گئی اس تنظیم کا
عزم یہ ٹھرا کے جو کوئی انسان ان کا دھرم چھوڑ دے اسے گھر واپس لاؤ نہیں تو
موت کے گھاٹ اتاردواور اس بھارت میں جو کچھ بھی ہو ہندوازم کے تحت ہوہندو
دھرم کے تناظر میں ہوچاہے وہ کوئی ثقافت ہو ،عبادت ہو یا پھر لباس ہواور جو
اس ایجنڈے سے ہٹ کر چلے اسے عبرت کا نشان بنادیاجائے ۔ہندوستان کی تقسیم کے
بعد بھارت کے ہندو لیڈروں نے وقتی طور پر اقلیتوں کی ہمدردی لینے کی خاطر
نعرہ لگایا تھا کہ بھارت کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوگایہ ایک سیکولر ریاست
ہوگی جہاں ہندو ، مسلمان، عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں
حقوق حاصل ہوں گے،بھارتی انتہا پسند تحریک کی انتہاپسندی کی حد اسی دن سے
شروع ہوتی ہے جب انہوں نے اپنے ہی ایک عظیم لیڈر مہاتما گاندھی کو
سیکولربھارت کا پرچار کرنے اور اس تنظیم کے برخلاف تھوڑی سے آواز بلند کرنے
کی پاداش میں 30جنوری 1948کو قتل کردیا، تاریخ بتاتی ہے کہ مہاتما گاندھی
کے قاتل کانام نتھو رام تھا جو آرایس ایس کا نمائندہ تھا جسے بعد میں سزائے
موت سنادی گئی اور اسی برس آر ایس ایس پر پابندی تو لگادی گئی مگر اس
پابندی نے آرآیس ایس کے غنڈوں کی تعداد اور جنونیت میں اضافہ کردیا جس نے
وشواہندوپریشد،ہندوسیام سیوک اور بھارتی جنتاپارٹی جیسی انتہاپسند تنظیموں
کو جنم دیا جس نے بھارت میں رہنے والے اقلیتوں کا ایک ایک منٹ ان پر بھاری
بنادیا اور آج تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے، کچھ تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں
کہ بھارت میں انتہاپسندی کے واقعات کی لسٹ کہاں تک طویل ہے ،1964سے1996تک
مسیحیوں کے خلاف 38حملے رپور ٹ ہوئے لیکن 1998کے بعد ان پر ہندو انتہا
پسندوں کی طرف سے حملوں میں اضافہ ہوگیا 97میں گجرات میں 22چرچ جلا دئے گئے
صرف 98میں ہی مسیحیوں پر 90بار حملے ہوئے، 2008میں بھی کرناٹک میں بیس چرچ
تباہ کیے گئے۔ جون 1984میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کے
احکامات کے تحت امرتسر میں سکھوں کی بڑی عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر انڈین
آرمی نے چڑھائی کر کہ اسے اس بناء پر مسمار کردیا تھا کہ اس عمارت میں
علیحدگی پسند سکھ نوجوانوں نے پناہ لے رکھی تھی جو خالصتان کی آزاد حکومت
اور ریاست قائم کرنا چاہتے تھے، بعد ازاں اکتوبر1984میں وزیراعظم اندرا
گاندھی اپنے دو سکھ محافظوں ستونت سنگھ اور پے انت سنگ کے ہاتھوں قتل ہوئیں
تو اس کے کئی روز تک بھارت سکھوں کے لیئے قتل گاہ بنا رہایہ بھی ایک حقیقت
ہے کہ انڈیا کی موجودہ سیاسی قیادت میں زیادہ تر سیاست دان آر ایس ایس یعنی
راشٹریہ سویم سیوک سنگ سے تربیت یافتہ ہیں، یہ انتہا پسند ہندو تنظیم ہے جس
کا مقصد اقلیت دشمنی اور انڈیا سے ہندو مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کا خاتمہ
ہے،جب کہ پانچ اگست 2019 بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں تحریک کو دبانے
کے لیے اس کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرتے ہوئے وہاں پر موجود مسلمانوں پر
ظلم کا ایک نیا آغاز شروع کیا، اب کچھ ہی دن گزرے ہیں کہ امریکا کے کمیشن
برائے عالمی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے بھارت کو اقلیتوں کے
