ملا عبدالغنی برادر نئی افغان طالبان حکومت کے سربراہ

آخر کار سوپرپاور اپنی ناکام افغان جنگ کے بعد گھر واپس لوٹ ہی گیا۰۰۰

آخر کارسوپر پاور امریکہ نے اپنے فوجیوں کو 31؍ اگست 2021ڈیڈ لائن کی تاریخ کے مطابق افغانستان سے نکالنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ ذرائع ابلاغ سے جمعہ تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق ملا ہیبت اﷲ کو طالبان کا سپریم لیڈر اور ملا عبدالغنی برادر کو حکومت کا سربراہ بنائے کا امکان ہے۔ جبکہ طالبان کے بانی ملا محمد عمر کے صاحزادے ملا محمد یعقوب ، قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ڈپٹی ڈائریکٹر شیر محمد عباس ستانکزئی ،طالبان ترجمان ذبیح المجاہد، سراج الدین حقانی کو بھی کابینہ میں شامل کئے جانے کا امکان ہے۔ اس کے طالبان حکومت میں عبداﷲ عبداﷲ ، حامد کرزئی ، گلبدین حکمت یار سمیت دیگر کئی افغان رہنماؤں کو حکومت میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ واضح رہیکہ طالبان نے 15؍ اگست کو کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا اور انہو ں نے یہ اعلان کیا تھا کہ جب تک افغانستان میں امریکہ کا ایک بھی فوجی موجود رہے گا تب تک طالبان نہ تو حکومت کا اعلان کرینگے اور نہ ہی کابینہ کی تشکیل عمل میں لائینگے۔ اب جبکہ امریکہ کا آخری سپاہی بھی افغانستان سے جاچکا ہے ۔طالبان نے نئی حکومت کی تشکیل کے لئے بعد نماز جمعہ3؍ ستمبر کو اہم اجلاس منعقد کیا ۔ دیکھنا ہیکہ طالبان حکومت کن کن افغان رہنماؤں کو حکومت میں حصہ دار بناتی ہے ۔ حکومت کے اعلان کے بعد عالمی سطح پر کیا ردّعمل کا اظہار ہوتاہے اور کتنے ممالک افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرتے ہیں۰۰۰

امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں امریکہ اور اتحادی ممالک کی ناکام ثابت ہوئی جنگ کو مزید طول دینے اور خون خرابے سے بچنے کیلئے انتہائی صحیح اور مصلحت پسندانہ فیصلہ کیا۔امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے فوجیں نکالنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ یہ نکلنے یا لڑائی بڑھانے کے درمیان فیصلہ کرنا تھا‘‘۔ صدرجوبائیڈن نے انخلا کی کوششوں کو غیر معمولی کامیابی قرار دیا ہے۔جوبائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد 31؍ اگست کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’ہم نے افغانستان سے فوجیوں اور شہریوں کے انخلا کا خطرناک مشن پورا کیا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ 31؍ اگست کی ڈیڈ لائن کا مقصد انخلا کے عمل کو محفوظ اور یقینی بنانا تھا۔ بتایا جاتا ہیکہ 17روز تک 24گھنٹے انخلا کا عمل جاری رہا ۔ انخلا کی ڈیڈ لائن سے قبل امریکہ اور اتحادی ممالک نے ایک لاکھ 23ہزار افراد کو افغانستان سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی۔ جبکہ برطانیہ افغانستان میں رہ جانے والے متعدد برطانوی اور افغان شہریوں کے محفوظ راستے کیلئے طالبان سے مذاکرات کا عمل جاری رکھا ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے آخری فوجی کی حیثیت سے سی 17 طیارے میں سوار ہونے والے میجر جنرل کرس ڈوناہو تھے۔صدر جوبائیڈن نے انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ امریکہ کے بہترین مفاد میں ہے۔ اس جنگ کو بہت پہلے ختم ہوجانا چاہیے تھا‘‘۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’’ہم غلطیوں سے سبق سکیھیں گے اور ایسے اہداف بنائینگے جنہیں حاصل کیا جاسکے‘‘۔ انکا مزید کہنا تھا کہ دنیا بدل رہی ہے ، ہمیں روس اور چین کی جانب سے نئے چیلنجز کا سامنا ہے، روس اور چین چاہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں الجھا رہے‘‘۔ امریکہ اور اتحادیوں کے انخلاکے بعد طالبان نے فائرنگ کے ذریعہ جشن منایا۰۰۰ ذرائع ابلاغ کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے کہا کہ افغانستان میں دنیا کے نصف ممالک شکست کھاگئے جبکہ افغانستان پر جارحیت کا ارادہ رکھنے والی طاقتیں آج شکست سے سبق حاصل کریں۰۰۰انہوں نے 31؍ اگست کے حوالے سے کہا کہ ’’طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعدآج افغانستان غیر ملکی تسلط سے مکمل طور پر آزاد ہوگیا ہے، افغانستان کے عوام کیلئے تشکر جبکہ جارحیت کرنے والی طاقتوں کیلئے سبق حاصل کرنے کا دن ہے۔امریکہ اور غیر ملکیوں کے انخلا کے بعد انہوں نے کہا کہ کابل ایئر پورٹ طالبان کے کنٹرول میں ہے اور وہاں خصوصی دستے تعینات ہیں۔ حکومت سازی کے سلسلہ ذبیح اﷲ مجاہد نے کہا کہ ’’حکومت سازی حتمی مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور آئندہ چند روز میں یہ مرحلہ بھی مکمل ہوجائے گا‘‘۔ انہوں نے طالبان کے امیر ہیبت اﷲ اخونزادہ کے سلسلہ میں کہا کہ وہ بہت جلد عوام کے درمیان ہونگے او رحکومت سازی کا اعلان کرینگے۰۰۰اسی طرح افغان طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کے نائب اور مذاکراتی ٹیم کے رکن شیر محمد عباس ستانکزئی نے افغانستان میں نئی حکومت کے سلسلہ میں کہا ہے کہ حکومت کا اعلان تین دنوں تک ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ اس نئی حکومت میں گذشتہ بیس سال کے دوران حکومت میں رہنے والے افراد کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن بعض ذرائع ابلاغ سے ملنے والے اطلاعات میں چند سابق حکومت میں شامل رہنماؤں کو شامل کئے جانے کا امکان ہے ۔ستانکزئی نے کہا کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی اسلامی امارت ایک ایسی حکومت بنائے جس کو افغانستان کے اندر اور باہر حمایت حاصل ہو۔ انکا کہنا ہے کہ یہ ایک انکلسیو حکومت ہوگی اور افغانستان کے تمام اقوام کی نمائندہ ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نئی حکومت میں متقی و پرہیزگار اور تعلیم یافتہ افراد شامل ہونگے۔

