ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب وزیر اعظم سپر اسٹار ہوا
کرتے تھے۔ وہ ساری دنیا میں گھوم گھوم کر تقریریں کرتے اور لوگ جھوم جھوم
کر ان کوسنتے اور سر دھنتے ۔ ان کی ہر بات اسی طرح ہِٹ ہوجایا کرتی تھی
جیسے آج کل ہر تقریر فلاپ ہوجاتی ہے۔ لوگ پیسے لے کر اپنے اخبار کے پہلے
صفحہ پر اس کو جگہ نہیں دیتے کیونکہ اسے پڑھنا ہی نہیں چاہتا۔ ویڈیو کے
نیچے کمنٹ بکس بند کرنا پڑتا ہے اس لیے کہ اجرت لے کر تعریف کرنے والوں سے
کہیں زیادہ مفت میں تنقید کرنے والے جمع ہو جاتے ہیں خیر اس زمانے میں
نریندر مودی نے دبئی کا دورہ کیا تھا اور انہیں سب سے اعلیٰ قومی اعزاز سے
نوازہ گیا تھا ۔ اس دوران 17؍ اگست 2015 کو انہوں نے کرکٹ اسٹیڈیم کے اندر
ہندوستانیوں کے جم غفیر (جنھیں زبردستی وہاں لایا گیا تھا) سے کہا تھا کہ
اچھی یا بری دہشت گردی اور اچھے یا برے طالبان اب مزید نہیں چلیں گے بلکہ
اب وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف دنیا حتمی جنگ کرے۔ کون جانتا تھا
ٹھیک 6؍ سال کے بعد بازی الٹ جائے گی اور ان کو اپنے یہ الفاظ کنکر پتھر کی
مانند چبانا پڑ جائیں گے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ جو لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں انہیں
سخت سزا دی جائے ۔ دنیا کو یہ طے کرنا ہوگا کہ انہیں ان لوگوں کےساتھ رہنا
ہے جو دہشت گردی کے حمایت کرتے ہیں یا ان کے خلاف جانا ہے۔ اب جبکہ
ہندوستانی وزارتِ خارجہ نے افغانستان امریکی فوج کے انخلا کے بعد پہلی
مرتبہ طالبان کی اعلیٰ ترین قیادت سے باضابطہ طور پر رابطہ کااعلان کردیا
ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون کس کے ساتھ ہے؟ یہ ملاقات قطر کے
دارالحکومت دوحہ میں ہندوستان کے سفیر اور سیاسی امور کے طالبانی سربراہ کے
درمیان ہوئی۔ اس کی بابت ہندوستان کی وزارتِ خارجہ نے دعویٰ کیا کہ ان کے
سفیر دیپک متل سے ملنے کی خاطر طالبان رہنما شیر محمد عباس ستانکزی
ہندوستانی سفارتخانے میں آئے۔ یہ ایک عجیب و غریب بات تھی مستقبل میں
افغانستان کا متوقع وزیر خارجہ ازخود درخواست کرکے ہندوستانی سفارت خانے
میں ملاقات کے لیے آئے لیکن برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس کی تردید
کردی ۔ اس کے مطابق یہ ملاقات دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے اندر ہوئی
جو قابلِ فہم ہے ۔
ہندوستانی وزارتِ خارجہ کے مطابق ملاقات میں امریکہ کے انخلا کے بعد
افغانستان میں رہ جانے والے ہندوستانی شہریوں کے تحفظ اور ان کی جلد از جلد
بحفاظت وطن واپسی کے بارے میں بات ہوئی ہے جو ایک جائز تشویش ہے۔ اسی طرح
ہندوستانی سفیر نےہندوستان کا سفر کرنے کی خواہش مند افغان شہریوں اور خاص
طور پر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افغان شہریوں کا معاملہ بھی اٹھایا۔ اس
گفتگو کے بعد کشمیر سے متعلق طالبان کا یہ موقف سامنے آیا کہ وہ کشمیر
سمیت دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کا حق رکھتے
ہیں ۔ طالبان کے ترجمان شاہین سہیل نے واضح کیا کہ ’ ہم اپنی آواز بلند
