اتر پردیش انتخابات کو لیکرجس طرح سے ملک میں سیکولر
حکومتوں کو بحال رکھنے کے خواہشمندشہری پُر اُمیدہیں،وہ آہستہ آہستہ اس
بات سے پریشان ہوتے جارہے ہیں کہ نام نہاد سیاسی پارٹیاں،جماعتیں اور
سیاستدان ابھی سےمنصوبہ بند طریقے سے کام کرنے کے بجائے اپنی اپنی دعویداری
کو پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی دعویداری یوپی انتخابات
میں کامیاب ہونے سے زیادہ ایک دوسرےکوتوؑڑنے،شکست دینے ،ختم کرنے اور اپنے
وجود کو ظاہرکرنے کیلئے ہے۔مجلس،پیس،مسلم لیگ،کانگریس،ایس پی،بی ایس
پی،آرجے ڈی،ایس ڈی پی آئی،جے ڈی یو،عام آدمی پارٹی یہ سب بی جے پی کا
مقابلہ کرنے کیلئے اُترے ہیں،لیکن پوری بی جے پی ایک ہوکر ان کے سامنے پنجہ
لڑانے کی تیاری میں ہے،بی جے پی کو پورایقین ہے کہ وہ کامیاب
ہوجائیگی۔کیونکہ مذکورہ جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ جھاڑو کی کاڑیوں کی
طرح الگ الگ ہوچکی ہیں،جبکہ بی جے پی ہندوتوا کے نام پر متحد ہوکر میدان
میں اُتررہی ہے۔بھلا بتائیے کہ ایک ایک کاڑی کو توڑنا آسان ہےیاپھر پوری
سالم جھاڑو کو توڑا جاسکتاہے۔کہنے کو تو ہر پارٹی میں سیکولر،دانشمند،حکمت
والے،عقلمند،دوراندیش لوگ موجودہیں،مگر اس وقت سب کے سب اپنے مفادات کا
چولہ پہن کر قوم،ملت ، مذہب اورجمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں۔بھارت میں
اس وقت جو سیکولرزم کے نام پر پارٹیوں کاقیام ہورہاہے،وہ ہندوتواکے نام پر
کہیں نہیں ہورہاہے۔پچھلے70 سالوں سے سنگھ پریوار ایک تھا،ایک ہے اور ایک ہی
رہے گا۔کیونکہ سنگھ پریوار کسی جماعت یا گروہ کا نام نہیں بلکہ فکر کانام
ہے اور اس فکرکو عملی جامہ پہنانے کیلئے سنگھ پریوارہمیشہ متحد رہے گا۔لیکن
ان کے مدِ مقابل میں رہنےو الی سیکولر جماعتوں نے فکر کو بڑھاوادینے سے
زیادہ مفادات کو بڑھاوادیاہے۔آج سیکولرزم کے نام پر بے تحاشہ ووٹوں
،پارٹیوں اور لیڈروں کا بٹواراہورہاہے،مگرسنگھ پریواریا فرقہ پرستوں کا
بٹوارانہیں ہورہاہے۔سیکولرزم کی کچھڑی میں جو گھی ڈالنے کا چمچہ استعمال
کیاجارہاہے وہ چمچہ الگ الگ برتنوں میں بکھررہاہے۔کیونکہ اس میں بے انتہاء
چھید ہیں،جبکہ سنگھ پریوارکی کچھڑی میں جو گھی ڈالاجارہاہے ،وہ سیدھے کچھڑی
کے برتن میں جارہاہے۔اگر آج آپ کو کوئی یہ کہہ رہاہے کہ وہ سیکولر طاقت
کو مضبوط کرنے کیلئے سیاسی جماعت کا قیام کررہاہے تویہ ایک دُکان ہے،اس میں
سیکولرزم کا سامان مل رہاہے۔اگر واقعی میں وہ شخص یا گروہ جمہوریت و
سیکولرزم کی بقاء کیلئے کام کرنا چاہتا تھاتووہ اپنی طاقت انفرادی طو رپر
نہیں آزماتا،بلکہ اجتماعی طاقت کے ساتھ ہوتا۔اُتر پردیش کے انتخابات سارے
ملک کیلئے مثال ثابت ہوسکتے ہیں،کیونکہ یوپی کی سرزمین ایک طرح سے سارے
بھارت کیلئے لائٹ ہائوز کی مانندہے اور یہیں سے سیاست کے چراغ جلتے
ہیں۔بھارت کے لوگوں کے پاس یہ وقت ہے سنبھلنے اورمحتاط ہونے کا کہ وہ بھارت
کی تقدیرکو ٹکڑوں میں بانٹنے کے بجائےچند حصوں میں بانٹ کربھی ایک ہندوستان
بناسکتے ہیں۔یہاں وجود کو آزمانے کا موقع نہیں ہے بلکہ وجود کو بچانے کا
وقت آیاہواہے،آزادی کے بعد جب کانگریس اکیلی طاقتور تھی تو اُس وقت بھارت
کے لوگ جو آج الیکشن کو تجربہ گاہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں وہ اُسی وقت
اپنے وجود کیلئے تجربے کرسکتے تھے۔ہاں اب بھی اپنی طاقت اور وجود کو
ظاہرکرنے کیلئے تجربے کئے جاسکتے ہیں،لیکن اس کیلئے پہلے چھوٹے اکھاڑوں میں
نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے،نہ کہ بیچ بھنورمیں جاکر غوطے لگانے کی کوشش
کرنی چاہیے۔یقیناً یقیںمحکم،عمل پہیم،محبت فاتحِ عالم،
اور اسی یقین کے ساتھ ہمیں محنت وجدوجہد کے ساتھ آگے آنے کی ضرورت ہے۔ |