لیئے خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے اسے بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کی ہے مذہبی
آزادی سے متعلق امریکہ کے کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ
میں کہا گیا ہے کہ بھارت 2019میں مذہبی آزادی کے لیئے بدترین ملک رہا۔یو
ایس سی آئی آرایف نے سال 2020کی رپور ٹ میں مودی سرکار کی طرف سے شہریت کے
ترمیمی قانون کو مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے لیئے خطرناک قرار دیا ہے
اور کہا گیاہے کہ بھارت کے چار سالہ نیشنل رجسٹریشن پروگرام کی تکمیل کے
بعد لاکھوں بھارتی مسلمانوں کو قید و بند ، جلاوطنی اور ریاستی شناخت کھونے
جیسے خطرات کا سامنا ہے۔رپورٹ میں مذہبی آزادی کو پامال کرنے والے بھارتی
اداروں اور حکام پر سفری پابندیاں لگانے اور امریکہ میں ان کے اثاثے ضبط
کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ غرض بھارت کا اصل چہرہ اب پوری دنیا نے دیکھ
لیاہے مگر سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہاں پر موجود انتہا پسندوں سے اقلیتوں کو
محفوظ رکھنے کے لیے آخرکیا ایسا راستہ اختیار کیاجائے،قائرین !کسی بھی قومی
ریاست میں ایک سے زائد مذاہب کے ماننے والے اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے
والے شہری یکساں حقوق و فرائض سے رہ سکتے ہیں مگر بھارت میں ایسا نہیں ہے،
آج اگر ہم مذہب کے نام پر نفرت ، کشیدگی اور قتل وغارت گری ختم کرنا چاہتے
ہیں تو اس کے لیئے صوفی ازم کے ساتھ ایسے نظریات اور افکار سے رجوع کرنا
ہوگا جس سے انتہا پسندوں کے ذہنوں میں نفرت کی بجائے محبت پیدا ہواور یہ
بھارت میں موجود انتہا پسندوں کے لیے بہت ضروری خوراک ہے۔،صوفیائے کرام کا
یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے اور پرائے نیک اور بد، موافق اور مخالف سب
کیساتھ برداشت ، رواداری اور حسن سلوک کا رویہ رکھتے ہیں اور دوست دشمن سب
ہی کو اس چیز کا درس دیتے ہیں،ان ہی صوفیائے کرام نے اپنے اپنے وقتوں میں
جاری مذاہب کے درمیان کشیدگیوں کا خاتمہ کرکے امن کا پرچار کیا،موجودہ
بھارت میں ایک اسی چیز کی کمی ہے اور وہ صوفی ازم کی بھارت میں بھی ایسے
ایسے عالم دین اولیا کرام کے مزارات ہیں جنھوں نے صوفی از م کے فروغ میں
اپنا دن رات لگادیا تھا مگر آج کا بھارت اب بہت مختلف ہے ،آج اس بھار ت میں
تنگ نظر ہندوازم کا زہر پوری ریاست میں پھیل رہا ہے اور اقلیتوں کو مختلف
ہتکھنڈوں سے دیورا کے ساتھ لگایا جا رہا ہے،آج اس صوفی ازم کے نشانات مٹانے
کی مہم بھارتی انتہا پسندوں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکاہے۔جبکہ بھارت میں ایک
ہزار سال سے زیادہ صوفی ازم کی ایک زندہ وجاوید تاریخ موجودہ ہے ،اس وقت
بھی بھارت میں جسقدر بھی صوفیہ کرام اور ان کی لڑیا ں باقی ہیں اور جسقدر
بھی ہندو مذہب کے عقیدت مند ہیں ان کے درمیان آپس میں بغیر کسی مار دھاڑ کے
روابط کروانا ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ بھارت میں اس وقت جو ایک دوسرے کے
مذاہب خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف جو نفرت پھیلائی جارہی ہے وہ اسی صوفی
ازم کے نظریہ ضرورت کے تحت ختم کروائی جاسکتی ہے کیونکہ انتہاپسندی کا تعلق
ہر دور میں رہاہے آج فرق صرف اتنا ہے کہ موجودہ دورمیں انتہا پسندی تو ہے
مگر صوفی ازم کہیں دکھائی نہیں دیتاہے ۔
|