عدالت عظمی نے ایک حالیہ فیصلے میں ایک پارلیمانی ایکٹ کو
ہی کالعدم قرار دے دیا ہے جس کے نتیجے میں مختلف اداروں کے تقریبا 20 ہزار
ملازمین نوکریوں سے یک جنبش قلم برخواست کر دئے گئے ہیں یہ 20 ہزار ملازمین
وہ بدقسمت لوگ ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں دو دو دفعہ بلاوجہ ملازمت سے
برخواست کیے گیے ہیں اور دونوں دفعہ نہ انکا کوئی قصور تھا نہ خطا لیکن
نشانہ یہ لوگ بنے عجیب بات یہ ہے کہ ان پر الزام ہے کہ یہ مراعات یافتہ
طبقہ ہے کیا یہ سینکڑوں خاکروب، ڈرائیور اور یہ چپڑاسی مراعات یافتہ طبقہ
ہیں؟رہی بات سفارشیوں کی تو وہ کہاں کہاں نہیں چلتی یہ لوگ تو پھر میرٹ کو
پورا کرکے ہی بھرتی ہوئے ہونگے میاں نواز شریف اور چوہدری پرویز الہی نے تو
اپنے اپنے دور میں میرٹ کو پامال ہی نہیں کیا بلکہ میرٹ کا قتل عام کرتے
ہوئے اپنے اپنے چہیتوں کو نوازا پچھلی باتوں اور حکومتوں کو تو چھوڑیں ابھی
پنجاب اسمبلی میں سینکڑوں افراد سپیکر چوہدری پرویز الہی نے بھرتی کرلیے ان
میں درجہ چہارم سے لیکر گریڈ18تک کے افسران شامل ہیں پورے پنجاب سے صرف
گجرات،منڈی بہاؤالدین اور بہاولپور کے ہی لائق افراد شامل تھے کیونکہ گجرات
چوہدریوں کا بہاولپور انکے چہیتے چیمہ صاحب کا اور منڈی بہاؤالدین انکے
لاڈلے سیکریٹری اسمبلی کا شہر ہے ان علاقوں سے پکڑ پکڑ کر پنجاب اسمبلی میں
بھرتی کیا گیا اسمبلی کے ساتھ ہی الحمرا آرٹ کونسل ہے جہاں پر بھی میرٹ کا
خون کرکے بہت سے لاڈلے عدالتوں کو منہ چڑا رہے ہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ سر
آنکھوں پر مگر کیا اسکا اطلاق صرف پیپلز پارٹی کے دور میں ہونے والی
بھرتیوں پر ہی ہوگا ؟انہی ملازمین میں آئی بی کے 1183 تربیت یافتہ اور
تجربہ کار ملازمین ہیں جنہوں نے اس ملک و قوم کے لئے نمایاں خدمات سر انجام
دی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ آئی بی کے ان جوان نے اپنی نوکری کا حق ادا
کردیا پاکستان میں آج ہم سکون سے رہ رہیں ہیں تو اس میں بہت سا حصہ انٹیلی
جنس بیورو کا ہے جنہوں نے واقعی خفیہ رہتے ہوئے اپنا تمام کا تمام کریڈٹ
پولیس سمیت دوسرے اداروں کو دیا رہی بات پولیس کی وہ ان کے بغیر زیرو ہیں
جو ویسے بھی زیرو ہیں مگر رشوت خوری ،منشیات فروشی اور کرپشن میں پولیس کا
ضرور پہلا نمبر ہوسکتا ہے نہیں یقین تو ابھی 14اگست کو مینار پاکستان میں
عائشہ اکرم کے ساتھ آنے والے واقعہ کی سپیشل رپورٹ ہی پڑھ لی جائے تو
آنکھیں کھل جاتی ہیں میں بات کررہا تھا آئی بی اور دمیان میں پولیس کا
موضوع شروع ہوگیا اب سوال یہ بھی ہے کہ ان 1183 تربیت یافتہ انٹیلی جنس
آپریٹوز (intelligence operatives) کے بچوں کے منہ سے نوالہ چھین کر ان کو
کس طرف دھکیلا جا رہا ہے ؟ مختلف اداروں کے ان 20 ہزار ملازمین کو 1996 میں
پی پی پی کے دور حکومت میں اس وقت کے مروجہ قانونی تقاضوں کے عین مطابق
