افغانستان میں طالبان کےا قتدار سنبھال لینے کے بعد
ہندوستانی میڈیا کے اندر ایک زلزلہ سا آگیا۔ گودی میڈیا بھول گیا کہ وزیر
اعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے کون کون سے خوبصورت خواب دکھائے؟ عدالتِ عظمیٰ
میں پیگاسس کے تعلق سے کیاپیش رفت ہورہی ہیں؟ دہلی فساد کے تعلق سے ہائی
کورٹ میں کون سے اہم فیصلے ہورہے ہیں؟ شمال مشرق میں میزورم اور آسام
تنازع کے بعد میگھالیہ میں اس قدر خلفشار کیوں برپا ہوا کہ وزیر داخلہ کو
استعفیٰ دینا پڑا؟ چھتیس گڑھ میں نکسلی سی آر پی ایف کے دو نوجوانوں کو
ہلاک کرکے ان کا اسلحہ لوٹ کر کیسے لے گئے؟ وغیرہ حالانکہ یہ سب اپنے ملک
کی اہم واردات ہیں ۔ یہاں تک کے اتر پردیش کی انتخابی اتھل پتھل بھی پس
پردہ چلی گئی ۔ میڈیا فی الحال افغانستان سے متعلق صحیح غلط خبریں پھیلانے
میں دن رات مصروف ہے۔ ویسے کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ اس کے پیچھے بھی
اترپردیش کے اندریوگی کے حق میں فضا ہموار کرنے کی ایک سازش کار فرما ہے۔
اس سے قطع نظر یہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک تازہ مہم ہے اور
اس منشاء میں وہ کامیاب ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ وہاں خبروں
کو توڑ مروڈ کر عوام کو بلاوجہ خوفزدہ کرنے کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے ۔
قومی بیانیہ بھی اس سے متاثر ہورہی ہےمثلاًدہلی کے جنتر منتر پر اشتعال
انگیزاور مسلمان مخالف نعرے بازی کےکلیدی ملزم ہندو رکشا دل کے صدر بھوپندر
تومر عرف پنکی چودھری کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج انل انتل
نے کہا کہ ہم طالبانی اسٹیٹ نہیں ہیں۔ قانون کی حکمرانی، ہماری کثیر ثقافتی
اورتکثیری کمیونٹی کی حکمرانی کا مقدس اصول ہے۔ اسی طرح مہاراشٹر کے اندر
نارائن رانے کے خلاف ریاستی سرکار کے اقدام کو بی جے پی کے سابق وزیر اعلیٰ
دیویندر فردنویس نے طالبانی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا قانون کی حکمرانی
ہونی چاہیے طالبان کے طرح کا راج نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی میڈیا کا لب و لہجہ
عدالت اور سیاست کے اعصاب پر سوار ہورہا ہے۔ اس کا ایک دلچسپ نمونہ تریپورہ
میں بھی نظر آیا جہاں بی جے پی رکن اسمبلی نے بلا واسطہ طالبان کی حمایت
کردی ۔
مغربی بنگال کے بعد ترنمول کانگریس کا اگلا ہدف تریپورہ کا 2023 میں ہونے
والا اسمبلی انتخاب ہے۔ اسی لیے پارٹی کے جنرل سکریٹری ابھیشیک بنرجی
بارباروہاں کا چکر لگا رہے ہیں۔ اس سے گھبرا کر بیلونیاانتخابی حلقہ کے بی
جے پی رکن اسمبلی ارون چندر بھومک نےترنمول کانگریس پر تریپورہ کی صوبائی
سرکار کو نقصان پہنچانے کا الزام لگادیا ۔ انہوں نے ایک تہنیتی تقریب میں
سبھی شرکاء سے درخواست کی کہ وہ ٹی ایم سی پر طالبانی طرز میں حملہ کردیں ۔
بھومک نے خون کی ہر ایک بوند سے بپلب کمار دیب کی بی جے پی سرکار کو بچانے
کے عزم کا اظہار کیا۔ اتفاق سے تریپورہ کے ٹی ایم سی سربراہ بھی بھومک
قبیلے کے سبل بھومک ہیں۔ انہوں نے بی جے پی ایم ایل اے کی گرفتاری کا
