آخری پرواز اور جشن آزادی

یہ حسن اتفاق ہے کہ امسال 15؍ اگست کو ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی کی 75 ویں سالگرہ منائی گئی کیونکہ 74؍ سال قبل انگریزی سامراج کی غلامی سے ملک آزادہوگیا تھا ۔ اسی دن افغانستان کے اندر بھی امریکی سامراجیت کا خاتمہ کردیا گیا اور 20؍ سال تک زبردست مزاحمت کرنے والے طالبان اقتدار میں آگئے ۔ حیرت کی بات یہ ہےایک آزادی کا جشن منایا گیا اور دوسری آزادی پر صف ماتم بچھ گئی ۔ ایسے میں غم و اندوہ کے اندر ڈوبنے والوں سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا وہ نہیں چاہتے تھے افغانستان غٖیر ملکی تسلط سے آزاد ہوجائے ؟ کیا وہ افغانی عوام کو ترقی کے عوض ہمیشہ غیر ملکیوں کا غلام دیکھنا چاہتے تھے ؟ کیا کسی بھی غیرتمند قوم کے گلے میں غلامی کا پٹاّ ڈال کر اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس طوق کو اپنے لیے ہار سمجھ کر اس پر فخر کرے گی جائز ہے؟ہرگز نہیں کیونکہ 74 سال قبل وطن عزیز میں غلامی سے نجات کا جشن آج بھی منایا جاتا ہے۔ امسال بیس سال کی جدوجہد کے بعد افغانی عوام بھی یہ جشن منارہے ہیں ۔ اس بابت اندیشوں میں گرفتار لوگوں کی نذر امجد اسلام امجد کا یہ شعر ہے؎
فرد کی نہیں ہے یہ بات ہے قبیلے کی
گر کے پھر سنبھلنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے

اس ماہ جب 15؍ اگست کو طالبان نے کابل میں اقتدار سنبھالاتو کوئی جشن نہیں منایا مگر جب امریکہ نے افغانستان سے انخلا کی میعاد سے ایک دن قبل وہاں موجود آخری امریکی فوجی کو نکال کر 20 سالہ طویل جنگ کا خاتمہ کیا تو فتح کی خوشی منائی گئی ۔ اس موقع پر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹ کیا ’آخری امریکی فوجی دستہ 12 بجے کابل ہوائی اڈے سے چلا گیا ہے اور ہمارے ملک نے اپنی مکمل آزادی حاصل کرلی ہے ، خدا کا شکر ہے‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار کا حصول آزادی کی تکمیل نہیں ہے۔ اس سے قبل امریکہ کی موجودگی میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں موجود تھیں مگر وہ آزاد نہیں تھیں ۔ غاصب قوتوں سے نجات کے بعد ہی اصل آزادی حاصل ہوتی ہے۔ اس لیےامریکی فوج کا انخلا مکمل ہونے پر طالبان کی جانب سے ہوائی فائرنگ کرکے جشن منایا گیا۔ پچھلے دنوں کابل ہوائی اڈے پر دھماکے ہوئے تھے اس لیے عوام کو خدشہ ہوا کہ کہیں کوئی نیا حملہ تونہیں ہوگیا لیکن اس پر ذبیح اللہ مجاہد نے وضاحت کی کہ ’ شہری پریشان نہ ہوں، کابل میں فائرنگ کی آوازیں امریکی فوجیوں کے انخلا پر خوشی کا اظہار ہے ‘۔