ادھر چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وینگ وین بِن نے طالبان پر ایک بار پھر زور دیا کہ وہ شراکت داری پر مبنی حکومت کا قیام عمل میں لائیں اور دہشت گرد تنظیموں سے رابطہ منقطع کردیں۔ انہوں نے افغانستان میں قیامِ امن اور تعمیر نو کے کام میں مدد کرنے کی پیشکش کی ہے۔چین اور روس کی جانب سے افغانستان کی جانب بڑھتے جھکاؤ پر امریکی ایوان نمائندگان میں مسلح افواج کی کمیٹی کے سربراہ ایڈم اسمتھ نے کہا ہیکہ افغانستان سے امریکی انخلا سے امریکہ اور حریف سوپر پاور روس اور چین کے درمیان توازن میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ انہو ں نے ان تجاویز کو مسترد کردیا کہ امریکیوں کی جانب سے کمزوری کا وقتی مظاہرہ چین کو تائیوان یا روس کو یوکرین پر حملہ کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سارے ایسے دوسرے مسائل ہیں جو روس اور چین کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے ان حصوں میں جارحانہ اقدامات کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں‘۔ پینٹاگون کے سابقہ عہدیدار اور اب رینڈ کارپوریشن تھنک ٹینک کے دفاعی ماہر ڈیرک گراس مین نے کہا ہیکہ چین طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دے کر فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ انکا کہنا ہیکہ بیجنگ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا جلد فیصلہ کرسکتا ہے لیکن واشنگٹن او ردیگر مغربی حکومتیں فی الحال ایسا نہیں کرینگی کیونکہ وہ امید کرتی ہیں کہ وہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کو اپنی سخت گیر پالیسیوں میں اعتدال لانے پر راضی کرینگی۔ گراس مین کا کہنا ہیکہ ’چین امریکہ کے ساتھ مقابلے میں ایک نئی بڑی طاقت کے طور پر شاید عالمی واقعات کو سنبھالنے کے اپنے انوکھے طریقے کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے جو اکثر واشنگٹن کے نقطہ نظر کے برعکس ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ طالبان کے زیر انتظام افغانستان کو تسلیم کرنے سے یہ تاثر ملے گا کہ اب ایجنڈا واشنگٹن نہیں بلکہ بیجنگ ترتیب دیا رہا ہے اور وہی مستقبل کے علاقائی نظام کو تشکیل دے رہا ہے۔یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ امریکہ کو یہ تشویش لاحق ہے کہ چین اور روس افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرکے اور ممکنہ حد تک تعاون کرکے اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ چین افغانستان میں اپنی اجارہ داری قائم کرے۔ اب دیکھنا ہیکہ طالبان چین کے ساتھ کس حد تک تعلقات قائم کرتے ہیں کیونکہ چین ایغور مسلمانوں کے ساتھ جس طرح کا ظالمانہ برتاؤ کرتا ہے اسے دنیا جانتی ہے۔ ایغور مسلمانوں کے ساتھ چینی حکومت کا رویہ خطرناک حد تک ظالمانہ رہا ہے اس کے باوجود طالبان افغانستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے چین سے مدد حاصل کرتے ہیں تو اسلام پسند لوگوں یا طاقتوں کے لئے یہ ناخوشگوار ہوگا۰۰۰

ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندوستانی وزارتِ خارجہ نے بھی افغانستان پر طالبان کے قبضے اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد پہلی مرتبہ طالبان کی اعلیٰ قیادت سے 31؍ اگست ،منگل کو باضابطہ رابطہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہندوستانی سفیردیپک متل اور طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی کے درمیان ملاقات ہوئی۔ امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان میں رہ جانے والے ہندوستانی شہریوں کے تحفظ اور ان کی جلد از جلد بحفاظت ہندوستان واپسی کے بارے میں بات چیت ہوئی۔دوحہ میں طالبان نے ہندوستان کو یقین دہانی کروائی ہے کہ افغان سرزمین انڈیا مخالف سرگرمیوں کے لئے استعمال نہیں ہونے دینگے۰۰۰ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہندوستان سابق اشرف غنی افغان حکومت کے ساتھ قریبی سفارتی اور سیاسی تعلقات رکھے ہوئے تھا اور گذشتہ بیس سالوں کے دوران ہندوستانی حکومت نے افغانستان میں مختلف ترقیاتی منصوبوں پرکم و بیش تین ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ افغانستان میں نئی طالبان حکومت کے قیام کے بعد ہندوستان اور افغانستان کے درمیان کس قسم کے تعلقات قائم ہوتے ہیں۔کیونکہ چین اور روس افغانستان میں طالبان کے ساتھ بہتر سے بہتر تعلقات قائم کرنے اور انہیں ممکنہ حد تک تعاون کرنے کی پیشکش کی ہے۔

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد گذشتہ دنوں افغان ایئر پورٹ پر جو خودکش حملے کئے گئے جس میں کم و بیش دو سو افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں ان حملوں کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی ہے۔ امریکہ نے ان دہشت گردانہ حملوں کے بعد داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کرکے کہا ہیکہ ان حملوں کے ماسٹر مائنڈ کو ہلاک کردیا گیا ہے ۔ البتہ طالبان نے کہا ہیکہ وہ داعش کے حملوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرینگے اور امریکی و اتحادی افواج کے ڈیڈ لائن کے اختتام سے قبل طالبان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی افواج کے ملک سے نکل جانے کے بعد داعش کے حملے ختم ہوجائینگے۔ طالبان ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے داعش کے تعلقسے کہا ہیکہ وہ غیر ملکیوں کی غیر موجودگی میں اسلامی حکومت کی تشکیل دیکھ کر اپنی کارروائیاں ترک کردیں گے۔ انہو ں نے مزید کہا کہ اگر وہ جنگ کی صورتحال پیدا کرتے ہیں اور اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں تو ہم ان سے نمٹیں گے۔ افغانستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے حالات انتہائی کشیدہ رہے ہیں۔ اب جبکہ طالبان نے افغانستان پر قبضہ حاصل کرلیا ہے اور کسی دوسرے ملک کی افغانستان پر اجارہ داری نہیں ہے تو ان حالات میں دیکھنا ہیکہ افغانستان کس حد تک اپنی معیشت کو بہتر و مستحکم بنانے میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ عالمی مالیاتی ادارہ اور امریکہ نے افغانستان کو امداد بند کردی ہے اور اس کے کھاتوں کو منجمد کردیا ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے قبل تک عالمی سطح پر طالبان کے خلاف آوازیں اٹھتی رہی ہیں لیکن اب دیکھنا ہیکہ آئندہ چند دنوں کے اندر طالبان کی جانب سے افغانستان میں اسلامی حکومت تشکیل دینے کے بعد کس قسم کے حالات پیدا ہوتے ہیں۔ داعش اور دیگر دہشت گرد یا سخت گیر تنظیمیں اگرافغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر افغانستان میں قیامِ امن ممکن دکھائی دیتا ہے۔ پڑوسی ممالک ہندوستان، پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر اور خوشگوار بنانے کیلئے بھی طالبان کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے پڑینگے کیونکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جس طرح کے تعلقات ہیں ان دونوں کے درمیان طالبان کس قسم کا رول ادا کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۰۰۰ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ طالبان نے جس طرح چند دنوں میں افغانستان پر بغیر خون خرابے کے قبضہ حاصل کیا یہ ایک یادگار اورتاریخی واقعہ ہے ، اسے تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔ امریکی صدر جوبائیڈن ہو کہ افغان سابق صدر اشرف غنی یا پھر عالمی سوپر پاور طاقتیں ہر ایک کو طالبان نے حیرت زدہ کرکے رکھدیا۔ پڑوسی ممالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات خوشگوار بنائے رکھیں کیونکہ اسی میں ہر دوکیلئے بھلائی اور ترقی مضمر ہے ۰۰۰
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 208656 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.