مطالبہ کردیااور ترنمول رہنماؤں کو اگرتلہ کے ایک ہوٹل میں (جہاں وہ قیام
پذیر تھے) پریشان کرنے کا الزام بھی لگادیا ۔ سبل کے مطابق یہ واقعہ مذکورہ
ایم ایل اے کے اشتعال انگیزی کا نتیجہ ہے ۔
ترنمول کی سابق رکن پارلیمان ریتابرت بنرجی نے بی جے پی پر حملہ کرنے کے
لیے ایک‘تھینگرے واہنی’(غنڈہ دل)بنانے کا بھی الزام لگایا۔ اس کا مطلب تو
یہ ہے کہ معاملہ صرف بیان بازی تک محدود نہیں ہے۔ بنرجی کے مطابق بی جے پی
کا حملہ مایوسی کی علامت ہے۔ بی جے پی کےترجمان سبرت چکرورتی نے ارون چندر
بھومک کےتبصرے سے پلہ جھاڑتے ہوئے کہہ دیا کہ اس بیان کا پارٹی سے کوئی
لینا دینا نہیں ہے اوریہ بی جے پی کی تہذیب نہیں ہے۔ویسے بی جے پی کے اندر
ایسی بد نظمی پر کارروائی کرنے کی روایت بھی نہیں ہے۔ چہار جانب سے ہونے
والی تنقید کے سبب ارون چندر بھومک بھی ’طالبانی‘ لفظ کے استعمال پر مدافعت
میں آگئے ہیں۔ وہ اپنی صفائی میں کہہ رہے ہیں کہ ان کا ارادہ صرف جوابی
کارروائی کی شدت بتانے کا تھا۔ریاستی بی جے پی کے ترجمان نبیندو بھٹاچاریہ
نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ جمہوری قدروں میں یقین رکھنے والی ان کی
پارٹی قانون کو ہاتھ میں لینے کے خلاف ہے۔
کاش کے بی جے پی ویسی ہی ہوتی جیسا کہ اس بیان میں مذکور ہے لیکن ایسا نظر
نہیں آتا۔ بی جے پی سنگھ پریوار کا حصہ ایک ہے اور وہ خود کو ہندتوا کی
حامل تشدد پسند تنظیموں سے الگ نہیں کرسکتی۔ بی جے پی کا ہجومی تشدد میں
ملوث لوگوں کو تحفظ بھی فراہم کرنا بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ حال
میں اس کی تازہ مثال کانپور میں سامنے آئی ۔ پچھلے دنوں آر ایس ایس کے
سربراہ موہن بھاگوت نے یہ اعلان کرکے پورے ملک کو چونکا دیا تھا کہ جو لوگ
دوسروں کی ماب لنچنگ کررہے ہیں وہ ہندوتوا کے خلاف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا
کہ قانون کو بغیر کسی جانبداری کے ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
اس بیان کی روشنی میں کانپور کے سانحہ کا جائزہ لینا چاہیے جہاں بجرنگ دل
کے لوگوں نے پولس کے سامنے مارپیٹ کی اور ان کی فوراً ضمانت ہوگئی ۔ کیا یہ
جانبداری نہیں ہے کہ جس اترپردیش میں اعظم خان کے خلاف 100 سے زیادہ مقدمہ
جڑ دیئے گئے اور سپریم کورٹ سے ضمانت کے باوجود اضافی ایف آئی آر درج کی
گئی۔ وہیں کھلے عام تشدد کرنے والوں اور اسے دوہرانے کا عزم کرنے والوں کو
پہلے تو پولس نے اپنا ہاتھ صاف کرنے کا موقع دیا اور گرفتاری کا ناٹک کرنے
کے بعد فوراً رہا کردیا ۔
اتر پردیش میں اس جانبداری کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یوگی سرکار میں ہندوتوا
کے علمبردار درندے بے لگام ہوچکے ہیں اور دوسرا سبب یہ ہے کہ اس مارپیٹ میں
بی جے پی کے مقامی رکن اسمبلی کا بیٹا ملوث تھا ۔ کانپور کا یہ واقعہ کچھی
بستی میں جھوپڑ پٹی کا ہے جہاں قریشہ اور رانی پڑوسی ہیں ۔ ایک دن قریشہ کا
بیٹا ای رکشا سے گھر آیا تو اس کا پہیہ رانی کے دروازے سے ٹکرا گیا اور
اسی سے جھگڑا ہو گیا۔ 12 جولائی کو قریشہ نے رانی اور اس کے شوہر پر مار
پیٹ کی ایف آئی آر لکھوائی۔ 31 جولائی کو رانی نے قریشہ کے تین لڑکوں کے