کابل سے آخری پرواز کی روانگی کا اعلان طالبان نے کیا جس کی ، امریکی حکام نے تصدیق کی کہ افغانستان سے انخلا مکمل ہوگیا ہے۔اس آخری فلائٹ کے ساتھ ہی 11؍ ستمبر 2001 کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی 20 سالہ امریکی مہم اس طرح اختتام پذیر ہوئی کہ اب اس ملک کی جانب مشکل ہی سے کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھے گا ۔ اس لیے کہ یہ دو ممالک کے درمیان تنازع نہیں تھا بلکہ ایک طرف دنیا سپر پاور کہلانے والا امریکہ بہادر نیٹو کے ہمراہ آیا تھا اور ان سب کے ساتھ اسے بے نیل و مرام لوٹنا پڑا۔ اس پر مسرت موقع پر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل رن وے پر کہا کہ آج ایک تاریخی دن ہے۔ انہوں نے 20 برس بعد افغانستان سے امریکا کے نکلنے پر پوری قوم کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے اسلامی روایات، آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کرنے کا عہد کیا۔ ذبیح اللہ مجاہد نے امریکا کی شکست کو افغانستان پر حملہ کرنے والوں اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک اہم سبق قرار دیا ۔
اس موقع پر معمر افغانی رہنما انس حقانی نے اعلان کیا کہ’ طالبان نے تاریخ رقم کردی ۔ افغانستان پرامریکہ اورنیٹو کا 20 سالہ قبضہ آج ختم ہوگیا، 20 سال کےجہاد،قربانیوں اورسختیوں کےبعدیہ تاریخی لمحات قابل فخرہیں‘۔ انس حقانی نے جن سختیوں اور قربانیوں کا ذکر کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی طویل ترین جنگ میں تقریباً 50 ہزار افغان شہری، 2500 امریکی فوجی ، 66 ہزار افغان فوجی ؍ پولیس ، 457 برطانوی فوجی اور 50 ہزار طالبان و دیگر امریکہ مخالف جاں بازوں نے اپنی جانِ عزیز کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق 4؍ امریکی صدور نے اس جنگ پر 2 کھرب ڈالر پھونک دیئے۔ ان جنگی اخراجات کی خاطر جو قرض لیا گیا اس رقم پر امریکہ کی کئی نسلوں کو سود کی مد میں 6 کھرب ڈالرز ادا کرنے ہوں گے ۔ وہ حضرات جو اس بات سے پریشان ہیں کہ آخر امریکہ کو آخر اتنی جلدی کیا تھی ؟ جو بائیڈن نے اتنی جلدبازی میں افغانستان کو بائی بائی کہنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟ انہیں مذکورہ ا عدادو شمار کی روشنی میں اپنے سوال پر غور کرنا چاہیے اور اگر پھر کوئی جواب نہ سوجھے تو امریکی صدر کے قصرِ ابیض سے 8؍ جولائی، 2021 کو نشر ہونے والے خطاب کو دیکھ لینا چاہیے ۔

امریکہ کے صدر نے معروضی انداز میں کہا تھا ’’ میں وہاں قیام کے حق میں بات کرنے والوں سے پوچھتا ہوں کہ آپ امریکہ کے مزید کتنے بیٹوں اور بیٹیوں کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں؟ آپ انہیں وہاں مزید کتنی دیر رکھنا چاہتے ہیں؟ ہماری فوج کے وہ ارکان افغانستان میں ہیں جن کے والدین بھی 20 سال پہلے وہاں لڑتے رہے تھے۔ کیا آپ ان کے بچوں اور پھر ان کے پوتے پوتیوں کو بھی وہاں بھیجیں گے؟ کیا آپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو بھی وہاں بھیجیں گے؟‘‘ ان تلخ سوالات کے بعد انہوں نے کہا کہ 2014 میں انخلا کا فیصلہ ہوگیا تھا لیکن مختلف بہانوں سے اس میں ایک ایک سال کی توسیع ہوتی رہی ۔ یہ دراصل لامتناہی مدت کے لیے وہاں رہنے کی ترکیب ہے۔ بائیڈن نے یہ بھی کہا تھا ’’اگر ہم گزشتہ 20 سال کے بجائے آئندہ 20 سال کی جنگیں لڑیں تو طویل مدتی طور پر اپنے مخالفین اور حریفوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوں گے‘‘۔ اس جملے میں ان کا اشارہ چینی مسابقت کے چیلنج کی جانب تھا ۔

امریکہ کے صدر نے اپنی اس تقریر میں نہایت صاف اعتراف کیا تھا کہ امریکہ انتقام لینے کی خاطر افغانستان گیا تھا اور یہ بھیتسلیم کیا کہ ’’ہم ملکی تعمیر کا مقصد لے کر افغانستان نہیں گئے تھے‘‘۔ اس تناظر میں طالبان کے حوالے کرکے لوٹنے پر اعتراض کرنے والوں کی خدمت میں ان کا صاف اور واضح جواب یہ تھا کہ ’ یہ (ملک کی تعمیر)صرف افغان عوام کا حق اور ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں اور یہ طے کریں کہ وہ اپنے ملک کو کس طرح چلانا چاہتے ہیں‘۔ کاش کے یہ بات جو اب جو بائیڈن کی سمجھ میں آئی ہے ان کے پیش رو صدور کی عقل میں آجاتی ہے اور ممکن ہے کہ آئی بھی ہو لیکن سیاسی و انتخابی مجبوریاں ان کے آڑے آگئیں۔ جو بائیڈن پر فی الحال تنقید کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ پچھلے سال فروری میں مئی 2020 تک انخلاء کا معاہدہ کردیا تھا لیکن دوبارہ اقتدار میں آنے کی لالچ میں اس پر عمل در آمد کرنے سے قاصر رہے۔ موجودہ صدر نے اپنے ناقدین کی پرواہ کیے بغیر ایک جرأتمندانہ فیصلہ کیا اور اس کے لیے امریکی قوم ان کی احسانمند رہے گی ۔