کریں گے اور یہ کہیں گے مسلمان آپ کے اپنے لوگ ہیں، آپ کے اپنے شہری ہیں۔
آپ کے قانون کے تحت وہ برابری کے حقوق کے مستحق ہیں‘۔ یہ نہایت معقول بات
ہے کیونکہ ہندوستانی سفیر افغانستانی شہریوں اور اقلیتوں سے متعلق اپنی
تشویش کا اظہار کرسکتا ہے تو وہ کیوں نہیں کرسکتے ؟ تعلقات تو برابری کی
بنیاد پر ہی قائم ہوں گے ۔ ویسے طالبان نے روس اور چین کے علاوہ خطے کے
تمام ملکوں کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی
دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس ملاقات کے گودی میڈیا میں طالبان کےخلاف جو ہنگامہ برپا تھا اس میں قدرے
کمی آئی ہے ورنہ تو منفی اور خوفزدہ کرنے والی خبروں کا سیلاب آیا ہوا
تھا۔ ایسے میں کسی فردِ بشر کا آزادی کے ساتھ سوچنا اور اپنی مختلف رائے
کو بیان کرنا ایک مشکل ہوگیا تھا ہر کوئی ایک رو میں بہا جارہا تھا اور
کوئی اس سے ہٹ کر کہتا تو بھکت اس کے پیچھے پڑجاتے۔ ایسے ماحول میں بی جے
پی کے سابق رہنما اور اٹل جی کی سرکار کے اندر مرکزی وزیر خارجہ وخزانہ رہے
یشونت سنہا سب سے پہلے کھل کر اپنی بات رکھی ۔ وہ ٹیلی ویژن چینلس پر ببانگ
دہل طالبان کی حمایت میں یہ کہتے پھر رہےتھے کہ بہتر طریقہ پر حکومت چلانے
کا جو وعدہ طالبانی کر رہے ہیں، اس پر بھروسہ کر کے دیکھا جانا چاہیے۔ ’آج
تک‘ نامی معروف چینل پر ایک انٹرویو کے دوران جب ان سے یہ پوچھا کیا گیا کہ
طالبان کے دعوے الگ ہیں، تو اس کے جواب میں یشونت سنہا نے کہا کہ’’ہم یہ
نہیں کہہ رہے کہ طالبان جو بول رہا ہے اس پر یقین کر لیں، لیکن جو بول رہا
ہے اس کو ’آؤٹ آف ہینڈ‘ نہ لیں، یعنی سرے سے خارج نہ کریں۔ تصدیق کرنے
کے بعد ہی بھروسہ کریں‘‘۔
ذرائع ابلاغ کی مہربانی سے قومی سطح پر اس طرح کی کشادہ دلی کا اس وقت
زبردست فقدان پایا جاتا تھا ۔ یشونت سنہا سے جب سوال کیا گیا کہ لوگ جو
پرانی باتیں سنا رہے ہیں کیا انھیں ان میں طالبان کی بربریت نظر نہیں آتی؟
تو ان کا جواب تھا ’’ٹھیک ہے ، بہت سارے خوفناک مناظر دیکھنے کو ملے ہیں،
اور بہت سارے ملک ہیں، ہمارا ملک بھی ہے جہاں اس طرح کے خوفناک مناظر
دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ لیکن اس سے ہم پورے ملک کو غلط نہیں ٹھہرا سکیں گے۔‘‘
یشونت سنہا کے موقف کی تائید میں طالبان رہنما ملا عبدالسلام ضعیف نے
اخباری ترجمانوں سے بات چیت میں کہا ہے کہ طالبان پہلے ہی سے اپنے عہد کی
پاسداری کر رہے ہیں ۔ ان کے مطابق وہ اپنے سخت گیر دور کو دہرانے کا کوئی
ارادہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اب لوگوں کی زندگیاں
معمول پر لوٹ چکی ہیں، حالانکہ ذرائع ابلاغ میں طالبان کو بدنام کیا جا رہا
ہے۔
سابق طالبان سفیر نے اس تصور کو عام کرنا ایک بڑی سازش قرار دیا جس کے تحت
یہ بات پھیلائی جاتی ہے کہ طالبان برے لوگ ہیں، عوام اور تعلیم کے خلاف ہیں۔
ان کے مطابق جب وہ کابل میں لوگوں سے بات کرتے ہیں تو انہیں خوش پاتے ہیں۔
31؍اگست سے قبل انہوں نے وضاحت کی تھی کہ قانونی انداز میں کابل ائیرپورٹ
جانے والوں کو طالبان نہیں روک رہے ہیں لیکن جو افغانی باشندے بغیر