باقاعدہ نوکری دی گئی اور ان تمام ملازمین نے کئی Departmental course کیے
اور 1997 میں نواز شریف حکومت نے ان کو بلاوجہ برخواست کردیا صرف اس لیے کہ
یہ پچھلے دور حکومت میں بھرتی کئے گئے تھے شاید انہی غریبوں کی بد دعاؤں سے
نوازشریف خود بھی برطرف ہوئے لیکن انہیں اﷲ کی لاٹھی کی آج تک سمجھ نہ آسکی
اور آخر کار ان برطرف ملازمین کو دوبارہ 2009 میں ایک صدارتی آرڈیننس اور
پارلیمانی ایکٹ کے ذریعے نوکری پر بحال کیا گیا تاکہ ان کی حق تلفی کا کچھ
ازالہ کیا جائے لیکن شاید کچھ ادارے اپنے آپ کو قانون سے بالا سمجھتے ہیں
اور نواز دور حکومت میں آئی بی نے مختلف حیلوں بہانوں سے صدارتی آرڈیننس
اور پارلیمانی ایکٹ کا مذاق بنا کے رکھ دیا اور مستقلا انہیں ان کے حقوق سے
محروم رکھا اور پھر ان میں سے چند ملازمین نے 2012 میں عدالتوں کا دروازہ
کھٹکھٹایا۔ مختلف کیسز میں ہائی کورٹس نے ان کے حق میں فیصلہ دیا لیکن کچھ
ہٹ دھرم عناصر نے پھر بھی عملدرآمد نہ ہونے دیا معاملہ مختلف کیسز کی صورت
میں سپریم کورٹ میں گیا جہاں تقریبا دس سال التوا کے بعد عدالت نے فیصلہ
دیا اور اسے محفوظ کر لیا اور تقریبا دو سال تک وہ فیصلہ محفوظ رکھا اس
سارے دورانیہ میں یہ لوگ ملک و قوم کے لئے جانفشانی سے خدمات بھی انجام
دیتے رہے اور اب جب اتنی تاخیر کے بعد عدالت نے فیصلہ سنایا بھی پارلیمانی
ایکٹ کو ہی کالعدم قرار دے دیاگیااس پر بحث چلتی رہے گی کہ پارلیمان کے
فیصلوں کی بے توقیری کیوں لیکن اس وقت ایک اہم سوال یہ ہے ان ہزاروں
خاندانوں کا کیا ہو گا جن کے بچوں کے منہ سے دوسری دفعہ نوالہ چھین لیا گیا
ہے میں وزیر اعظم عمران خان سے گذارش کروں گا کہ وہ نواز شریف والی غلطی نہ
کریں جسکی سزا وہ شاید آج تک بھگت رہا ہے ان لوگوں پر بار بار ہونے والے
ظلم کو بند کیا جائے اور انہیں انکا حق مکمل حقوق و احترام کیساتھ لوٹا دیا
جائے رہی بات فیصلے کی مان لیا کہ یہ سب کے سب سیاسی بھرتی شدہ لوگ تھے تو
کیا اب تک کی سب سیاسی بھرتیاں غیر قانونی ہو گئی ہیں؟ اسکے علاوہ کافی
معاملات میں صدارتی آ رڈینس استعمال ہوتا رہتا ہے اور اکثر اسکا سہارا بھی
لیا گیا توکیا آ ج تک کے سب کے سب صدارتی آرڈینس کو بھی کبھی قانونی پہ
پرکھا گیا ہے؟ ان ملازمین کے 12-13 سال کی ذمہ داری کون اٹھائے گا جو انہوں
نے اداروں میں صرف کیے ؟اگران افراد کو فارغ کرنا اتنا ہی ضروری ہوگیا تھا
تو کیا ان اداروں کی رائے بھی جاننی ضروری نہیں تھی کیاجہاں پر انہوں نے
اپنی زندگی کے جوانی کے دن دیدیے؟ عدالت میں صرف20/25 ملازمین اپنی ترقی
والے معاملے کو لے کر گئے تھے پھر سب ملازمین کوہی کیوں عدالتی فیصلے کی
بھینٹ چڑھادیا گیا۔ اس فیصلے کے معاشی ،سماجی ،اخلاقی، معاشرتی پہلو کیوں
نظر انداز کیے گئے اس فیصلے کے منفی مضمرات کی ذمہ داری کس پر عائدہو گی اس
فیصلے سے ہزاروں خاندان بیروزگارہوئے، تعلیم و صحت کے مسائل جنم لیں گے
انکی ذمہ داری کس پر عائدہو گی۔
|