طالبان نے تو پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ 31؍ اگست تک اگر امریکہ اپنا انخلا مکمل نہ کرے تو اس کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کو قبضے میں توسیع سمجھا جائے گا اور اس کے نتائج کی خاطر وہ خود ذمہ دار ہو گا۔ اس کے مطابق امریکہ کی جانب سے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نے آخری طیارے کے کابل ایئرپورٹ سے نصف شب میں پرواز کرنے کی خبر دی ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ انخلا کے آخری گھنٹوں میں امریکی فوجیوں کو انتہائی ڈرامائی حالات میں اپنی ذمہ داریاں نبھانی پڑیں۔ انہیں خود کو مع ساز و سامان بحفاظت طیارے میں سوار ہونا تھا بلکہ داعش کی جانب سے درپیش خطرات اور دھمکیوں پر بھی نظر رکھنی تھی۔ آخری دن داعش کی جانب سے کابل ہوائی اڈے پر داغے جانے والے کئی راکٹوں کو امریکہ کے میزائل ڈیفنس سسٹم نے مار گرایا۔اس سے چار دن قبل ہوائی اڈے کے باہر ایک خودکش حملے میں 180؍ افغان شہری اور امریکی فوج کے 13؍ اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کا انتقام لینے کی خاطر امریکہ نے ڈرون حملہ کیا جس میں ایک خاندان کے ۹؍ لوگ شہید ہوئے جن میں ۶ بچے تھے اور ان کی عمریں ۶ سال سے ۲ سال تک تھی۔ اس امریکی حملے نے گزشتہ بیس سالوں میں ہونے والے مظالم کی یاد تازہ کردی ۔

اس موقع پر قومی میڈیا سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اپنے لیے آزادی کو رحمت سمجھنے والے لوگ افغانیوں کی خاطر غلامی کو نعمت کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ اشرف غنی جیسا غیر ملکیوں کا کٹھ پتلی ان پر مسلط رہے جو آزمائش کے وقت چار گاڑیوں اور ایک ہیلی کاپٹر میں نوٹ بھر کر فرار ہوجاتاہے؟ کیا ان کی خواہش ہے کہ امراللہ صالح جیسا نائب صدر پھر سے اقتدار پر قابض ہوجائے جو کھلے عام طالبان کے خلاف امریکہ سے مدد مانگ کر پھر ایک بارغیر ملکی غلامی کا قلادہ قوم کے گلے میں ڈالنا چاہتاہے؟ جو لوگ طالبان کے اقتدار سے نالاں ہیں ا نہیں یہ بتانا پڑے گا کہ موجود امکانات میں سے وہ کیا چاہتے ہیں؟ ہوائی اڈے پر ملک سے فرار ہونے والوں کا منظر دکھا کر ڈرانے والوں سے یہ سوال بھی ہے کہ افغانستان کے اندر حکومت کی تشکیل نو میں مصروف احمد مسعود ، عبداللہ عبداللہ ، حامد کرزئی اور گلبدین حکمت یار کو ڈر کیوں نہیں لگتا؟ اشرف غنی کے بھائی شفیق غنی بلا خوف و خطر طالبان سے ہاتھ کیسے ملالیتے ہیں؟ ایسے میں ہوائی اڈے کی جانب بھاگنے والے کون لوگ تھے؟ افغانستان کے اندر بیس سالہ طویل خانہ جنگی کے بعد غیر ملکی تسلط سے مکمل آزادی کو حاصل کیے اب تک صرف ایک دن گزراہے۔ اس لیے دھیرج رکھنا چاہیے کیونکہ بقول شاعر ؎
دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
رنجشوں کے مٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452747 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.