دستاویزات کے باہر جانے کے لئےہوائی اڈے پر آرہے ہیں وہ افراتفری کو بطور
بہانا استعمال کرتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ طالبان کے حوالے سے اندیشوں
کا اظہار کرنے والی خبروں کی تو خوب پذیرائی ہوتی ہے مگر جب عبدالسلام ضعیف
جیسا رہنما یہ کہتا ہے کہ کسی سے کوئی بدلہ یا انتقام نہیں لیا جا رہا تو
اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔
افغانستان میں حالات کا معمول پر آنا افغانیوں اور طالبان کے دشمنوں کو
راس نہیں آیا اس لیے انہوں نے کابل ہوائی اڈے کے باہر یکے بعد دیگرے دو
خود کش حملے کردیئے جن میں ہلاکتوں کی تعداد 180ہوگئی۔ان 13 امریکی فوجی
بھی شامل تھے ۔ ایک نامعلوم طالبان رہنما کے مطابق ان کے 28 ارکان بھی شہید
ہوئےنیز کئی لوگوں کےزخمی ہونے کی خبر بھی آئی ۔یہ سانحہ اگر دوہفتہ قبل
رونما ہوگیا ہوتا تو اسے طالبان سے جوڑ دیا جاتا لیکن اب اس کی ذمہ داری
کالعدم داعش خراسان نے قبول کرلی ہے جو ایک مشکوک گروہ ہے ۔ یہ حملہ غیر
متوقع نہیں تھا کیونکہ امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے ایک دن قبل اپنے
شہریوں کو کابل ایئر پورٹ کے قریب جانے سے منع کردیا تھا۔امریکی حکام نے
اسے منظم منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی حرکت قرار دیا ۔ امریکی کمانڈر
جنرل مک کینزی نے داعش کے حملے کا خدشہ ظاہر کرنے کے باوجود انخلا کا عمل
جاری رکھنے کا یقین دلایا تھا جو پورا ہوا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے حملہ آوروں سے انتقام لینے کی قسم کھائی تھی اور
اس طرح بدلہ لیا کہ ایک خاندان کے 6؍ معصوم بچوں کو شہید کردیا۔بائیڈن نے
کہا تھا کہ انہیں داعش/خراسان کے ہوائی اڈے پر حملہ کرنے کی خفیہ اطلاع ملی
تھی اس کے باوجود ، وہ 31 ؍اگست تک افغانستان میں اپنا مشن ختم کرنے کے لیے
پرعزم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حملوں کے بعد اگلے ہی دن انخلاء دوبارہ شروع کرنے
کا اعلان کردیا گیا ۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دھماکے کی مذمت
کرتے ہوئے واضح کردیا کہ جس مقام پر دھماکہ ہوا وہاں سیکیورٹی کی ذمہ داری
امریکی فورسز کی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے لیے طالبان کو موردِ
الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ انہوں نے شرپسندوں سے پوری طاقت کے ساتھ نمٹنے
کا عزم دوہرایا۔ اس حملے سے یہ ثابت ہوگیا کہ طالبان خود شرپسندی کا شکار
ہیں اور حتی الوسع اس کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ اس لیے وہ تمام لوگ جو
افغانستان میں حالات کو معمول پر لانے کے خواہشمند ہیں انہیں یشونت سنہا
جیسے لوگوں کا موقف کی جانب توجہ دے کر نئی حکومت کی مخالفت کرنے کے بجائے
اس سے تعاون کرنا چاہیے ۔ دوحہ کے اندر ہندوستانی سفیر دیپک متل کی طالبان
رہنما شیر محمد عباس ستانکزی سے ملاقات اس جانب ایک مثبت قدم ہے۔ ایسے میں
امجد اسلام امجد کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
حادثہ بھی ٹلنے میں وقت کچھ تو لیتا ہے
بخت کے سنورنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
|