خلاف چھیڑ چھاڑ کی ایف آئی آر لکھوائی ۔ آگے چل کر بجرنگ دل نےوہاں ایک
میٹنگ کی اس میں کہا گیا کہ علاقے کے مسلمان ،علاقے کی ہندو لڑکیوں کی مذہب
تبدیل کرانے کی کوشش کررہےہیں ۔ اس کے بعد بجرنگ دل نے ابصار نامی رکشا
ڈرائیور کو زدوکوب کرکے ویڈیو بنائی جبکہ اس کے خلاف تو کوئی ایف آئی آر
بھی نہیں تھی ۔ وہ بیچارہ قریشہ کا غیر متعلق دیور تھا ۔ اس نے اپنی شکایت
میں کہاکہ دوپہر کو جب وہ ای رکشا چلا رہا تھا تب ملزمین نےاسے گالیاں دیں
اور مارپیٹ شروع کردی۔ اس کو خاندان سمیت مارنے کی دھمکی بھی دی ۔ وہ تو
پولیس کی مداخلت کے سبب بچ پایا۔
کانپور کی پولیس نے ایک مقامی باشندے اس کے بیٹے اور آٹھ ، دس نامعلوم
لوگوں کے خلاف فساد کرانے کامقدمہ درج کیا ہے ۔ پولیس نے اس کے لیے بجرنگ
دل کو ذمہ دار ٹھہرانے جرأت نہیں کی اور مسلم رکشا ڈرائیور کو پیٹ پیٹ کر
‘’جے شری رام‘ بلوانے کے الزام میں گرفتار کئے گئے تین ملزمین کو تھانہ میں
ہی ضمانت دے دی کیونکہ بجرنگ دل کے لوگ اس کے لیے ڈی سی پی دفتر کے باہر
احتجاج کررہے تھے ۔ کمال سفاکی کا مظاہرہ کرنے کے بعد اس کے ارکن نے سرِ
عام اعلان کیا ’بجرنگ دل کانپور کے ہندو سماج کو یقین دلاتا ہے کہ جس کے
بھی ذریعہ ہمارے دھرم پر حملہ کیا جائے گا تو ہندو پریشد ، بجرنگ دل خاموش
نہیں بیٹھنے والا ‘۔ ایسے میں اگر منور رانا یہ کہتے ہیں ہمیں طالبان سے
ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جس بے رحمی اور ظلم افغانستان میں مظاہرہ کیا جا
رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ بے رحمی تو یہاں ہندوستان میں میں موجود ہے تو
کیا غلط ہے؟ اب اگر انتظامیہ منور رانا کو مولانا سجاد نعمانی صاحب جیسوں
پر کوئی کارروائی بھی کرے تو حقیقت بدلنے والی نہیں ہے۔ سچائی کو قوت کے
زور سے نہ چھپایا جاسکتا ہے اور نہ دبایا جاسکتا ہے۔
یہ بھی کھلی جانبداری ہے کہ طالبان کے حوالے سے میڈیا اور ہندو احیاء پرست
تنظیمیں مسلمانوں کو لے کر جس قدر حساس ہیں دیگر لوگوں کے ساتھ ایسا معاملہ
نہیں ہے۔ ارون چندر بھومک نے تو خیر طالبان کا حوالہ دے کر تشدد کی ترغیب
دے دی مگر بی جے پی کے رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی نے بھی مودی سرکار کو
تنقید کا نشانہ بنایا ۔ معروف سفارتکار گوتم مکھو پادھیائے اور وویک کاٹجو
نے پریس کلب ،دہلی میں قومی مفاد کی خاطر طالبان سے بالواسطہ یا بلا واسطہ
رابطہ کرنے کی وکالت کی ۔ان سب سے صرفِ نظر کرکے صرف شفیق الرحمٰن برق اور
مولانا سجاد نعمانی کو نشانہ بنانا بدترین جانبداری ہے اور اس کا مقصد
سیاسی مفاد پرستی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ بی جے پی کے سابق وزیر خارجہ اور
وزیر خزانہ یشونت سنہا نے اس معاملے میں سیاست بازی سے منع کیا ہے۔ میڈیا
اور انتظامیہ کو اپنے آقاوں کے اشارے پر اس طرح کا رویہ سے گریز کرنا
چاہیے ورنہ افغانستان پر اس کا کوئی برا اثر نہیں پڑے گا مگر ساری دنیا میں
ہمارے قومی میڈیا کی جو رہی عزت ہے وہ بھی خاک میں مل جائے گی ۔ ممبئی کی
زبان میں اس کو کہتے ہیں کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنا ۔
|